كتاب الأدب کتاب: اسلامی آداب و اخلاق 3. بَابُ: بِرِّ الْوَالِدِ وَالإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ باب: باپ کو اپنے بچوں خاص کر بیٹیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو ان اعرابیوں (خانہ بدوشوں) نے کہا: لیکن ہم تو اللہ کی قسم! (اپنے بچوں کا) بوسہ نہیں لیتے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفضائل 15 (2317)، (تحفة الأشراف: 16822)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب 17 (5993)، مسند احمد (6/70) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
یعلیٰ عامری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں دوڑتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنے سینے سے چمٹا لیا، اور فرمایا: ”یقیناً اولاد بزدلی اور بخیلی کا سبب ہوتی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11853، ومصباح الزجاجة: 1274)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/172) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی آدمی اولاد کی محبت میں مال خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے، اور اولاد کے لئے مال چھوڑ جانا چاہتا ہے، اور جہاد سے سستی کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتا دوں؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو، جو تمہارے پاس آ گئی ہو ۱؎، اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3821، ومصباح الزجاجة: 1275)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/175) (ضعیف)» (علی بن رباح کا سماع سراقہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے اس لئے سند میں انقطاع ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی شوہر کی موت یا طلاق کی وجہ سے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف علته الإنقطاع بين سراقة وعُلَيّ كما صرح به البوصيري وغيره فالسند منقطع انوار الصحيفه، صفحه نمبر 508
احنف کے چچا صعصعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئی، تو انہوں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں کو دی، اور تیسری کھجور کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان تقسیم کر دی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں تعجب کیوں ہے؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گئی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16157، ومصباح الزجاجة: 1276)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 10 (1418)، الأدب 18 (5995)، صحیح مسلم/البر والصلة 46 (2629)، سنن الترمذی/البر والصلة 13 (1915)، مسند احمد (6/33، 166) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اپنے بیٹیوں کو پالنے، ان کو کھلانے پلانے اور اپنے آپ کو بھوکے رہنے سے، وہ جنت کی حقدار ہو گئی، اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب شوہر مر جاتا ہے، اور عورت صاحب اولاد ہوتی ہے تو بیچاری عمر بھر محنت مزدوری کرتی ہے، اور جو ملتا ہے وہ اپنی اولاد کو کھلاتی ہے، اور وہ خود اکثر بھوکی رہتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس کے پاس تین لڑکیاں ہوں، اور وہ ان کے ہونے پر صبر کرے، ان کو اپنی کمائی سے کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ اس شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم سے آڑ ہوں گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9921، ومصباح الزجاجة: 1277)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/154) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک (اچھا برتاؤ) کرے جب تک کہ وہ دونوں اس کے ساتھ رہیں، یا وہ ان دونوں کے ساتھ رہے تو وہ دونوں لڑکیاں اسے جنت میں پہنچائیں گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5681، ومصباح الزجاجة: 1278)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/235، 363) (حسن)» (سند میں ابو سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 382)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اپنی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور انہیں بہترین ادب سکھاؤ“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 520، ومصباح الزجاجة: 1279) (ضعیف جداً)» (سند میں حارث بن نعمان منکر الحدیث اور سعید بن عمارہ ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف سعيد بن عمارة و الحارث بن النعمان:ضعيفان (تقريب: 2367،ضعيف سنن الترمذي: 2352) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 509 |