صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ
لباس اور زینت کے احکام
The Book of Clothes and Adornment
3ق. باب تَحْرِيمِ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَغَيْرِ ذٰلَكَ لِلرِّجَالِ
باب: مردوں کے لیے ریشم وغیرہ پہننے کی حرمت کے بیان میں۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 5401
Save to word اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان عمر بن الخطاب راى حلة سيراء عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها للناس يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة "، ثم جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل، فاعطى عمر منها حلة، فقال عمر: يا رسول الله، كسوتنيها وقد قلت في حلة عطارد ما قلت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لم اكسكها لتلبسها "، فكساها عمر اخا له مشركا بمكة.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قال: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةً سِيَرَاءَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ فَلَبِسْتَهَا لِلنَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ "، ثُمَّ جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ، فَأَعْطَى عُمَرَ مِنْهَا حُلَّةً، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَسَوْتَنِيهَا وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا "، فَكَسَاهَا عُمَرُ أَخًا لَهُ مُشْرِكًا بِمَكَّةَ.
مالک نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے قریب (بازار میں) ایک ریشمی حُلَہ (ایک جیسی رشیمی چادروں کا جوڑا بکتے ہو ئے) دیکھا۔انھوں نے کہا: کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کتنا اچھا ہو اگر آپ یہ حلہ خریدلیں اور جمعہ کے دن لوگوں کے سامنے (خطبہ دینے کے لیے) اور جب کوئی وفد آپ کے پاس آئے تو اسے زیب تن فرما ئیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: "اس کو (دنیا میں) صرف وہ لو گ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان میں سے کچھ ریشمی حلے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک حلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عطا فرما یا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے مجھے یہ حلہ پہننے کے لیے دیا ہے حالانکہ آپ نے عطارد (بن حاجب بن ز رارہ جو مسجد کے دروازے کے باہر حلے بیچ رہے تھے) کے حلے کے بارے میں جو فرما یا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " میں نے یہ حلہ تم کو پہننے کے لیے نہیں دیا۔"پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ حلہ مکہ میں اپنے ایک بھا ئی کو دے دیا جو مشرک تھا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کے دروازہ کے پاس ایک ریشمی دھاری دار جوڑا دیکھا تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اے کاش، آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن لوگوں کے لیے اور وفد کے لیے جب وہ آپ کے پاس آئیں پہن لیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو تو بس وہ لوگ پہنتے ہیں، جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، یعنی کافر پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس قسم کے جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت فرمایا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے یہ مجھے عنایت کیا ہے، حالانکہ آپ عطارد کے حلہ (جوڑا) کے بارے میں جو کہہ چکے ہیں، آپ کو معلوم ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ پہننے کے لیے نہیں دیا ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ مکہ میں اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5402
Save to word اعراب
وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي . ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة . ح وحدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا يحيي بن سعيد كلهم، عن عبيد الله . ح وحدثني سويد بن سعيد ، حدثنا حفص بن ميسرة ، عن موسى بن عقبة كلاهما، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحو حديث مالك.وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ كُلُّهُمْ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِيثِ مَالِكٍ.
عبید اللہ اور موسیٰ بن عقبہ دونوں نے نا فع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مالک کی حدیث کی طرح روایت کی۔
امام صاحب یہی روایت اپنے چار اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5403
Save to word اعراب
وحدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا جرير بن حازم ، حدثنا نافع ، عن ابن عمر ، قال: راى عمر عطاردا التميمي يقيم بالسوق حلة سيراء، وكان رجلا يغشى الملوك ويصيب منهم، فقال عمر: يا رسول الله، إني رايت عطاردا يقيم في السوق حلة سيراء، فلو اشتريتها فلبستها لوفود العرب إذا قدموا عليك واظنه، قال: ولبستها يوم الجمعة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما يلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة "، فلما كان بعد ذلك اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بحلل سيراء، فبعث إلى عمر بحلة وبعث إلى اسامة بن زيد بحلة، واعطى علي بن ابي طالب حلة، وقال: شققها خمرا بين نسائك، قال: فجاء عمر بحلته يحملها، فقال: يا رسول الله، بعثت إلي بهذه وقد قلت بالامس في حلة عطارد ما قلت، فقال: " إني لم ابعث بها إليك لتلبسها، ولكني بعثت بها إليك لتصيب بها "، واما اسامة فراح في حلته، فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم نظرا، عرف ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد انكر ما صنع، فقال: يا رسول الله، ما تنظر إلي فانت بعثت إلي بها، فقال: " إني لم ابعث إليك لتلبسها، ولكني بعثت بها إليك لتشققها خمرا بين نسائك ".وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قال: رَأَى عُمَرُ عُطَارِدًا التَّمِيمِيَّ يُقِيمُ بِالسُّوقِ حُلَّةً سِيَرَاءَ، وَكَانَ رَجُلًا يَغْشَى الْمُلُوكَ وَيُصِيبُ مِنْهُمْ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَأَيْتُ عُطَارِدًا يُقِيمُ فِي السُّوقِ حُلَّةً سِيَرَاءَ، فَلَوِ اشْتَرَيْتَهَا فَلَبِسْتَهَا لِوُفُودِ الْعَرَبِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ وَأَظُنُّهُ، قَالَ: وَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ "، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحُلَلٍ سِيَرَاءَ، فَبَعَثَ إِلَى عُمَرَ بِحُلَّةٍ وَبَعَثَ إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ بِحُلَّةٍ، وَأَعْطَى عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ حُلَّةً، وَقَالَ: شَقِّقْهَا خُمُرًا بَيْنَ نِسَائِكَ، قَالَ: فَجَاءَ عُمَرُ بِحُلَّتِهِ يَحْمِلُهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَعَثْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ وَقَدْ قُلْتَ بِالْأَمْسِ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ، فَقَالَ: " إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ بِهَا إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا، وَلَكِنِّي بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتُصِيبَ بِهَا "، وَأَمَّا أُسَامَةُ فَرَاحَ فِي حُلَّتِهِ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرًا، عَرَفَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَنْكَرَ مَا صَنَعَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَنْظُرُ إِلَيَّ فَأَنْتَ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِهَا، فَقَالَ: " إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا، وَلَكِنِّي بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتُشَقِّقَهَا خُمُرًا بَيْنَ نِسَائِكَ ".
