كتاب النكاح کتاب: نکاح کے احکام و مسائل 47. بَابُ: الْقِسْمَةِ بَيْنَ النِّسَاءِ باب: عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف مائل رہے، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک دھڑ گرا ہوا ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 39 (2133)، سنن الترمذی/النکاح 41 (1141)، سنن النسائی/عشرةالنساء 2 (3394)، (تحفة الأشراف: 12213)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/347، 471)، سنن الدارمی/النکاح 24 (2252) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16678)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الھبة 15 (2593)، النکاح 97 (5092)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2445)، سنن ابی داود/النکاح 39 (2138)، مسند احمد (6/117، 151، 197، 269)، سنن الدارمی/الجہاد 31 (2467) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جس عورت کا نام قرعہ میں نکلتا اس کو سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے، باقی عورتوں کو مدینہ میں چھوڑ جاتے اور یہ آپ ﷺ کا کمال انصاف تھا، ورنہ علماء نے کہا ہے کہ آپ ﷺ پر بیویوں کے درمیان تقسیم ایام واجب نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دے دیا تھا کہ جس عورت کے پاس چاہیں رہیں: «تُرْجِي مَن تَشَاء مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاء» (سورة الأحزاب: 51) ”ان میں سے جسے چاہیں دور رکھیں اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لیں“۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان باری مقرر کرتے، اور باری میں انصاف کرتے، پھر فرماتے تھے: ”اے اللہ! یہ میرا کام ہے جس کا میں مالک ہوں، لہٰذا تو مجھے اس معاملہ (محبت کے معاملہ) میں ملامت نہ کر جس کا تو مالک ہے، اور میں مالک نہیں ہوں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 39 (2134)، سنن الترمذی/النکاح 41 (1140)، سنن النسائی/عشرة النکاح 2 (3395)، (تحفة الأشراف: 16290)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/144)، سنن الدارمی/النکاح 25 (2253) (ضعیف)» (لیکن رسول اکرم ﷺ کا بیویوں کے درمیان ایام کی تقسیم ثابت ہے، تراجع الألبانی: رقم: 346)
وضاحت: ۱؎: رسول اکرم ﷺ کے اسوہ کے مطابق مرد کا اختیار جہاں تک ہے، وہاں تک بیویوں کے درمیان عدل کرے، ہر ایک عورت کے پاس باری باری رہنا یہ اختیاری معاملہ ہے جو ہو سکتا ہے، لیکن دل کی محبت اور جماع کی خواہش یہ اختیاری نہیں ہے، کسی عورت سے رغبت ہوتی ہے، کسی سے نہیں ہوتی، تو اس میں برابری کرنا یہ مرد سے نہیں ہو سکتا، بس اللہ تعالی اس کو معاف کر دے گا، الروضہ الندیہ میں ہے کہ عورت کو اختیار ہے کہ اپنی باری کسی دوسری عورت کو ہبہ کر دے جیسے اس کا ذکر آگے آتا ہے، یا اپنی باری شوہر کو معاف کر دے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن الطرف الأول منه حسن
|