كتاب النكاح کتاب: نکاح کے احکام و مسائل 59. بَابُ: الْوَلَدِ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ باب: بچے کا حقدار بستر والا (شوہر) ہے اور پتھر کا مستحق زانی۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبد بن زمعہ اور سعد رضی اللہ عنہما دونوں زمعہ کی لونڈی کے بچے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بھائی (عتبہ بن ابی وقاص) نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں، اور اس کو لے لوں، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے، میرے باپ کے بستر پہ پیدا ہوا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچہ کی مشابہت عتبہ سے پائی تو فرمایا: ”عبد بن زمعہ! وہ بچہ تمہارا بھائی ہے (گرچہ مشابہت سے عتبہ کا معلوم ہوتا ہے) بچہ صاحب فراش (شوہر یا مالک) کا ہوتا ہے ۱؎، سودہ تم اس سے پردہ کرو“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 3 (2053)، 100 (2218)، الخصومات 6 (2421)، العتق 8 (2533)، الوصایا 4 (2745)، المغازي 53 (4303)، الفرائض 18 (6749)، 28 (6765)، الحدود 23 (6817)، الأحکام 29 (7182)، صحیح مسلم/الرضاع 10 (1457)، سنن ابی داود/الطلاق 34 (2273)، سنن النسائی/الطلاق 49 (3517)، (تحفة الأشراف: 16435)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 21 (20) مسند احمد (6/129، 200، 273)، سنن الدارمی/النکاح 41 (2281) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی زانی کا بچہ نہیں کہلائے گا، گو اس کے نطفہ سے پیدا ہو، بلکہ بچہ عورت کے شوہر یا مالک کا ہو گا اگر عورت لونڈی ہو۔ ۲؎: ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا زمعہ کی بیٹی تھیں، تو یہ بچہ جب زمعہ کا ٹھہرا، تو سودہ کا بھائی ہوا، لیکن چونکہ اس کی مشابہت عتبہ سے پائی گئی، اس لیے احتیاطاً آپ ﷺ نے ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب فراش کے لیے بچے کا فیصلہ کیا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10672)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/25) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «فراش» سے مراد صاحب فراش یعنی شوہر یا مولیٰ ہے کیونکہ یہ دونوں عورت کو بستر پر لٹاتے اور اس کے ساتھ سوتے ہیں «وللعاهرالحجر» یعنی زانی کے لیے ناکامی و نامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ «حجر» (پتھر) سے مراد یہ ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے گا، مگر یہ قول کمزور و ضعیف ہے کیونکہ سنگسار صرف شادی شدہ زانی کو کیا جائے گا۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب بچے کو جنم دے گی تو وہ جس کی بیوی یا لونڈی ہو گی اسی کی طرف بچے کے نسب کا الحاق ہو گا اور وہ اسی کا بچہ شمار کیا جائے گا، میراث اور ولادت کے دیگر احکام ان کے درمیان جاری ہوں گے خواہ کوئی دوسرا اس عورت کے ساتھ ارتکاب زنا کا دعویٰ کرے، اور یہ بھی دعوی کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہوا ہے، اس بچے کی مشابہت بھی اسی کے ساتھ ہو، اور صاحب فراش کے مشابہ نہ ہو، اس ساری صورتحال کے باوجود بچے کا الحاق صاحب فراش کے ساتھ کیا جائے گا، اس میں زانی کا کوئی حق نہیں ہو گا، اور یہ اس صورت میں ہے جب صاحب فراش اس کی نفی نہ کرے اور اگر اس نے اس کی نفی کر دی تو پھر بچے کا الحاق ماں کے ساتھ ہو گا، اور وہ بچہ ماں کے ساتھ منسوب ہو گا،زانی سے منسوب نہیں ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ صاحب فراش کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 10 (1458)، سنن الترمذی/الرضاع 8 (1157)، سنن النسائی/الطلاق 48 (3512)، (تحفة الأشراف: 13134)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الفرائض 18 (6749)، مسند احمد (2/239، 280، 386، 409، 466، 475، 492)، سنن الدارمی/النکاح 41 (2281) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بچہ صاحب فراش کا ہے، اور زانی کے لیے پتھر ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4885، ومصباح الزجاجة: 713) (صحیح)» (سند میں سابقہ شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس میں اسماعیل بن عیاش اور شرجیل بن مسلم کی وجہ سے کچھ کلام ہے)
وضاحت: ۱؎: «وللعاهرالحجر» یعنی زانی کے لیے ناکامی و نامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ «حجر» (پتھر) سے مراد یہ ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے گا، مگر یہ قول کمزور و ضعیف ہے کیونکہ سنگسار صرف شادی شدہ زانی کو کیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
|