كِتَاب الْأَشْرِبَةِ مشروبات کا بیان The Book of Drinks 32. باب إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَفَضْلِ إِيثَارِهِ: باب: مہمان کی خاطرداری کرنا چاہئے۔ Chapter: Honoring guests and the virtue of showing preference to one's guest حدثني زهير بن حرب ، حدثنا جرير بن عبد الحميد ، عن فضيل بن غزوان ، عن ابي حازم الاشجعي ، عن ابي هريرة ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني مجهود، فارسل إلى بعض نسائه، فقالت: والذي بعثك بالحق ما عندي إلا ماء، ثم ارسل إلى اخرى، فقالت: مثل ذلك حتى قلن كلهن مثل ذلك لا والذي بعثك بالحق ما عندي إلا ماء، فقال: " من يضيف هذا الليلة رحمه الله؟ "، فقام رجل من الانصار، فقال: انا يا رسول الله، فانطلق به إلى رحله، فقال لامراته: هل عندك شيء؟، قالت: لا إلا قوت صبياني، قال: فعلليهم بشيء، فإذا دخل ضيفنا فاطفئ السراج واريه انا ناكل، فإذا اهوى لياكل فقومي إلى السراج حتى تطفئيه، قال: فقعدوا واكل الضيف، فلما اصبح غدا على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: " قد عجب الله من صنيعكما بضيفكما الليلة ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ الْأَشْجَعِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي مَجْهُودٌ، فَأَرْسَلَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ، فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا عِنْدِي إِلَّا مَاءٌ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُخْرَى، فَقَالَتْ: مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى قُلْنَ كُلُّهُنَّ مِثْلَ ذَلِكَ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا عِنْدِي إِلَّا مَاءٌ، فَقَالَ: " مَنْ يُضِيفُ هَذَا اللَّيْلَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ؟ "، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى رَحْلِهِ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ؟، قَالَتْ: لَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي، قَالَ: فَعَلِّلِيهِمْ بِشَيْءٍ، فَإِذَا دَخَلَ ضَيْفُنَا فَأَطْفِئْ السِّرَاجَ وَأَرِيهِ أَنَّا نَأْكُلُ، فَإِذَا أَهْوَى لِيَأْكُلَ فَقُومِي إِلَى السِّرَاجِ حَتَّى تُطْفِئِيهِ، قَالَ: فَقَعَدُوا وَأَكَلَ الضَّيْفُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " قَدْ عَجِبَ اللَّهُ مِنْ صَنِيعِكُمَا بِضَيْفِكُمَا اللَّيْلَةَ ". جریر بن عبدالحمید نےفضیل بن غزوان سے، انھوں نے ابو حازم اشجعی سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے (کھانے پینے کی) بڑی تکلیف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے پاس کہلا بھیجا، وہ بولیں کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے کہ میرے پاس تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری زوجہ کے پاس بھیجا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا، یہاں تک کہ سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے یہی جواب آیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کی رات کون اس کی مہمانی کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے، تب ایک انصاری اٹھا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں کرتا ہوں۔ پھر وہ اس کو اپنے ٹھکانے پر لے گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ وہ بولی کہ کچھ نہیں البتہ میرے بچوں کا کھانا ہے۔ انصاری نے کہا کہ بچوں سے کچھ بہانہ کر دے اور جب ہمارا مہمان اندر آئے اور دیکھنا جب ہم کھانے لگیں تو چراغ بجھا دینا۔ پس جب وہ کھانے لگا تو وہ اٹھی اور چراغ بجھا دیا (راوی) کہتا ہے وہ بیٹھے اور مہمان کھاتا رہا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور میاں بیوی بھوکے بیٹھے رہے اور مہمان نے کھانا کھایا۔ جب صبح ہوئی تو وہ انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے تعجب کیا جو تم نے رات کو اپنے مہمان کے ساتھ کیا (یعنی خوش ہوا)۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا: میں بھوکا ہوں تو آپ نے اپنی کسی بیوی کے پاس پیغام بھیجا، اس نے کہا: اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں، پھر آپ نے دوسری کی طرف پیغام بھیجا تو اس نے بھی یہ بات کہی، حتی کہ ان سب نے یہی جواب دیا، نہیں، اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، میرے پاس صرف پانی ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آج رات اس کی مہمان نوازی کرے گا، اللہ اس پر رحم فرمائے گا۔“ تو ایک انصاری آدمی کھڑا ہوا اور کہا: میں، اے اللہ کے رسول! وہ اس کو لے کر اپنے گھر چلا گیا اور اپنی بیوی سے کہا: کیا تیرے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا: نہیں، سوائے میرے بچوں کی خوراک کے، اس نے کہا: انہیں کسی چیز سے بہلا دے اور جب ہمارا مہمان اندر آئے تو چراغ گل کر دینا اور اسے یوں دکھانا کہ ہم کھا رہے ہیں تو جب وہ کھانے کے لیے بڑھے تو اٹھ کر چراغ بجھا دینا، سو وہ سب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھا لیا، جب صبح ہوئی، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات تم نے اپنے مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا، اللہ تعالیٰ اس پر بہت خوش ہوا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وکیع نے فضیل بن غزوان سے، انھوں نے ابوحازم سے، انھوں نےابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت کی کہ انصار میں سے ایک آدمی کے پاس ایک مہمان نے رات گزاری، ان کے پاس صرف اپنا اور بچوں کا کھاناتھا، اس نے اپنی بیوی سے کہا، بچوں کو سلا دو اور چراغ بھجادو اورجو کھانا تمہارے پاس ہے وہ مہمان کے قریب کردو، تب یہ آیت نازل ہوئی: وَیُؤْثِرُونَ عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ"وہ (دوسروں کو) خود پرترجیح دیتے ہیں چاہے انھیں سخت احتیاج لاحق ہو۔" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، ایک آدمی ایک انصاری کا رات کو مہمان بنا اور اس کے پاس اپنے اور بچوں کی خوراک کے سوا کچھ نہ تھا تو اس نے اپنی بیوی کو کہا، بچوں کو سلا دے اور چراغ گل کر دے اور جو کچھ تیرے پاس ہے، وہ مہمان کو پیش کر دے، اسی سلسلہ میں یہ آیت اتاری ”وہ اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ خود فاقہ سے ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثناه ابو كريب ، حدثنا ابن فضيل ، عن ابيه ، عن ابي حازم ، عن ابي هريرة ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ليضيفه، فلم يكن عنده ما يضيفه، فقال: " الا رجل يضيف هذا رحمه الله؟ " فقام رجل من الانصار يقال له ابو طلحة، فانطلق به إلى رحله وساق الحديث بنحو حديث جرير، وذكر فيه نزول الآية كما ذكره وكيع.وحَدَّثَنَاه أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُضِيفَهُ، فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مَا يُضِيفُهُ، فَقَالَ: " أَلَا رَجُلٌ يُضِيفُ هَذَا رَحِمَهُ اللَّهُ؟ " فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو طَلْحَةَ، فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى رَحْلِهِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ جَرِيرٍ، وَذَكَرَ فِيهِ نُزُولَ الْآيَةِ كَمَا ذَكَرَهُ وَكِيعٌ. ابن فضیل نے اپنے والد سے، انھوں نے ابو حازم سے انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے مہمان بنالیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کی میزبانی کےلئے کچھ بھی نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی ایسا شخص ہے جواس کو مہمان بنائے؟اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے!"