معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کھائے تو اس کو کھلائے، جب خود پہنے تو اس کو بھی پہنائے، اس کے چہرے پر نہ مارے، اس کو برا بھلا نہ کہے، اور اگر اس سے لاتعلقی اختیار کرے تو بھی اسے گھر ہی میں رکھے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 42 (2142)، (تحفة الأشراف: 11396)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/447، 5/3) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی بات پر ناراض ہو تو اسے گھر سے دوسری جگہ نہ بھگائے، گھر ہی میں رکھے، بطور تأدیب صرف بستر الگ کر دے، اس لئے کہ اس کو دوسرے گھر میں بھیج دینے سے اس کے پریشان اور آوارہ ہونے کا ڈر ہے، اور تعلقات بننے کی بجائے مزید بگڑنے کی راہ ہموار ہونے کا خطرہ ہے۔
It was narrated from Hakim bin Muawiyah, from his father, that:
a man asked the Prophet(ﷺ): “What are the right of the woman over her husband?” He said: “That he should feed her as he feeds himself and clothe her as he clothes himself; he should not strike her on the face nor disfigure her, and he should not abandon her except in the house (as a form of discipline).” (Hassan)
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا الحسين بن علي ، عن زائدة ، عن شبيب بن غرقدة البارقي ، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص ، حدثني ابي ، انه شهد حجة الوداع مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحمد الله واثنى عليه، وذكر ووعظ، ثم قال:" استوصوا بالنساء خيرا، فإنهن عندكم عوان ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك، إلا ان ياتين بفاحشة مبينة، فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع، واضربوهن ضربا غير مبرح، فإن اطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا، إن لكم من نسائكم حقا، ولنسائكم عليكم حقا، فاما حقكم على نسائكم، فلا يوطئن فرشكم من تكرهون، ولا ياذن في بيوتكم لمن تكرهون، الا وحقهن عليكم، ان تحسنوا إليهن في كسوتهن، وطعامهن". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ الْبَارِقِيِّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَّرَ وَوَعَظَ، ثُمَّ قَالَ:" اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٍ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ، إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا، إِنَّ لَكُمْ مِنْ نِسَائِكُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا، فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ، فَلَا يُوَطِّئَنَّ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمُ لِمَنْ تَكْرَهُونَ، أَلَا وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ، أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ، وَطَعَامِهِنَّ".
عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا: ”عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورتیں تمہاری ماتحت ہیں، لہٰذا تم ان سے اس (جماع) کے علاوہ کسی اور چیز کے مالک نہیں ہو، الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں، اگر وہ ایسا کریں تو ان کو خواب گاہ سے جدا کر دو، ان کو مارو لیکن سخت مار نہ مارو، اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر ان پر زیادتی کے لیے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو، تمہارا عورتوں پر حق ہے، اور ان کا حق تم پر ہے، عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارا بستر ایسے شخص کو روندنے نہ دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو ۱؎ اور وہ کسی ایسے شخص کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں، جسے تم ناپسند کرتے ہو، سنو! اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم اچھی طرح ان کو کھانا اور کپڑا دو“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی مرد کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ اندر آئے، اور اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرے، پہلے عربوں میں یہ چیز معیوب نہیں تھی لیکن جب آیت حجاب نازل ہوئی تو اس سے منع کر دیا گیا۔ ۲؎: «لمن تكرهون» میں غیر محرم مرد تو یقینی طور پر داخل ہیں، نیز وہ محرم مرد اور عورتیں بھی اس میں داخل ہیں جن کے آنے جانے کو شوہر پسند نہ کرے۔
It was narrated that:
Sulaiman bin Amr bin Ahwas said: “My father told me that he was present at the Farewell Pilgrimage with the Messenger of Allah. He praised and glorified Allah, and reminded and exhorted (the people). Then he said: 'I enjoin good treatment of women, for they are prisoners with you, and you have no right to treat them otherwise, unless they commit clear indecency. If they do that, then forsake them in their beds and hit them, but without causing injury or leaving a mark. If they obey you, then do not seek means of annoyance against them. You have rights over your women and your women have rights over you. Your rights over your women are that they are not to allow anyone whom you dislike to tread on your bedding (furniture), nor allow anyone whom you dislike to enter your houses. And their right over you are that you should treat them kindly with regard to their clothing and food.' ”