(مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد ابو سعيد الاشج ، حدثنا عبدة بن سليمان ، عن صالح بن صالح بن حي ، عن الشعبي ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كانت له جارية، فادبها، فاحسن ادبها وعلمها، فاحسن تعليمها ثم اعتقها وتزوجها، فله اجران وايما رجل من اهل الكتاب آمن بنبيه، وآمن بمحمد، فله اجران، وايما عبد مملوك ادى حق الله عليه وحق مواليه، فله اجران"، قال صالح، قال الشعبي: قد اعطيتكها بغير شيء إن كان الراكب ليركب فيما دونها إلى المدينة. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ، فَأَدَّبَهَا، فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا وَعَلَّمَهَا، فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَيُّمَا عَبْدٍ مَمْلُوكٍ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ عَلَيْهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، فَلَهُ أَجْرَانِ"، قَالَ صَالِحٌ، قَالَ الشَّعْبِيُّ: قَدْ أَعْطَيْتُكَهَا بِغَيْرِ شَيْءٍ إِنْ كَانَ الرَّاكِبُ لَيَرْكَبُ فِيمَا دُونَهَا إِلَى الْمَدِينَةِ.
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس لونڈی ہو وہ اس کو اچھی طرح ادب سکھائے، اور اچھی طرح تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے، تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے، اور اہل کتاب میں سے جو شخص اپنے نبی پر ایمان لایا، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا، تو اسے دوہرا اجر ملے گا، اور جو غلام اللہ کا حق ادا کرے، اور اپنے مالک کا حق بھی ادا کرے، تو اس کو دوہرا اجر ہے“۱؎۔ شعبی نے صالح سے کہا: ہم نے یہ حدیث تم کو مفت سنا دی، اس سے معمولی حدیث کے لیے آدمی مدینہ تک سوار ہو کر جایا کرتا تھا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک اجر اس کے آزاد کرنے کا، اور دوسرا اجر اس کی تعلیم یا نکاح کا، اب اہل حدیث کا قول یہ ہے کہ اپنی لونڈی کو آزاد کرے اور اسی آزادی کو مہر مقرر کر کے اس سے نکاح کر لے تو جائز ہے۔ ۲؎: امام شعبی (عامر بن شراحیل) کوفہ میں تھے، ان کے عہد میں کوفہ سے مدینہ تک دو ماہ کا سفر تھا، مطلب یہ ہے کہ ایک ایک حدیث سننے کے لئے محدثین کرام دو دو مہینے کا سفر کرتے تھے، سبحان اللہ، اگلے لوگوں کو اللہ بخشے اگر وہ ایسی محنتیں نہ کرتے تو ہم تک دین کیوں کر پہنچتا۔
It was narrated from Abu Musa that the Messenger of Allah said:
'Whoever has a slave woman and teaches her good manners and educates her, then sets her free and marries her, will have two rewards. Any man from among the People of the Book who believed in his Prophet and believed in Muhammad will have two rewards. Any slave who does his duty towards Allah and towards his masters will have two rewards.” (Sahih)(one of the narrators) Salih said: “Sha'bi said: 'I have given this (Hadith) to you for little effort on your part. A rider would travel to Al-Madinah for less than this.' ”
(موقوف) حدثنا احمد بن عبدة ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا ثابت ، وعبد العزيز ، عن انس ، قال:" صارت صفية لدحية الكلبي، ثم صارت لرسول الله صلى الله عليه وسلم بعد، فتزوجها، وجعل عتقها صداقها"، قال حماد، فقال عبد العزيز لثابت: يا ابا محمد انت سالت انسا ما امهرها؟، قال: امهرها نفسها". (موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ:" صَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، ثُمَّ صَارَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ، فَتَزَوَّجَهَا، وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا"، قَالَ حَمَّادٌ، فَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ لِثَابِتٍ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَنْتَ سَأَلْتَ أَنَسًا مَا أَمْهَرَهَا؟، قَالَ: أَمْهَرَهَا نَفْسَهَا".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پہلے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گئیں، تو آپ نے ان سے شادی کی، اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر بنایا ۱؎۔ حماد کہتے ہیں کہ عبدالعزیز نے ثابت سے پوچھا: اے ابومحمد! کیا آپ نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (صفیہ) کا مہر کیا مقرر کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا تھا۔
وضاحت: ۱؎: صفیہ رضی اللہ عنہا ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں، اور یہودیوں کے بادشاہ حی بن اخطب کی بیٹی تھیں، اس لئے مسلمانوں کے سردار کے پاس ان کا رہنا مناسب تھا۔
It was narrated that Anas said:
“Safiyyah was given to Dihyah Al-Kalbi (as his share of the war booty), then she was given to the Messenger of Allah after that. He married her, and made her ransom (i.e., freedom from slavery) her dowry.” (Sahih)Hammad said: “Abdul-'Aziz said to Thabit: 'O Abu Muhammad! Did you ask Anas what her bridal-money was?' He said: 'Her bridal-money was her freedom.' ”
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا، اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر مقرر کر کے ان سے شادی کر لی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17405، ومصباح الزجاجة: 690) (صحیح)» (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)