كتاب الأدب کتاب: اسلامی آداب و اخلاق 31. بَابُ: مَا يُكْرَهُ مِنَ الأَسْمَاءِ باب: ناپسندیدہ اور برے ناموں کا بیان۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں زندہ رہا تو ان شاءاللہ «رباح» (نفع)، «نجیح» (کامیاب)، «افلح» (کامیاب)، «نافع» (فائدہ دینے والا) اور «یسار» (آسانی)، نام رکھنے سے منع کر دوں گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأدب 65 (2835)، (تحفة الأشراف: 10423، ومصباح الزجاجة: 1305) (صحیح)»
وضاحت: ایک حدیث میں اس ممانعت کی یہ حکمت بیان کی گئی ہے کیونکہ تو کہے گا: کیا وہ یہاں موجود ہے؟ وہ نہیں ہو گا تو (جواب دینے والا) کہے گا نہیں۔ (صحیح مسلم) مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی پوچھے کہ گھر میں نافع ہے اور جواب میں کہا جائے کہ موجود نہیں۔ گویا آپ نے یہ کہا کہ گھر میں فائدہ دینے والا کوئی شخص موجود نہیں، سب نکمے ہیں۔ اگرچہ متکلم کا مقصد یہ نہیں ہو گا، تاہم ظاہری طور پر ایک نامناسب بات بنتی ہے، لہذا ایسے نام رکھنا مکروہ ہے لیکن حرام نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے غلاموں کے چار نام رکھنے سے منع فرمایا ہے: ” «افلح»، «نافع»، «رباح» اور «یسار» “۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأداب 2 (2136)، سنن ابی داود/الأدب 70 (4958، 4959)، سنن الترمذی/الأدب 65 (2836)، (تحفة الأشراف: 4612)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/7، 10، 12، 21)، سنن الدارمی/الاستئذان 61 (2738) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
مسروق کہتے ہیں کہ میری ملاقات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا: میں مسروق بن اجدع ہوں، (یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اجدع ایک شیطان ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 70 (4957)، (تحفة الأشراف: 10641)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/31) (ضعیف)» (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|