جریر بن حازم نے کہا: ہمیں نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سےروایت بیان کی کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ عُطارد تمیمی بازار میں ایک ریشمی حلہ (بیچنے کے لیے) اس کی قیمت بتا رہا ہے۔ یہ بادشاہوں کے پاس جایا کرتا تھا اور ان سے انعام واکرا م وصول کرتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے عطارد کو دیکھا ہے وہ بازار میں ایک ریشمی حلہ بیچ رہا ہے، آپ اسے خرید لیتے تو آپ عرب کے وفود آتے (اس وقت) آپ اس کو زیب تن فرما تے اور میراخیال ہے (یہ بھی) کہا: اور جمعہ کے دن بھی آپ اسے زیب تن فرما تے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرما یا: " دنیا میں ریشم صرف وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو تا۔اس واقعے کے بعد (کا ایک دن آیاتو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کئی ریشمی حلے آئے آپ نے ایک حلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھی بھیجا، ایک حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور ایک حلہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیا اور فرما یا: "اس کو پھاڑ کر اپنی عورتوں کو دوپٹے بنا دو۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے حلے کو اٹھا کر لا ئے اور عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے یہ حلہ میرے پاس بھیجا ہے حالانکہ آپ نےکل ہی عطارد کے حلے کے متعلق فرمایا تھا۔جو آپ نے فرما یا تھا؟ آپ نے فرمایا: " میں نے تمھا رے پاس یہ حلہ اس لیے نہیں بھیجا کہ اسے تم خود پہنو، بلکہ میں نے تمھا رے پاس یہ اس لیے بھیجا ہے کہ تم کچھ (فائدہ) حاصل کرو۔ "تو رہے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ تو وہ اپنا حلہ پہن کر آگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس طرح دیکھا جس سے انھیں پتہ چل گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا ایسا کرنا پسند نہیں آیا امھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں؟ آپ ہی نے تو اسے میرے پاس بھیجا تھا۔ آپ نے فرما یا: " میں نے تمھا رے پاس اسلیے نہیں بھیجا تھا کہ تم خود اس کو پہن لو۔بلکہ میں نے اس لیے اس حلے کو تمھا رے پاس بھیجا تھا کہ تم اس کو پھاڑ کر اپنی عورتوں میں دوپٹے بانٹ دو۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عطارد تیمی کو دیکھا، بازار میں ایک ریشمی دھاری دار جوڑا فروخت کر رہا ہے، وہ ایسا آدمی تھا، جو بادشاہوں کے پاس جاتا اور ان سے انعام پاتا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے عطارد کو دیکھا ہے، وہ بازار میں ریشمی دھاری دار جوڑا فروخت کرنا چاہتا ہے، اے کاش! آپ اسے خرید لیں اور عربی وفود جب آپ کے پاس آئیں تو اسے پہن لیں اور میرے خیال میں یہ بھی کہا: جمعہ کے دن پہن لیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا: اس کو دنیا میں صرف وہ لوگ پہنتے ہیں، جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس قسم کے جوڑے لائے گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوڑا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھیجا، ایک جوڑا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف بھیجا اور ایک جوڑا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا اور فرمایا: اس کو پھاڑ کر اپنی عورتوں کو دوپٹے بنا دو۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا جوڑا اٹھا کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے مجھے یہ بھیج دیا ہے، حالانکہ آپ کل عطارد کے جوڑے کے بارے میں جو فرما چکے ہیں، آپ کو معلوم ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے یہ تجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے کہ اسے پہن لو، لیکن میں نے تو اس لیے بھیجا کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کر لو۔ رہے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو وہ اپنا جوڑا پہن کر چل پڑے تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نظر سے دیکھا کہ وہ سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرکت کو برا محسوس کیا ہے تو عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے کس نظر سے دیکھ رہے ہیں، آپ ہی نے تو مجھے یہ بھیجا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تیری طرف اس لیے نہیں بھیجا کہ تو اسے پہن لے، بلکہ میں نے تو تجھے اس لیے بھیجا ہے کہ تو اسے پھاڑ کر اپنی عورتوں کے لیے دوپٹے بنا، ان میں تقسیم کر دے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5404
Save to word اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، وحرملة بن يحيي ، واللفظ لحرملة، قالا: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، حدثني سالم بن عبد الله ، ان عبد الله بن عمر ، قال: وجد عمر بن الخطاب حلة من إستبرق تباع بالسوق، فاخذها فاتى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ابتع هذه فتجمل بها للعيد وللوفد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما هذه لباس من لا خلاق له "، قال: فلبث عمر ما شاء الله ثم ارسل إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بجبة ديباج، فاقبل بها عمر حتى اتى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، قلت إنما هذه لباس من لا خلاق له او إنما يلبس هذه من لا خلاق له، ثم ارسلت إلي بهذه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تبيعها وتصيب بها حاجتك ".وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، وَاللَّفْظُ لِحَرْمَلَةَ، قالا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قال: وَجَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ حُلَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ تُبَاعُ بِالسُّوقِ، فَأَخَذَهَا فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْتَعْ هَذِهِ فَتَجَمَّلْ بِهَا لِلْعِيدِ وَلِلْوَفْدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ "، قَالَ: فَلَبِثَ عُمَرُ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبَّةِ دِيبَاجٍ، فَأَقْبَلَ بِهَا عُمَرُ حَتَّى أَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ أَوْ إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ، ثُمَّ أَرْسَلْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَبِيعُهَا وَتُصِيبُ بِهَا حَاجَتَكَ ".
