ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان باری مقرر کرتے، اور باری میں انصاف کرتے، پھر فرماتے تھے: ”اے اللہ! یہ میرا کام ہے جس کا میں مالک ہوں، لہٰذا تو مجھے اس معاملہ (محبت کے معاملہ) میں ملامت نہ کر جس کا تو مالک ہے، اور میں مالک نہیں ہوں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: رسول اکرم ﷺ کے اسوہ کے مطابق مرد کا اختیار جہاں تک ہے، وہاں تک بیویوں کے درمیان عدل کرے، ہر ایک عورت کے پاس باری باری رہنا یہ اختیاری معاملہ ہے جو ہو سکتا ہے، لیکن دل کی محبت اور جماع کی خواہش یہ اختیاری نہیں ہے، کسی عورت سے رغبت ہوتی ہے، کسی سے نہیں ہوتی، تو اس میں برابری کرنا یہ مرد سے نہیں ہو سکتا، بس اللہ تعالی اس کو معاف کر دے گا، الروضہ الندیہ میں ہے کہ عورت کو اختیار ہے کہ اپنی باری کسی دوسری عورت کو ہبہ کر دے جیسے اس کا ذکر آگے آتا ہے، یا اپنی باری شوہر کو معاف کر دے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 39 (2134)، سنن الترمذی/النکاح 41 (1140)، سنن النسائی/عشرة النکاح 2 (3395)، (تحفة الأشراف: 16290)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/144)، سنن الدارمی/النکاح 25 (2253) (ضعیف)» (لیکن رسول اکرم ﷺ کا بیویوں کے درمیان ایام کی تقسیم ثابت ہے، تراجع الألبانی: رقم: 346)
It was narrated that 'Aishah said:
"The Messenger of Allah used to divide his time equally among his wives, then he would say 'O Allah, this is what I am doing with regard to that which is within my control, so do not hold me accountable for that which is under Your control and is beyond my control.'"