سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
56. بَابُ : الْغَيْرَةِ
باب: غیرت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1996
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شَيْبَانَ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَهْمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ، وَمِنْهَا مَا يَكْرَهُ اللَّهُ، فَأَمَّا مَا يُحِبُّ، فَالْغَيْرَةُ فِي الرِّيبَةِ، وَأَمَّا مَا يَكْرَهُ، فَالْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ رِيبَةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض غیرت اللہ کو پسند ہے اور بعض ناپسند، جو غیرت اللہ کو پسند ہے وہ یہ ہے کہ شک و تہمت کے مقام میں غیرت کرے، اور جو غیرت ناپسند ہے وہ غیر تہمت و شک کے مقام میں غیرت کرنا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15438، ومصباح الزجاجة: 709) (صحیح) (اس کی سند میں أبی سھم مجہول ہے لیکن یہ حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: ابوداود: 2659 و نسائی و احمد: 5 /445 - 446 و الإرواء: 1999)»
وضاحت: ۱؎: یہ وقت ایسا ہے کہ اللہ کی پناہ، بدمعاش لوگ کسی نیک بخت عورت کی نسبت ایک جھوٹی تہمت لگا دیتے ہیں تاکہ اس کا شوہر غیرت میں آ کر کوئی کام کر بیٹھے، اس کا گھر تباہ و برباد ہو، حسد کرنے والوں کو اس میں خوشی ہوتی ہے، یہ وقت بڑے تحمل اور استقلال کا ہے، انسان کو اس میں سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہئے، جلدی ہرگز نہ کرنی چاہئے، اور شریعت کے مطابق گواہی لینی چاہئے، اگر ایسے سچے اور نیک گواہوں کی گواہی نہ ملے تو سمجھ لے کہ یہ حاسدوں اور دشمنوں کا فریب ہے، جو اس کا گھر تباہ کرنا چاہتے تھے، اللہ پاک حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے بچائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایذادہی سے نہ چھوڑا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹی تہمت باندھی، طوفان اٹھایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو جھٹلایا اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت ان کے سامنے نازل کی جس کی تلاوت قیامت تک کی جاتی رہے گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1996 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1996
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:
(1)
مومن جس طرح خود پاک ہوتا ہے، اسی طرح اس کی قدرتی طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بیوی بھی پاک دامن ہو، اس لیے اپنے گھر کے حالات پرنظر رکھنا مستحسن ہےکہ کسی بدفطرت کو موقع نہ ملے کہ وہ بیوی، بیٹی یا بہن کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے۔
(2)
اگرعورت کا چال چلن مشکوک محسوس ہو تو اسے مناسب تنبیہ کرنی چاہیے تاکہ وہ اس راستے پر مزید قدم بڑھانے سے رک جائے۔
(3)
بدکردار افراد کی غیر ذمہ دارانہ لغو باتیں سن کی اپنی پاک دامن بیوی پر شک نہیں کرنا چاہیے۔
ممکن ہے وہ کسی حسد اور دشمنی کی وجہ سے آدمی کا گھر اجاڑنا چاہتے ہوں، البتہ سچے اور نیک لوگ ایسی بات بتائیں کہ عورت کسی اجنبی مرد کے ساتھ نامناسب حد تک بے تکلفی کا رویہ رکھتی ہے تو اپنے گھر اور عزت کی حفاظت کےلیے مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1996