یو نس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے سالم بن عبد اللہ نے حدیث بیان کی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ استبرق (موٹے ریشم) کا ایک حلہ بازار میں فروخت ہو تا ہوا دیکھا انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اسے خرید لیجئے اور عید اور وفود کی آمد پر اسے زیب تن فرمائیے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ صرف ایسے شخص کا لباس ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔"کہا: پھر جب تک اللہ کو منظور تھا وقت گزرا (لفظی ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی حالت میں رہے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس دیباج کا ایک جبہ بھیج دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرما یا تھا: "یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔یاآپ نے (اس طرح) فرما یا تھا: " اس کووہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔"پھر آپ نے یہی میرے پاس بھیج دیا ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " (اس لیے کہ) تم اس کو فروخت کر دواوراس (کی قیمت) سے اپنی ضرورت پو ری کرلو۔"
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بازار میں ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے پایا تو اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی: اے اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں اور عید کے موقعہ پر اور وفد کے لیے خوش پوشی کا اظہار فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو بس ان لوگوں کا لباس ہے، جن کا کوئی حصہ نہیں ہے پھر جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا، حضرت ٹھہرے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیباج کا جبہ بھیجا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو لے کر بڑھے، حتی کہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کہہ چکے ہیں یہ تو بس ان لوگوں کا لباس ہے، جن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یا اسے تو بس وہ لوگ پہنتے ہیں، جن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر آپ نے مجھے بھیج دیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیا: اور اسے بیچ کر، اس سے اپنی ضرورت پوری کر لو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5405
Save to word اعراب
وحدثنا هارون بن معروف ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن ابن شهاب بهذا الإسناد مثله.وحدثنا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
عمرو بن حارث نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت بیان کی۔
امام صاحب ایک اور استاد سے یہی روایت اسی طرح بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5406
Save to word اعراب
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا يحيي بن سعيد ، عن شعبة ، اخبرني ابو بكر بن حفص ، عن سالم ، عن ابن عمر ، ان عمر راى على رجل من آل عطارد قباء من ديباج او حرير، فقال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: لو اشتريته، فقال: " إنما يلبس هذا من لا خلاق له "، فاهدي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حلة سيراء، فارسل بها إلي، قال: قلت ارسلت بها إلي وقد سمعتك قلت فيها ما قلت، قال: " إنما بعثت بها إليك لتستمتع بها ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ رَأَى عَلَى رَجُلٍ مِنْ آلِ عُطَارِدٍ قَبَاءً مِنْ دِيبَاجٍ أَوْ حَرِيرٍ، فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوِ اشْتَرَيْتَهُ، فَقَالَ: " إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذَا مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ "، فَأُهْدِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةٌ سِيَرَاءُ، فَأَرْسَلَ بِهَا إِلَيَّ، قَالَ: قُلْتُ أَرْسَلْتَ بِهَا إِلَيَّ وَقَدْ سَمِعْتُكَ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ، قَالَ: " إِنَّمَا بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتَسْتَمْتِعَ بِهَا ".
یحییٰ بن سعید نے شعبہ سے روایت کی، کہا: مجھے ابو بکر بن حفص نے سالم سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عطارد کے خاندان والوں میں سے ایک آدمی (کےکندھوں) پر دیباج یا ریشم کی ایک قبا دیکھی تو ا نھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: کتنا اچھا ہو اگر آپ اس کو خرید لیں! آپ نے فرمایا: "اس کو صرف وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔"پھر (بعد میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشمی حلہ ہدیہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حلہ میرے پاس بھیج دیا، کہا: میں نے عرض کی: آپ نے وہ حلہ میرے پاس بھیج دیا ہے۔جبکہ میں اس کے متعلق آپ سے سن چکا ہوں، آپ نے اس کے بارے میں جو فرمایا تھا سوفرمایا تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے اسے تمھارے پا س صرف اس لئے بھیجاہے کہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عطارد کے خاندان کے کسی آدمی کے پاس، دیباج یا ریشم کی قبا دیکھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے کاش! آپ اسے خرید لیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو صرف وہ لوگ پہنتے ہیں، جن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دھاری دار ریشمی جوڑا تحفہ میں ملا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھے (عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھیج دیا، میں نے کہا: آپ نے یہ میری طرف بھیج دیا ہے، حالانکہ میں اس کے بارے میں جو کچھ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، آپ سے سن چکا ہوں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تو تجھے صرف اس لیے بھیجا ہے، تاکہ تم اس سے فائدہ اٹھا لو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5407
Save to word اعراب
وحدثني ابن نمير ، حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، حدثنا ابو بكر بن حفص ، عن سالم بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه ، ان عمر بن الخطاب راى على رجل من آل عطارد بمثل حديث يحيي بن سعيد، غير انه، قال: إنما بعثت بها إليك لتنتفع بها ولم ابعث بها إليك لتلبسها.وحدثني ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى عَلَى رَجُلٍ مِنْ آلِ عُطَارِدٍ بِمِثْلِ حَدِيثِ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ، غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: إِنَّمَا بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتَنْتَفِعَ بِهَا وَلَمْ أَبْعَثْ بِهَا إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا.
روح نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو بکر بن حفص نے سالم بن عبداللہ بن عمر سے حدیث بیا ن کی، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے آل عطارد کے ایک آدمی (کے کندھوں) پر (بیچنے کےلیے ایک حلہ) دیکھا، جس طرح یحییٰ بن سعید کی ایک حدیث ہے۔، مگر انھوں نے یہ الفاظ کہے: "میں نے اسے تمھارے پاس صرف اس لئے بھیجا تھا کہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اس لئے تمھارے پاس نہیں بھیجا تھا کہ تم (خود) اسے پہنو۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عطارد کے خاندان کے ایک آدمی پر جیسا کہ مذکورہ بالا روایت ہے، ہاں اس میں یہ ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تو تیری طرف صرف اس لیے یہ بھیجا تاکہ اس سے فائدہ اٹھا لو اور میں نے یہ اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5408
Save to word اعراب
حدثني محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الصمد ، قال: سمعت ابي يحدث، قال: حدثني يحيي بن ابي إسحاق ، قال: قال لي: سالم بن عبد الله في الإستبرق، قال: قلت: ما غلظ من الديباج وخشن منه، فقال سمعت عبد الله بن عمر ، يقول: راى عمر على رجل حلة من إستبرق، فاتى بها النبي صلى الله عليه وسلم فذكر نحو حديثهم، غير انه، قال: فقال: إنما بعثت بها إليك لتصيب بها مالا.حدثني مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قال: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، قال: حَدَّثَنِي يَحْيَي بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، قال: قَالَ لِي: سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فِي الْإِسْتَبْرَقِ، قَالَ: قُلْتُ: مَا غَلُظَ مِنَ الدِّيبَاجِ وَخَشُنَ مِنْهُ، فَقَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يقول: رَأَى عُمَرُ عَلَى رَجُلٍ حُلَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ، فَأَتَى بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِهِمْ، غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: فَقَالَ: إِنَّمَا بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتُصِيبَ بِهَا مَالًا.
