كتاب النكاح کتاب: نکاح کے احکام و مسائل 12. بَابُ: مَنْ زَوَّجَ ابْنَتَهُ وَهِيَ كَارِهَةٌ باب: باپ بیٹی کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر کر دے تو اس کے حکم کا بیان۔
عبدالرحمٰن بن یزید انصاری اور مجمع بن یزید انصاری رضی اللہ عنہما خبر دیتے ہیں کہ خذام نامی ایک شخص نے اپنی بیٹی (خنساء) کا نکاح کر دیا، اس نے اپنے باپ کا کیا ہوا نکاح ناپسند کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے اس کے والد کا کیا ہوا نکاح فسخ کر دیا، پھر اس نے ابولبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ سے شادی کی۔ یحییٰ بن سعید نے ذکر کیا کہ وہ ثیبہ (غیر کنواری) تھی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 42 (5138، 5139)، الإکراہ 3 (1945)، الحیل 11 (6969)، سنن ابی داود/النکاح 26 (2101)، سنن النسائی/النکاح 35 (3270)، (تحفة الأشراف: 15824)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/النکاح 14 (25)، مسند احمد (6/328)، سنن الدارمی/النکاح 4 1 (3237) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک نوجوان عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی عرض کیا: میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کر دیا ہے، تاکہ میری وجہ سے اس کی ذلت ختم ہو جائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو اختیار دے دیا، تو اس نے کہا: میرے والد نے جو کیا میں نے اسے مان لیا، لیکن میرا مقصد یہ تھا کہ عورتوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان کے باپوں کو ان پر (جبراً نکاح کر دینے کا) اختیار نہیں پہنچتا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1997، ومصباح الزجاجة: 668) (ضعیف شاذ) (غایة المرام: 217)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف شاذ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے عرض کیا: اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا حالانکہ وہ راضی نہیں ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 25 (2096، 2097)، (تحفة الأشراف: 6001)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/273) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
|