كتاب الأدب کتاب: اسلامی آداب و اخلاق 17. بَابُ: الاِسْتِئْذَانِ باب: (گھر کے اندر داخل ہونے کے لیے) اجازت لینے کا بیان۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی، تو وہ لوٹ گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے ایک آدمی بھیجا اور بلا کر پوچھا کہ آپ واپس کیوں چلے گئے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ویسے ہی تین مرتبہ اجازت طلب کی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے، اگر ہمیں تین دفعہ میں اجازت دے دی جائے تو اندر چلے جائیں ورنہ لوٹ جائیں، تب انہوں نے کہا: آپ اس حدیث پر گواہ لائیں ورنہ میں آپ کے ساتھ ایسا ایسا کروں گا یعنی سزا دوں گا، تو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنی قوم کی مجلس میں آئے، اور ان کو قسم دی (کہ اگر کسی نے یہ تین مرتبہ اجازت طلب کرنے والی حدیث سنی ہو تو میرے ساتھ اس کی گواہی دے) ان لوگوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا کر گواہی دی تب عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو چھوڑا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4323)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 9 (2062)، الاستئذان 13 (6245)، صحیح مسلم/الأدب 7 (2153)، سنن ابی داود/الأدب 138 (5180)، سنن الترمذی/الاستئذان 3 (2690)، موطا امام مالک/الاستئذان 1 (3)، سنن الدارمی/الاستئذان 1 (2671) (صحیح)»
وضاحت: ۱ ؎: «استئندان» کیا ہے؟ ایک یہ ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر تین بار بلند آواز سے «السلام علیکم» کہے، اور پوچھے کہ فلاں شخص یعنی اپنا نام لے کر بتائے کہ اندر داخل ہو یا نہیں؟ اگر تینوں بار میں گھر والا جواب نہ دے تو لوٹ آئے، لیکن بغیر اجازت کے اندر گھسنا جائز نہیں ہے، اور یہ ضروری اس لئے ہے کہ آدمی اپنے مکان میں کبھی ننگا کھلا ہوتا ہے،کبھی اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہے، اگر بلا اجازت اندر داخل ہونا جائز ہو تو بڑی خرابی ہو گی، اب یہ مسئلہ عام تہذیب اور اخلاق میں داخل ہو گیا ہے کہ کسی شخص کے حجرہ یا مکان میں بغیر اجازت لئے اور بغیر اطلاع دئیے لوگ نہیں گھستے، اور جو کوئی اس کے خلاف کرے اس کو بے ادب اور بے وقوف جانتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سلام تو ہمیں معلوم ہے، لیکن «استئذان» کیا ہے؟ (یعنی ہم اجازت کیسے طلب کریں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «استئذان» یہ ہے کہ آدمی تسبیح، تکبیر اور تحمید (یعنی «سبحان الله، الله أكبر، الحمد لله» کہہ کر یا کھنکار کر) سے گھر والوں کو خبردار کرے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3498، ومصباح الزجاجة: 1292) (ضعیف)» (سند میں ابوسورہ منکر الحدیث ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کے لیے میرے دو وقت مقرر تھے: ایک رات میں، ایک دن میں، تو میں جب آتا اور آپ نماز کی حالت میں ہوتے تو آپ میرے لیے کھنکار دیتے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/السہو 17 (1212)، (تحفة الأشراف: 10202)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/80) (ضعیف)» (سند میں عبداللہ بن نجی اور حارث ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی تو آپ نے (مکان کے اندر سے) پوچھا: ”کون ہو“؟ میں نے عرض کیا: ”میں“، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں، میں کیا؟ (نام لو)“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستئذان 17 (6250)، صحیح مسلم/الآداب 8 (2155)، سنن ابی داود/الأدب 139 (5187)، سنن الترمذی/الاستئذان 18 (2711)، (تحفة الأشراف: 3042)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/ 298، 320، 363)، سنن الدارمی/الاستئذان 2 (2672) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|