یحییٰ بن ابی اسحاق نے حدیث بیان کی، کہا: سالم بن عبداللہ نے مجھ سے استبرق کے متعلق دریافت کیا، کہا: میں نے کہا: وہ دیباج جو موٹا اور سخت ہو۔انھوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص (کے کندھے) پر استبرق کا ایک حلہ دیکھا، وہ اس (حلے) کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، پھر انھوں نے ان سب کی حدیث کے مانند بیان کیا، البتہ اس میں یہ کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نےیہ جبہ اس لئے تمھارے پاس بھیجا کہ تم اس کے ذریعے سے (اسے بیچ کر) کچھ مال حاصل کرلو۔"
یحییٰ بن ابی اسحاق بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ نے استبرق کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا: وہ دیباج جو موٹا اور کھردرا ہو تو اس نے کہا: میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ کہتے سنا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی کو استبرق کا جوڑا پہنے دیکھا تو وہ جوڑا لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آگے مذکورہ بالا راویوں کی طرح حدیث بیان کی، ہاں اس میں یہ ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تیری طرف صرف اس لیے بھیجا ہے، تاکہ تم اس سے مال و دولت حاصل کر لو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5409
Save to word اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، اخبرنا خالد بن عبد الله ، عن عبد الملك ، عن عبد الله مولى اسماء بنت ابي بكر، وكان خال ولد عطاء، قال: ارسلتني اسماء إلى عبد الله بن عمر، فقالت: بلغني انك تحرم اشياء ثلاثة العلم في الثوب، وميثرة الارجوان، وصوم رجب كله، فقال لي عبد الله : اما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الابد؟ واما ما ذكرت من العلم في الثوب، فإني سمعت عمر بن الخطاب ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إنما يلبس الحرير من لا خلاق له "، فخفت ان يكون العلم منه، واما ميثرة الارجوان فهذه ميثرة عبد الله، فإذا هي ارجوان، فرجعت إلى اسماء فخبرتها، فقالت: هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخرجت إلي جبة طيالسة كسروانية لها لبنة ديباج، وفرجيها مكفوفين بالديباج فقالت: هذه كانت عند عائشة، حتى قبضت، فلما قبضت قبضتها، وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَكَانَ خَالَ وَلَدِ عَطَاءٍ، قال: أَرْسَلَتْنِي أَسْمَاءُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَقَالَتْ: بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَرِّمُ أَشْيَاءَ ثَلَاثَةً الْعَلَمَ فِي الثَّوْبِ، وَمِيثَرَةَ الْأُرْجُوَانِ، وَصَوْمَ رَجَبٍ كُلِّهِ، فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ : أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ رَجَبٍ فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الْأَبَدَ؟ وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنَ الْعَلَمِ فِي الثَّوْبِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يقول: سمعت رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ "، فَخِفْتُ أَنْ يَكُونَ الْعَلَمُ مِنْهُ، وَأَمَّا مِيثَرَةُ الْأُرْجُوَانِ فَهَذِهِ مِيثَرَةُ عَبْدِ اللَّهِ، فَإِذَا هِيَ أُرْجُوَانٌ، فَرَجَعْتُ إِلَى أَسْمَاءَ فَخَبَّرْتُهَا، فَقَالَتْ: هَذِهِ جُبَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جُبَّةَ طَيَالِسَةٍ كِسْرَوَانِيَّةٍ لَهَا لِبْنَةُ دِيبَاجٍ، وَفَرْجَيْهَا مَكْفُوفَيْنِ بِالدِّيبَاجِ فَقَالَتْ: هَذِهِ كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ، حَتَّى قُبِضَتْ، فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُهَا فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَى يُسْتَشْفَى بِهَا.
حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عبداللہ (کیسان) سے روایت ہے، جو کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کا مولیٰ اور عطاء کے لڑکے کا ماموں تھا نے کہا کہ مجھے اسماء رضی اللہ عنہا نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم تین چیزوں کو حرام کہتے ہو، ایک تو کپڑے کو جس میں ریشمی نقش ہوں، دوسرے ارجوان (یعنی سرخ ڈھڈھاتا) زین پوش کو اور تیسرے تمام رجب کے مہینے میں روزے رکھنے کو، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رجب کے مہینے کے روزوں کو کون حرام کہے گا؟ جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے گا (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ روزہ علاوہ عیدین اور ایام تشریق کے رکھتے تھے اور ان کا مذہب یہی ہے کہ صوم دہر مکروہ نہیں ہے)۔ اور کپڑے کے ریشمی نقوش کا تو نے ذکر کیا ہے تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ حریر (ریشم) وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، تو مجھے ڈر ہوا کہ کہیں نقشی کپڑا بھی حریر (ریشم) نہ ہو اور ارجوانی زین پوش، تو خود عبداللہ کا زین پوش ارجوانی ہے۔ یہ سب میں نے جا کر سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے کہا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جبہ موجود ہے، پھر انہوں نے طیالسی کسروانی جبہ (جو ایران کے بادشاہ کسریٰ کی طرف منسوب تھا) نکالا جس کے گریبان پر ریشم لگا ہوا تھا اور دامن بھی ریشمی تھے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ جبہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہو گئیں تو یہ جبہ میں نے لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پہنا کرتے تھے اب ہم اس کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو شفاء کے لئے پلاتے ہیں۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آزاد کردہ غلام عبداللہ جو عطارد کی اولاد کے ماموں تھے، بیان کرتے ہیں، مجھے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس بھیجا اور کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام ٹھہراتے ہیں، کپڑوں کے نقش و نگار، ارغوانی گدے اور پورے رجب کے روزے تو حضرت عبداللہ ررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے جواب دیا: جو تو نے رجب کے بارے میں کہا تو وہ انسان جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہے تو وہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے، رہا جو تو نے کپڑے کے نقش و نگار کے بارے میں کہا ہے تو میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا ہے وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ریشم وہی پہنتا ہے جس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس لیے مجھے اندیشہ ہے کہ نقش و نگار اس میں داخل نہ ہو، رہے انتہائی سرخ (ارغوانی) گدے تو یہ عبداللہ کا گدا ہے اور وہ ارغوانی تھا تو میں حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس آیا اور انہیں بتایا تو انہوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے اور انہوں نے میرے سامنے ایک ارغوانی کسروانی جبہ پیش کیا، جس کا گریبان دیباج کا تھا اور اس کے دامن دیباج سے سلے ہوئے تھے اور انہوں نے بتایا: یہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا، جب وہ وفات پا گئیں تو میں نے لے لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنتے تھے اور ہم اسے صحت یابی کے لیے دھو کر بیماروں کو پلاتے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5410
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبيد بن سعيد ، عن شعبة ، عن خليفة بن كعب ابي ذبيان ، قال: سمعت عبد الله بن الزبير يخطب، يقول: الا لا تلبسوا نساءكم الحرير، فإني سمعت عمر بن الخطاب ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تلبسوا الحرير، فإنه من لبسه في الدنيا لم يلبسه في الآخرة ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ كَعْبٍ أَبِي ذِبْيَانَ ، قال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ يَخْطُبُ، يقول: أَلَا لَا تُلْبِسُوا نِسَاءَكُمُ الْحَرِيرَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يقول: قال رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَلْبَسُوا الْحَرِيرَ، فَإِنَّهُ مَنْ لَبِسَهُ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ ".
