كتاب النكاح کتاب: نکاح کے احکام و مسائل 14. بَابُ: نِكَاحِ الصِّغَارِ يُزَوِّجُهُنَّ غَيْرُ الآبَاءِ باب: نابالغ لڑکی کا نکاح باپ کے علاوہ کوئی اور کرائے تو اس کے حکم کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، تو انہوں نے ایک بیٹی چھوڑی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری شادی اس لڑکی سے میرے ماموں قدامہ رضی اللہ عنہ نے کرا دی جو اس لڑکی کے چچا تھے، اور اس سے مشورہ نہیں لیا، یہ اس وقت کا ذکر ہے جب اس کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، اس لڑکی نے یہ نکاح ناپسند کیا، اور اس نے چاہا کہ اس کا نکاح مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے کر دیا جائے، آخر قدامہ رضی اللہ عنہ نے اس کا نکاح مغیرہ ہی سے کر دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7752، ومصباح الزجاجة: 670)، ورواہ أحمد (2/130، والدار قطنی فيسننہ و البیہقی في سننہ 7/113، من طریق عمربن حسین، عن نافع عن ابن عمر، وأخرجہ: الحاکم2/16و البیہقی 7/121) (حسن)» (اس کی سند میں عبد اللہ بن نافع ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث حسن ہے، «کما فی التخریج» )
وضاحت: ۱؎: شاید عثمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی جوان ہو گی، اور جوان لڑکی کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے نافذ نہیں ہوتا، حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اگر باپ دادا کے سوا اور کوئی ولی کر دے تو وہ درست اور جائز ہو گا، لیکن لڑکی کو بلوغت کے بعد فسخ نکاح کا اختیار ہے، اگر وہ اس نکاح سے ناراض ہو تو وہ فسخ نکاح کر سکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
|