كتاب النكاح کتاب: نکاح کے احکام و مسائل 56. بَابُ: الْغَيْرَةِ باب: غیرت کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض غیرت اللہ کو پسند ہے اور بعض ناپسند، جو غیرت اللہ کو پسند ہے وہ یہ ہے کہ شک و تہمت کے مقام میں غیرت کرے، اور جو غیرت ناپسند ہے وہ غیر تہمت و شک کے مقام میں غیرت کرنا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15438، ومصباح الزجاجة: 709) (صحیح) (اس کی سند میں أبی سھم مجہول ہے لیکن یہ حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: ابوداود: 2659 و نسائی و احمد: 5 /445 - 446 و الإرواء: 1999)»
وضاحت: ۱؎: یہ وقت ایسا ہے کہ اللہ کی پناہ، بدمعاش لوگ کسی نیک بخت عورت کی نسبت ایک جھوٹی تہمت لگا دیتے ہیں تاکہ اس کا شوہر غیرت میں آ کر کوئی کام کر بیٹھے، اس کا گھر تباہ و برباد ہو، حسد کرنے والوں کو اس میں خوشی ہوتی ہے، یہ وقت بڑے تحمل اور استقلال کا ہے، انسان کو اس میں سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہئے، جلدی ہرگز نہ کرنی چاہئے، اور شریعت کے مطابق گواہی لینی چاہئے، اگر ایسے سچے اور نیک گواہوں کی گواہی نہ ملے تو سمجھ لے کہ یہ حاسدوں اور دشمنوں کا فریب ہے، جو اس کا گھر تباہ کرنا چاہتے تھے، اللہ پاک حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے بچائے، نبی اکرم ﷺ کو بھی ایذادہی سے نہ چھوڑا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹی تہمت باندھی، طوفان اٹھایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو جھٹلایا اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت ان کے سامنے نازل کی جس کی تلاوت قیامت تک کی جاتی رہے گی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے جتنی غیرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کی اتنی کسی عورت پر نہیں کی کیونکہ میں دیکھتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کا ذکر کیا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے آپ کو حکم دیا کہ انہیں جنت میں موتیوں کے ایک مکان کی بشارت دے دیں، یعنی سونے کے مکان کی، یہ تشریح ابن ماجہ نے کی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: 17096)، وقد أخر جہ: صحیح البخاری/المناقب 20 (3816)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 12 (2434)، سنن الترمذی/البروالصلة 70 (2017)، المناقب 62 (3875) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نہ اس میں غل ہے نہ شور، جیسے دوسری روایت میں ہے کہ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی سب سے پہلی بیوی تھیں، آپ ﷺ کی تمام اولاد سوائے ابراہیم کے انہی کے مبارک بطن سے ہوئی، اور انہوں نے اپنا سارا مال و اسباب آپ ﷺ پر نثار کیا، اور سب سے پہلے آپ ﷺ پر ایمان لائیں، ان کے فضائل بہت ہیں، وہ آپ ﷺ کی ساری بیویوں میں سب سے افضل ہیں، اور سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پہ فرماتے سنا کہ ”ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کر دیں تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہیں، اس لیے کہ وہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو بات اس کو بری لگتی ہے وہ مجھ کو بھی بری لگتی ہے، اور جس بات سے اس کو تکلیف ہوتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فرض الخمس 5 (3111)، المناقب 12 (3714)، النکاح 109 (5230)، الطلاق 13 (5278) صحیح مسلم/فضائل الصحابة 17 (2449)، سنن ابی داود/النکاح 13 (2071)، سنن الترمذی/المناقب 61 (3867)، (تحفة الأشراف: 11267)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/323، 328) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے موجود ہوتے ہوئے،ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنی چاہی تو آپ ﷺ نے یہ فرمایا، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”قسم اللہ کی، رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ نہیں رہ سکتیں“ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ نے یہ شادی نہیں کی، اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی تک کسی اور عورت سے شادی نہیں کی، ان کی وفات کے بعد ابوجہل کی بیٹی سے اور دوسری کئی عورتوں سے شادی کی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو پیغام دیا جب کہ ان کے عقد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی فاطمہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ خبر سنی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: آپ کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں آتا، اب علی رضی اللہ عنہ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ مسور کہتے ہیں: یہ خبر سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (منبر پر) کھڑے ہوئے، جس وقت آپ نے خطبہ پڑھا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”امابعد، میں نے اپنی بیٹی زینب کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے کیا، انہوں نے جو بات کہی تھی اس کو سچ کر دکھایا ۱؎ میری بیٹی فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، اور مجھے ناپسند ہے کہ تم لوگ اسے فتنے میں ڈالو، قسم اللہ کی، اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی دونوں ایک شخص کے نکاح میں کبھی اکٹھی نہ ہوں گی، یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ شادی کے پیغام سے باز آ گئے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11278) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کفر کے باوجود انہوں نے زینب رضی اللہ عنہا کو بھیجنے کا وعدہ کیا تھا پھر بھیج دیا۔ ۲؎: یعنی علی رضی اللہ عنہ نے یہ شادی نہیں کی، اور شادی کیوں کرتے آپ تو نبی اکرم ﷺ کے جاں نثار اور آپ کی مرضی کے تابع تھے، اس واقعہ کی وجہ سے علی رضی اللہ عنہ پر کوئی طعن نہیں ہو سکتا جیسے خوارج کیا کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے لاعلمی میں یہ خیال کر کے کہ ہر مرد کو چار شادی کا حق ہے، یہ پیغام دیا تھا، جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ رسول اکرم ﷺ کی مرضی کے خلاف ہے تو فوراً اس سے رک گئے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|