شعبہ نے خلیفہ بن کعب ابی زبیان سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ خطبہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے: سنو!اپنی عورتوں کو ریشم نہ پہناؤ کیونکہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کو (یہ حدیث بیا ن کرتے ہوئے) سنا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ر یشم نہ پہنو، کیونکہ جس نے دنیا میں اسے پہنا وہ آخرت میں اس کو نہیں پہنے گا۔"
ابو ذیبان خلیفہ بن کعب بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو خطبہ میں یہ کہتے ہوئے سنا: خبردار! اپنی عورتوں کو ریشمی لباس نہ پہناؤ، کیونکہ میں نے عمر بن خطاب کو یہ کہتے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریشم نہ پہنو، کیونکہ جس نے اسے پہنا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہن سکے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5411
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن عبد الله بن يونس ، حدثنا زهير ، حدثنا عاصم الاحول ، عن ابي عثمان ، قال: كتب إلينا عمر ونحن باذربيجان، يا عتبة بن فرقد، إنه ليس من كدك ولا من كد ابيك ولا من كد امك، فاشبع المسلمين في رحالهم مما تشبع منه في رحلك، وإياكم والتنعم وزي اهل الشرك ولبوس الحرير، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن لبوس الحرير، قال: إلا هكذا ورفع لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إصبعيه الوسطى والسبابة وضمهما "، قال زهير: قال عاصم: هذا في الكتاب، قال: ورفع زهير إصبعيه.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، قال: كَتَبَ إِلَيْنَا عُمَرُ وَنَحْنُ بِأَذْرَبِيجَانَ، يَا عُتْبَةُ بْنَ فَرْقَدٍ، إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ كَدِّكَ وَلَا مِنْ كَدِّ أَبِيكَ وَلَا مِنْ كَدِّ أُمِّكَ، فَأَشْبِعِ الْمُسْلِمِينَ فِي رِحَالِهِمْ مِمَّا تَشْبَعُ مِنْهُ فِي رَحْلِكَ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَعُّمَ وَزِيَّ أَهْلِ الشِّرْكِ وَلَبُوسَ الْحَرِيرَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ لَبُوسِ الْحَرِيرِ، قَالَ: إِلَّا هَكَذَا وَرَفَعَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِصْبَعَيْهِ الْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةَ وَضَمَّهُمَا "، قَالَ زُهَيْرٌ: قَالَ عَاصِمٌ: هَذَا فِي الْكِتَابِ، قَالَ: وَرَفَعَ زُهَيْرٌ إِصْبَعَيْهِ.
احمد بن عبداللہ بن یونس نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں زہیر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عاصم احول نے ابوعثمان سے حدیث بیان کی، کہا: جب ہم آذربائیجان میں تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہماری طرف (خط میں) لکھ بھیجا: عتبہ بن فرقد!تمھارے پاس جو مال ہے وہ نہ تمھاری کمائی سے ہے، نہ تمھارے ماں باپ کی کمائی سے، مسلمانوں کو ان کی رہائش گاہوں میں وہی کھانا پیٹ بھرکے کھلاؤ جس سے اپنی رہائش گاہ میں تم خود پیٹ بھرتے ہو اور تم لوگ عیش وعشرت سے مشرکین کے لباس اور ریشم کے پہناؤوں سے دور رہنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم کے پہناوے سے منع فرمایا ہے، مگر اتنا (جائز ہے)، (یہ فرما کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیاں، درمیانی انگلی اورانگشت شہادت ملائیں اورانھیں ہمارے سامنے بلند فرمایا۔زہیر نے کہا: عاصم نے کہا: یہ اس خط میں ہے، (ابن یونس نے) کہا: اور زہیر نے (بھی) اپنی دو انگیاں اٹھائیں۔
ابو عثمان بیان کرتے ہیں، ہم آذربائیجان میں تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں خط لکھا: اے عتبہ بن فرقد! صورت حال یہ ہے کہ تیرے پاس جو مال ہے، وہ تیری محنت و مشقت کا نتیجہ نہیں ہے، نہ تیرے باپ کی محبت کی کمائی ہے اور نہ تیری ماں کی محنت کا ثمرہ ہے، اس لیے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں اس سے سیر کرو، جس سے تم اپنے گھر میں سیر ہوتے ہو اور اپنے آپ کو عیش و عشرت، مشرکوں کے لباس اور شکل و صورت اور ریشم کے لباس سے بچاؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی لباس سے منع فرمایا ہے، مگر اتنی مقدار سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اپنی دو انگلیاں، درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی دونوں ملا کر بلند، (ظاہر) کیں عاصم نے کہا: یہ خط میں موجود ہے اور زہیر نے اپنی دونوں انگلیاں بلند کیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5412
Save to word اعراب
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا جرير بن عبد الحميد . ح وحدثنا ابن نمير ، حدثنا حفص بن غياث كلاهما، عن عاصم بهذا الإسناد، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الحرير بمثله.حدثني زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ كِلَاهُمَا، عَنْ عَاصِمٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَرِيرِ بِمِثْلِهِ.
جریر بن عبدالحمید اور حفص بن غیاث دونوں نے عاصم سے اسی سند کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ریشم کے بارے میں اس طرح روایت کی،
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ریشم کے بارے میں ایسی ہی حدیث بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5413
Save to word اعراب
وحدثنا ابن ابي شيبة وهو عثمان ، وإسحاق بن إبراهيم الحنظلي كلاهما، عن جرير واللفظ لإسحاق، اخبرنا جرير، عن سليمان التيمي ، عن ابي عثمان ، قال: كنا مع عتبة بن فرقد، فجاءنا كتاب عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يلبس الحرير إلا من ليس له منه شيء في الآخرة إلا هكذا "، وقال ابو عثمان: بإصبعيه اللتين تليان الإبهام، فرئيتهما ازرار الطيالسة حين رايت الطيالسة.وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَهُوَ عُثْمَانُ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ جَرِيرٍ وَاللَّفْظُ لِإِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، قال: كُنَّا مَعَ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ، فَجَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ إِلَّا مَنْ لَيْسَ لَهُ مِنْهُ شَيْءٌ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا هَكَذَا "، وَقَالَ أَبُو عُثْمَانَ: بِإِصْبَعَيْهِ اللَّتَيْنِ تَلِيَانِ الْإِبْهَامَ، فَرُئِيتُهُمَا أَزْرَارَ الطَّيَالِسَةِ حِينَ رَأَيْتُ الطَّيَالِسَةَ.
