كتاب الأدب کتاب: اسلامی آداب و اخلاق 57. بَابُ: الاِسْتِغْفَارِ باب: استغفار کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم شمار کرتے رہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں «رب اغفر لي وتب علي إنك أنت التواب الغفور» ”اے میرے رب! مجھے بخش دے، میری توبہ قبول فرما لے، تو ہی توبہ قبول فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے“ سو بار کہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 361 (1516)، سنن الترمذی/الدعوات 39 (3434)، (تحفة الأشراف: 8422)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/21) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تو ہر روز اللہ تعالیٰ سے سو بار استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15100، ومصباح الزجاجة: 1336)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/282) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تو ہر روز اللہ تعالیٰ سے ستر بار استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9089، ومصباح الزجاجة: 1337)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/410، 5/397) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں پر زبان درازی کرتا تھا، لیکن اپنے گھر والوں کے سوا کسی اور سے زبان درازی نہ کرتا تھا، میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم استغفار کیوں نہیں کیا کرتے، تم ہر روز ستر بار استغفار کیا کرو۔“
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3376، ومصباح الزجاجة: 1338)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/394، 396، 397، 402)، سنن الدارمی/الرقاق 15 (2765) (ضعیف)» (سند میں ابوالمغیرہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت میں مضطرب الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مبارکبادی ہے اس شخص کے لیے جو اپنے صحیفہ (نامہ اعمال) میں کثرت سے استغفار پائے۔“
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5200، ومصباح الزجاجة: 1339)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/129، 145، 188، 239) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے استغفار کو لازم کر لیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا، اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا، اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔“ ۱؎
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 361 (1518)، (تحفة الأشراف: 6288)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/248) (ضعیف)» (سند میں حکم بن مصعب مجہول راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے گناہ بخش دوں گا، اس حدیث میں موحد مسلمانوں کے لیے بڑی امید ہے کہ توحید کی برکت سے اللہ چاہے گا تو ان کے گناہوں کو چاہے وہ کتنے ہی زیادہ ہوں بخش دے گا، لیکن کسی کو اس مغفرت پر تکیہ نہ کرنا چاہئے، اس لئے کہ انجام حال معلوم نہیں، اور اللہ رب العزت کی جیسی رحمت وسیع ہے ویسے ہی اس کا عذاب بھی سخت ہے، پس ہمیشہ گناہوں سے ڈرتا اور بچتا رہے، توبہ اور استغفار کرتا رہے، اور شرک سے بچنے اور دور رہنے کا بڑا خیال رکھے کیونکہ شرک کے ساتھ بخشے جانے کی توقع نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ” «اللهم اجعلني من الذين إذا أحسنوا استبشروا وإذا أساءوا استغفروا» اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو نیک کام کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، اور جب برا کام کرتے ہیں تو اس سے استغفار کرتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16305، ومصباح الزجاجة: 1340)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/129، 145، 188، 239) (ضعیف)» (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|