جریر نے سلیمان تیمی سے، انھوں نے ابو عثمان سے روایت کی، کہا: ہم عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تو ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کامکتوب آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ریشم (کالباس) اس کے سوا کوئی شخص نہیں پہنتا جس کا آخرت میں اس میں سے کوئی حصہ نہ ہو، سوائے اتنے (ریشم) کے (اتنی مقدار جائز ہے) "ابوعثمان نے انگوٹھے کے ساتھ کی اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کیا۔مجھے اس طرح معلوم ہوا کہ جیسے وہ طیلسان (نشانات والی عبا) کے بٹنوں والی جگہ (کے برابر) ہو، یہاں تک کہ میں نے (اصل) طیلسان دیکھے، (وہ اتنی مقدار ہی تھی۔)
ابو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم حضرت عتبہ بن فرقد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے تو ہمارے پاس حضرت عمر کا خط پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریشم وہی پہنتا ہے، جس کا آخرت میں اس میں کوئی حصہ نہیں ہے، مگر اتنی مقدار۔ ابو عثمان نے اپنے انگوٹھے کے ساتھ ملی ہوئی دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا، میں نے دیکھا، وہ دونوں انگلیاں طیالسہ کے اطراف کے بقدر ہیں، جب میں نے طیالسہ دیکھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5414
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد الاعلى ، حدثنا المعتمر ، عن ابيه ، حدثنا ابو عثمان ، قال: كنا مع عتبة بن فرقد بمثل حديث جرير.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، قال: كُنَّا مَعَ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ بِمِثْلِ حَدِيثِ جَرِيرٍ.
معتمر نے اپنے والد (سلیمان تیمی) سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو عثمان نے حدیث بیان کی، کہا: ہم عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، جریر کی حدیث کے مانند۔
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5415
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، قال: سمعت ابا عثمان النهدي ، قال: جاءنا كتاب عمر ونحن باذربيجان مع عتبة بن فرقد او بالشام اما بعد، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن الحرير إلا هكذا إصبعين "، قال ابو عثمان: فما عتمنا انه يعني الاعلام.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قال: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ ، قَالَ: جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ وَنَحْنُ بِأَذْرَبِيجَانَ مَعَ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ أَوْ بِالشَّامِ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنِ الْحَرِيرِ إِلَّا هَكَذَا إِصْبَعَيْنِ "، قَالَ أَبُو عُثْمَانَ: فَمَا عَتَّمْنَا أَنَّهُ يَعْنِي الْأَعْلَامَ.
شعبہ نے قتادہ سے روایت کی، کہا: میں نے ابوعثمان نہدی سے سنا، کہا: ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مکتوب آیا، اس وقت ہم آزر بائیجان میں عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے یا شام میں تھے، اس میں یہ لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی مقدار یعنی دو انگلیوں سے زیادہ ریشم پہننے سے منع کیا ہے۔ ابوعثمان نے کہا: ہم نے یہ سمجھنے میں ذرا توقف نہ کیا کریں ان کی مراد نقش ونگار سے ہے (جو کناروں پر ہوتے ہیں)
ابو عثمان النہدی بیان کرتے ہیں، ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا خط آیا، جبکہ ہم حضرت عتبہ بن فرقد رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ آذربائیجان یا شام میں تھے، حمد و صلاۃ کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم سے منع فرمایا ہے، مگر اتنا دو انگلیوں کے بقدر، ابو عثمان کہتے ہیں، ہم نے یہ سمجھنے میں تاخیر نہیں کی کہ ان کا مقصد نقش و نگار ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5416
Save to word اعراب
وحدثنا ابو غسان المسمعي ، ومحمد بن المثنى ، قالا: حدثنا معاذ وهو ابن هشام ، حدثني ابي ، عن قتادة بهذا الإسناد مثله ولم يذكر قول ابي عثمان.وحدثنا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ قَوْلَ أَبِي عُثْمَانَ.
ہشام نے قتادہ سے اسی سند کے ساتھ، اسی کے مانند حدیث بیان کی اور ابو عثمان کا قول ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے یہی حدیث بیان کرتے ہیں اور ابو عثمان کا قول بیان نہیں کرتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5417
Save to word اعراب
حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري ، وابو غسان المسمعي ، وزهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم ، ومحمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخرون: حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن قتادة ، عن عامر الشعبي ، عن سويد بن غفلة ، ان عمر بن الخطاب خطب بالجابية، فقال: " نهى نبي الله صلى الله عليه وسلم عن لبس الحرير إلا موضع إصبعين او ثلاث او اربع ".حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَأَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: " نَهَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ إِلَّا مَوْضِعَ إِصْبَعَيْنِ أَوْ ثَلَاثٍ أَوْ أَرْبَعٍ ".
معاذ کے والد ہشام نےقتادہ سے، انھوں نے عامر شعبی سے روایت کی، انھوں نے حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے نے جابیہ میں خطبہ دیا اور کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایا، سوائے دو یا تین یا چار انگلیوں (کی پٹی) کے۔
امام صاحب اپنے چھ اساتذہ سے حضرت سوید بن غفلہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ میں فرمایا، نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے، مگر دو، یا تین یا چار انگلیوں کے بقدر۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5418
Save to word اعراب
وحدثنا محمد بن عبد الله الرزي ، اخبرنا عبد الوهاب بن عطاء ، عن سعيد ، عن قتادة بهذا الإسناد مثله.وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّزِّيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
سعید نے قتادہ سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی۔
امام صاحب ایک اور استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5419
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، وإسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، ويحيى بن حبيب ، وحجاج بن الشاعر ، واللفظ لابن حبيب، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخرون: حدثنا روح بن عبادة ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله ، يقول: لبس النبي صلى الله عليه وسلم يوما قباء من ديباج اهدي له ثم اوشك ان نزعه، فارسل به إلى عمر بن الخطاب فقيل له: قد اوشك ما نزعته يا رسول الله، فقال: " نهاني عنه جبريل "، فجاءه عمر يبكي، فقال: يا رسول الله كرهت امرا واعطيتنيه فما لي، قال: " إني لم اعطكه لتلبسه إنما اعطيتكه تبيعه "، فباعه بالفي درهم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، ويحيى بن حبيب ، وحجاج بن الشاعر ، واللفظ لابن حبيب، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: لَبِسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا قَبَاءً مِنْ دِيبَاجٍ أُهْدِيَ لَهُ ثُمَّ أَوْشَكَ أَنْ نَزَعَهُ، فَأَرْسَلَ بِهِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقِيلَ لَهُ: قَدْ أَوْشَكَ مَا نَزَعْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: " نَهَانِي عَنْهُ جِبْرِيلُ "، فَجَاءَهُ عُمَرُ يَبْكِي، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَرِهْتَ أَمْرًا وَأَعْطَيْتَنِيهِ فَمَا لِي، قَالَ: " إِنِّي لَمْ أُعْطِكَهُ لِتَلْبَسَهُ إِنَّمَا أَعْطَيْتُكَهُ تَبِيعُهُ "، فَبَاعَهُ بِأَلْفَيْ دِرْهَمٍ.
ابو زبیر نے کہا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن دیباج کی قبا پہنی جو آپ کو ہدیہ کی گئی تھی، پھر فوراً ہی آپ نے اس کو اتار دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دی۔آپ سے کہا گیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اس کو فوراً اتار دیا ہے۔آپ نے فرمایا: "مجھے جبریل علیہ السلام نے اس سے منع کردیا۔" پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ایک چیز نا پسند کی اور وہ مجھے دے دی!اب میرے لئے کیا (راستہ) ہے؟آپ نے فرمایا؛" میں نے یہ تمھیں پہننے کےلیے نہیں دی، میں نے تمھیں اس لئے دی کہ اس کو بیچ لو۔"تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو دو ہزار درہم میں فروخت کردیا۔
امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت بیان کرتے ہیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیباج کی قبا پہنی، جو آپصلی اللہ علیہ وسلم کو تحفتا دی گئی تھی، پھر آپ نے اسے جلدی کھینچ ڈالا اور اسے حضرت عمر بن خطاب کی طرف بھیج دیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اسے فورا ہی اتار ڈالا ہے، تو آپ نے فرمایا: مجھے جبریل علیہ السلام نے اس سے منع کر دیا ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ روتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! ایک چیز آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمائی ہے اور وہ مجھے عطا کر دی ہے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے وہ تمہیں پہننے کے لیے نہیں دی، صرف اس لیے دی ہے کہ تم اسے بیچ لو۔ تو انہوں نے وہ دو ہزار درہم میں فروخت کردی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5420
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن مهدي ، حدثنا شعبة ، عن ابي عون ، قال: سمعت ابا صالح يحدث، عن علي ، قال: اهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حلة سيراء، فبعث بها إلي فلبستها، فعرفت الغضب في وجهه، فقال: " إني لم ابعث بها إليك لتلبسها إنما بعثت بها إليك لتشققها خمرا بين النساء ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ ، قال: سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ ، قال: أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةُ سِيَرَاءَ، فَبَعَثَ بِهَا إِلَيَّ فَلَبِسْتُهَا، فَعَرَفْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ: " إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ بِهَا إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا إِنَّمَا بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتُشَقِّقَهَا خُمُرًا بَيْنَ النِّسَاءِ ".
عبدالرحمان بن مہدی نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابو عون سے حدیث بیان کی، کہا: میں نے ابو صالح سے سنا، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حدیث سنارہے تھے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشمی حلہ ہدیہ کیا گیا، آپ نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں نے اسکو پہن لیا، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ محسوس کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں نے یہ تمھارے پاس اس لئے نہیں بھیجا تھا کہ تم اس کو پہن لو، میں نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ تم اس کو کاٹ کر عورتوں میں دوپٹے بانٹ دو۔"
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں ریشمی دھاری دار جوڑا دیا گیا اور آپ نے وہ مجھے بھیج دیا تو میں نے وہ پہن لیا، پھر میں نے آپ کے چہرے پر ناراضی کے آثار دیکھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں، یہ اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اس کو پہن لو، میں نے تو صرف اس لیے یہ بھیجا تھا کہ تم اسے پھاڑ کر عورتوں میں دوپٹے بانٹ دو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5421
Save to word اعراب
وحدثنا عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي . ح وحدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد يعني ابن جعفر ، قالا: حدثنا شعبة ، عن ابي عون ، بهذا الإسناد في حديث معاذ فامرني فاطرتها بين نسائي، وفي حديث محمد بن جعفر، فاطرتها بين نسائي ولم يذكر فامرني.وحدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، قالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ فِي حَدِيثِ مُعَاذٍ فَأَمَرَنِي فَأَطَرْتُهَا بَيْنَ نِسَائِي، وَفِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَر، فَأَطَرْتُهَا بَيْنَ نِسَائِي وَلَمْ يَذْكُرْ فَأَمَرَنِي.
عبیداللہ کے والد معاذ اور محمد بن جعفر، دونوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابو عون سے اسی سند کے ساتھ حدیث سنائی۔معاذ کی بیان کردہ حدیث میں ہے؛" آپ نے مجھے حکم دیا تو میں نے کاٹ کر (اپنے گھرکی) عورتوں میں بانٹ دیا"اور محمد بن جعفر کی حدیث میں ہے: " میں نے اس کوکاٹ کر (اپنے گھرکی) عورتوں میں بانٹ دیا۔"اور انھوں نے" آپ نے مجھے حکم دیا" (کےالفاظ) ذکر نہیں کیے۔
یہی روایت امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، معاذ کی روایت میں ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا اور محمد بن جعفر کی روایت میں ہے، میں نے اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا، اس میں حکم دینے کا ذکر نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5422
Save to word اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، وزهير بن حرب ، واللفظ لزهير، قال ابو كريب: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا وكيع ، عن مسعر ، عن ابي عون الثقفي ، عن ابي صالح الحنفي ، عن علي ، ان اكيدر دومة اهدى إلى النبي صلى الله عليه وسلم ثوب حرير، فاعطاه عليا، فقال: " شققه خمرا بين الفواطم "، وقال ابو بكر، وابو كريب بين النسوة.وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ الثَّقَفِيِّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْحَنَفِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، أَنَّ أُكَيْدِرَ دُومَةَ أَهْدَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَ حَرِيرٍ، فَأَعْطَاهُ عَلِيًّا، فَقَالَ: " شَقِّقْهُ خُمُرًا بَيْنَ الْفَوَاطِمِ "، وقَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَأَبُو كُرَيْبٍ بَيْنَ النِّسْوَةِ.
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو کریب اور زہیر بن حرب نے ہمیں حدیث بیان کی۔الفاظ زہیر کے ہیں۔کہا: ہیں وکیع نے مسعر سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو عون ثقفی سے، انھوں نے ابو صالح حنفی سے، انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ دومۃ الجندل کے (حکمران) اکیدر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ریشم کا ایک کپڑا ہدیہ بھیجا، آپ نے وہ کپڑاحضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا اور فرمایا: "اس کو کاٹ کر (تینوں) فاطماؤں (فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فاطمہ بنت اسد، یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ، اور فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ عنھن میں اوڑھنیاں بانٹ دو۔" ابو بکر اور ابو کریب نے ("فاطماؤں کے مابین" کے بجائے) "عورتوں کے مابین"کہا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، دومہ علاقہ کے رئیس اکیدر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشم کپڑا تحفتا بھیجا، آپ نے وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دے دیا اور فرمایا: اسے فاطمات میں دوپٹے بنا کر تقسیم کر دو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5423
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا غندر ، عن شعبة ، عن عبد الملك بن ميسرة ، عن زيد بن وهب ، عن علي بن ابي طالب ، قال: كساني رسول الله صلى الله عليه وسلم حلة سيراء، فخرجت فيها، " فرايت الغضب في وجهه، قال: فشققتها بين نسائي ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ: كَسَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةَ سِيَرَاءَ، فَخَرَجْتُ فِيهَا، " فَرَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، قَالَ: فَشَقَقْتُهَا بَيْنَ نِسَائِي ".
زید بن وہب نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ریشمی حلہ دیا، میں اسے پہنکر نکلا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پرغصہ دیکھا، کہا: پھر میں نے اس کو پھاڑ کر اپنے گھر کی عورتوں میں تقسیم کردیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے داری دار ریشمی جوڑا دیا، میں اسے پہن کر نکلا تو آپ کے چہرے پر ناراضی کے آثار دیکھے تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں بانٹ دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5424
Save to word اعراب
وحدثنا شيبان بن فروخ ، وابو كامل ، واللفظ لابي كامل، قالا: حدثنا ابو عوانة ، عن عبد الرحمن بن الاصم ، عن انس بن مالك ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عمر بجبة سندس، فقال عمر: بعثت بها إلي وقد قلت فيها ما قلت، قال: " إني لم ابعث بها إليك لتلبسها، وإنما بعثت بها إليك لتنتفع بثمنها ".وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصَمِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قال: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُمَرَ بِجُبَّةِ سُنْدُسٍ، فَقَالَ عُمَرُ: بَعَثْتَ بِهَا إِلَيَّ وَقَدْ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ، قَالَ: " إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ بِهَا إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا، وَإِنَّمَا بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتَنْتَفِعَ بِثَمَنِهَا ".
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سُندس (باریک ریشم) کا ایک جبہ بھیجا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےکہا: آپ نے میرے پاس یہ جبہ بھیجا ہے۔حالانکہ آپ نے اس کے متعلق (پہلے) جو فرمایاتھا وہ فرماچکے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے یہ تمھارے پاس اس لئے نہیں بھیجا کہ تم اس کو پہنو، میں نے تمھارے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ تم اس کی قیمت سے فائدہ اٹھاؤ۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سندس کا ایک جبہ بھیجا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا، آپ نے یہ مجھے بھیجا ہے، حالانکہ آپ اس کے بارے میں جو فرما چکے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تجھے اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو، میں نے تو صرف اس لیے بھیجا ہے کہ تم اس کی قیمت سے فائدہ اٹھا لو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5425
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، قالا: حدثنا إسماعيل وهو ابن علية ، عن عبد العزيز بن صهيب ، عن انس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من لبس الحرير في الدنيا لم يلبسه في الآخرة ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"جس شخص نے دینا میں ر یشم پہنا وہ آخرت میں اس کو نہیں پہنے گا۔"
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دنیا میں ریشم پہنا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہنے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5426
Save to word اعراب
وحدثني إبراهيم بن موسى الرازي ، اخبرنا شعيب بن إسحاق الدمشقي ، عن الاوزاعي ، حدثني شداد ابو عمار ، حدثني ابو امامة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من لبس الحرير في الدنيا لم يلبسه في الآخرة ".وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ الدِّمَشْقِيُّ ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ ، حَدَّثَنِي شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ ".
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛" جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں ا س کو نہیں پہنے گا۔"
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دنیا میں ریشم پہنا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہنے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5427
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن ابي الخير ، عن عقبة بن عامر ، انه قال: اهدي لرسول الله صلى الله عليه وسلم فروج حرير، فلبسه ثم صلى فيه ثم انصرف، فنزعه نزعا شديدا كالكاره له، ثم قال: " لا ينبغي هذا للمتقين ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُّوجُ حَرِيرٍ، فَلَبِسَهُ ثُمَّ صَلَّى فِيهِ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَنَزَعَهُ نَزْعًا شَدِيدًا كَالْكَارِهِ لَهُ، ثُمَّ قَالَ: " لَا يَنْبَغِي هَذَا لِلْمُتَّقِينَ ".
لیث نے یزید بن ابی حبیب سے، انھوں نے ابو الخیر سے، انھوں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشم کی ایک کھلی قبا ہدیہ میں دی گئی، آپ نے وہ پہنی اور نماز پڑھی، پھر اس کو کھینچ کر اتار دیا، جیسے آپ اسے ناپسند کررہے ہوں، پھر فرمایا: "یہ (عبا) تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے مناسب نہیں ہے۔"
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشمی قبا تحفہ میں دی گئی تو آپ نے اسے پہن لیا، پھر اس میں نماز پڑھی، پھر سلام پھیرا تو اسے بڑی سختی سے ناپسند کرتے ہوئے کھینچ ڈالا، پھر فرمایا: یہ حدود کے پابند متقی لوگوں کے شایان شان نہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 5428
Save to word اعراب
عبدالحمید نے جعفر نے کہا: مجھے یزید بن ابی حبیب نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔
یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.