انصار میں سے ایک شخص کھڑے ہوگئے، انھیں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہاجاتا تھا، وہ اس (مہمان) کواپنے گھر لے گئے، اس کے بعد جریر کی حدیث کے مطابق حدیث بیان کی، انھوں نے بھی وکیع کی طرح آیت نازل ہونے کا ذکر کیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تاکہ آپ اس کی مہمان نوازی کریں اور آپ کے پاس اس کی مہمان نوازی کے لیے کچھ نہ تھا، اس لیے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کوئی شخص ہے، جو اس کی مہمان نوازی کرے، اللہ اس پر رحم فرمائے“ تو ایک انصاری ابوطلحہ نامی کھڑا ہوا اور اسے اپنے گھر لے گیا اور آگے جریر کی طرح حدیث بیان کی اور وکیع کی طرح آیت کے اترنے کا تذکرہ کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شبابة بن سوار ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن المقداد ، قال: اقبلت انا وصاحبان لي، وقد ذهبت اسماعنا وابصارنا من الجهد، فجعلنا نعرض انفسنا على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فليس احد منهم يقبلنا، فاتينا النبي صلى الله عليه وسلم، فانطلق بنا إلى اهله، فإذا ثلاثة اعنز، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " احتلبوا هذا اللبن بيننا "، قال: فكنا نحتلب، فيشرب كل إنسان منا نصيبه، ونرفع للنبي صلى الله عليه وسلم نصيبه، قال: فيجيء من الليل، فيسلم تسليما لا يوقظ نائما ويسمع اليقظان، قال: ثم ياتي المسجد فيصلي ثم ياتي شرابه فيشرب، فاتاني الشيطان ذات ليلة وقد شربت نصيبي، فقال محمد: ياتي الانصار فيتحفونه ويصيب عندهم ما به حاجة إلى هذه الجرعة، فاتيتها فشربتها، فلما ان وغلت في بطني وعلمت انه ليس إليها سبيل، قال: ندمني الشيطان، فقال: ويحك ما صنعت اشربت شراب محمد؟ فيجيء فلا يجده فيدعو عليك فتهلك، فتذهب دنياك وآخرتك، وعلي شملة إذا وضعتها على قدمي خرج راسي، وإذا وضعتها على راسي خرج قدماي، وجعل لا يجيئني النوم، واما صاحباي فناما ولم يصنعا ما صنعت، قال: فجاء النبي صلى الله عليه وسلم، فسلم كما كان يسلم ثم اتى المسجد فصلى ثم اتى شرابه فكشف عنه فلم يجد فيه شيئا، فرفع راسه إلى السماء، فقلت: الآن يدعو علي فاهلك، فقال: " اللهم اطعم من اطعمني واسق من اسقاني "، قال: فعمدت إلى الشملة فشددتها علي واخذت الشفرة، فانطلقت إلى الاعنز ايها اسمن، فاذبحها لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هي حافلة وإذا هن حفل كلهن، فعمدت إلى إناء لآل محمد صلى الله عليه وسلم ما كانوا يطمعون ان يحتلبوا فيه، قال: فحلبت فيه حتى علته رغوة، فجئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " اشربتم شرابكم الليلة؟ "، قال: قلت: يا رسول الله اشرب، فشرب ثم ناولني، فقلت: يا رسول الله اشرب، فشرب ثم ناولني، فلما عرفت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد روي واصبت دعوته، ضحكت حتى القيت إلى الارض، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إحدى سوآتك يا مقداد "، فقلت: يا رسول الله كان من امري كذا وكذا وفعلت كذا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ما هذه إلا رحمة من الله افلا كنت آذنتني فنوقظ صاحبينا فيصيبان منها؟ "، قال: فقلت: والذي بعثك بالحق ما ابالي إذا اصبتها واصبتها معك من اصابها من الناس.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ الْمِقْدَادِ ، قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي، وَقَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنَ الْجَهْدِ، فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ يَقْبَلُنَا، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقَ بِنَا إِلَى أَهْلِهِ، فَإِذَا ثَلَاثَةُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا "، قَالَ: فَكُنَّا نَحْتَلِبُ، فَيَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنَّا نَصِيبَهُ، وَنَرْفَعُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبَهُ، قَالَ: فَيَجِيءُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لَا يُوقِظُ نَائِمًا وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ، قَال: ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَهُ فَيَشْرَبُ، فَأَتَانِي الشَّيْطَانُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَقَدْ شَرِبْتُ نَصِيبِي، فَقَالَ مُحَمَّدٌ: يَأْتِي الْأَنْصَارَ فَيُتْحِفُونَهُ وَيُصِيبُ عِنْدَهُمْ مَا بِهِ حَاجَةٌ إِلَى هَذِهِ الْجُرْعَةِ، فَأَتَيْتُهَا فَشَرِبْتُهَا، فَلَمَّا أَنْ وَغَلَتْ فِي بَطْنِي وَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ إِلَيْهَا سَبِيلٌ، قَالَ: نَدَّمَنِي الشَّيْطَانُ، فَقَالَ: وَيْحَكَ مَا صَنَعْتَ أَشَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ؟ فَيَجِيءُ فَلَا يَجِدُهُ فَيَدْعُو عَلَيْكَ فَتَهْلِكُ، فَتَذْهَبُ دُنْيَاكَ وَآخِرَتُكَ، وَعَلَيَّ شَمْلَةٌ إِذَا وَضَعْتُهَا عَلَى قَدَمَيَّ خَرَجَ رَأْسِي، وَإِذَا وَضَعْتُهَا عَلَى رَأْسِي خَرَجَ قَدَمَايَ، وَجَعَلَ لَا يَجِيئُنِي النَّوْمُ، وَأَمَّا صَاحِبَايَ فَنَامَا وَلَمْ يَصْنَعَا مَا صَنَعْتُ، قَالَ: فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ كَمَا كَانَ يُسَلِّمُ ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى ثُمَّ أَتَى شَرَابَهُ فَكَشَفَ عَنْهُ فَلَمْ يَجِدْ فِيهِ شَيْئًا، فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: الْآنَ يَدْعُو عَلَيَّ فَأَهْلِكُ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي وَأَسْقِ مَنْ أَسْقَانِي "، قَالَ: فَعَمَدْتُ إِلَى الشَّمْلَةِ فَشَدَدْتُهَا عَلَيَّ وَأَخَذْتُ الشَّفْرَةَ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْأَعْنُزِ أَيُّهَا أَسْمَنُ، فَأَذْبَحُهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هِيَ حَافِلَةٌ وَإِذَا هُنَّ حُفَّلٌ كُلُّهُنَّ، فَعَمَدْتُ إِلَى إِنَاءٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانُوا يَطْمَعُونَ أَنْ يَحْتَلِبُوا فِيهِ، قَالَ: فَحَلَبْتُ فِيهِ حَتَّى عَلَتْهُ رَغْوَةٌ، فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَشَرِبْتُمْ شَرَابَكُمُ اللَّيْلَةَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْرَبْ، فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْرَبْ، فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي، فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَوِيَ وَأَصَبْتُ دَعْوَتَهُ، ضَحِكْتُ حَتَّى أُلْقِيتُ إِلَى الْأَرْضِ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِحْدَى سَوْآتِكَ يَا مِقْدَادُ "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَانَ مِنْ أَمْرِي كَذَا وَكَذَا وَفَعَلْتُ كَذَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا هَذِهِ إِلَّا رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ أَفَلَا كُنْتَ آذَنْتَنِي فَنُوقِظَ صَاحِبَيْنَا فَيُصِيبَانِ مِنْهَا؟ "، قَالَ: فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُبَالِي إِذَا أَصَبْتَهَا وَأَصَبْتُهَا مَعَكَ مَنْ أَصَابَهَا مِنَ النَّاسِ. شبانہ بن سوار نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے، انھوں نے حضرت مقدار رضی اللہ عنہ سے روایت کی، سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے دونوں ساتھی آئے اور (فاقہ وغیرہ کی) تکلیف سے ہماری آنکھوں اور کانوں کی قوت جاتی رہی تھی۔ ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر پیش کرتے تھے لیکن کوئی ہمیں قبول نہ کرتا تھا۔ آخر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ وہاں تین بکریاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا دودھ دوہو، ہم تم سب پئیں گے پھر ہم ان کا دودھ دوہا کرتے اور ہم میں سے ہر ایک اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ رکھ چھوڑتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لاتے اور ایسی آواز سے سلام کرتے جس سے سونے والا نہ جاگے اور جاگنے والا سن لے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آتے، نماز پڑھتے، پھر اپنے دودھ کے پاس آتے اور اس کو پیتے۔ ایک رات جب میں اپنا حصہ پی چکا تھا کہ شیطان نے مجھے بھڑکایا۔ شیطان نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو انصار کے پاس جاتے ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے دیتے ہیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت ہے، مل جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیا ضرورت ہو گی؟ آخر میں آیا اور وہ دودھ پی گیا۔ جب دودھ پیٹ میں سما گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ دودھ نہیں ملنے کا تو اس وقت شیطان نے مجھے ندامت کی اور کہنے لگا کہ تیری خرابی ہو تو نے کیا کام کیا؟ تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ پی لیا، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے اور دودھ کو نہ پائیں گے تو تجھ پر بددعا کریں گے اور تیری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوں گی۔ میں ایک چادر اوڑھے ہوئے تھا جب اس کو پاؤں پر ڈالتا تو سر کھل جاتا اور جب سر ڈھانپتا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور مجھے نیند بھی نہ آ رہی تھی جبکہ میرے ساتھی سو گئے اور انہوں نے یہ کام نہیں کیا تھا جو میں نے کیا تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور معمول کے موافق سلام کیا، پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، اس کے بعد دودھ کے پاس آئے، برتن کھولا تو اس میں کچھ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا میں سمجھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بددعا کرتے ہیں اور میں تباہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! کھلا اس کو جو مجھے کھلائے اور پلا اس کو جو مجھے پلائے۔ یہ سن کر میں نے اپنی چادر کو مضبوط باندھا، چھری لی اور بکریوں کی طرف چلا کہ جو ان میں سے موٹی ہو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ذبح کروں۔ دیکھا تو اس کے تھن میں دودھ بھرا ہوا ہے۔ پھر دیکھا تو اور بکریوں کے تھنوں میں بھی دودھ بھرا ہوا ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کا ایک برتن لیا جس میں وہ دودھ نہ دوہتے تھے (یعنی اس میں دوہنے کی خواہش نہیں کرتے تھے)۔ اس میں میں نے دودھ دوہا، یہاں تک کہ اوپر جھاگ آ گیا (اتنا بہت دودھ نکلا) اور میں اس کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اپنے حصے کا دودھ رات کو پیا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ دودھ پیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی کر مجھے دیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور پیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور پیا۔ پھر مجھے دیا، جب مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیر ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں نے لے لی ہے، تب میں ہنسا، یہاں تک کہ خوشی کے مارے زمین پر گر گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے مقداد! تو نے کوئی بری بات کی؟ وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا حال ایسا ہوا اور میں نے ایسا قصور کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت کا دودھ (جو خلاف معمول اترا) اللہ کی رحمت تھی۔ تو نے مجھ سے پہلے ہی کیوں نہ کہا ہم اپنے دونوں ساتھیوں کو بھی جگا دیتے کہ وہ بھی یہ دودھ پیتے؟ میں نے عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا کلام دے کر بھیجا ہے کہ اب مجھے کوئی پرواہ نہیں جب آپ نے اللہ کی رحمت حاصل کر لی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاصل کی تو کوئی بھی اس کو حاصل کرے۔ حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اور میرے دو ساتھی آئے اور ہمارے کان اور ہماری آنکھیں بھوک کی وجہ سے ختم ہو رہے تھے، یعنی ہماری ساعت اور بصارت متاثر ہو رہی تھی تو ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے پیش کرنے لگے اور ان میں سے کوئی ہمیں قبول کرنے کی سکت نہ رکھتا تھا تو ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ہمیں لے کر اپنے گھر چلے گئے تو وہاں تین بکریاں موجود تھیں، سو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے لیے مشترکہ طور پر ان کو دوہ لو۔“ تو ہم ان کا دودھ نکال لیتے اور ہم میں سے ہر انسان اپنا حصہ پی لیتا اور ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اٹھا رکھتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لاتے اور اس طرح سلام کہتے جس سے سونے والا بیدار نہ ہوا اور بیدار سن لے، پھر مسجد میں جا کر نماز پڑھتے، پھر اپنے مشروب کے پاس آ کر اسے نوش فرما لیتے، ایک رات میرے پاس شیطان آیا، جبکہ میں اپنا حصہ پی چکا تھا، کہنے لگا، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) انصار کے پاس جاتا ہے، وہ اسے تحفے پیش کرتے ہیں اور وہ ان کے ہاں اپنی ضرورت کی چیز پا لیتے ہیں، اسے اس گھونٹ کی ضرورت نہیں ہے تو میں اس کے پاس آیا اور اسے پی لیا تو جب وہ میرے پیٹ میں سما گیا اور میں نے جان لیا، اب اس تک پہنچنے کی کوئی راہ نہیں، (وہ واپس نہیں آ سکتا) شیطان نے مجھے پشیمان کرنا شروع کر دیا، کہنے لگا، تم پر افسوس! تو نے کیا حرکت کی؟ کیا تو نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مشروب بھی پی لیا ہے؟ وہ آئے گا اور اسے نہ پا کر تیرے خلاف دعا کرے گا اور تو ہلاک ہو جائے گا، جس سے تیری دنیا اور آخرت تباہ ہو جائے گی، اور مجھ پر ایک چادر تھی، جب میں اسے اپنے پاؤں پر ڈالتا تو سر کھل جاتا اور جب میں اسے اپنے سر پر ڈالتا تو میرے پاؤں ظاہر ہو جاتے اور مجھے نیند نہیں آ رہی تھی، جبکہ میرے دونوں ساتھی سو چکے تھے اور انہوں نے میرے والی حرکت نہ کی تھی، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ نے معمول کے مطابق سلام کہا، پھر مسجد میں آ کر نماز پڑھی، پھر اپنے مشروب کے پاس آئے، اس سے پردہ اٹھایا تو برتن میں کچھ نہ پایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، میں نے دل میں کہا، اب آپ میرے خلاف دعا کریں گے، جس سے میں ہلاک ہو جاؤں گا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ”اے اللہ! مجھے کھلانے والے کو کھلا اور مجھے پلانے والے کو پلا۔“ تو میں نے اپنی چادر کی طرف توجہ کی اور اسے اپنے اوپر اچھی طرح باندھ لیا اور چھری پکڑی اور بکریوں کی طرف چل پڑا تاکہ جو ان میں سے زیادہ موٹی ہو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ذبح کروں تو اس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے اور ان سب کے تھنوں میں دودھ جمع ہو چکا تھا تو میں نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گھر والوں کا وہ برتن لیا، جس میں وہ دودھ نکالنے کی خواہش نہیں کر سکتے تھے، میں نے اس میں دودھ دوہا، حتی کہ اس پر جھاگ آ گئی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا آج رات تم نے اپنا مشروب پی لیا؟“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! پیجئے، آپ نے پی لیا، پھر مجھے پکڑا دیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! پیجئے، آپ نے پیا اور پھر مجھے پکڑا دیا، جب میں نے سمجھ لیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیر ہو چکے ہیں اور میں نے آپ کی دعا بھی لے لی، میں کھل کھلا ہنس پڑا، حتی کہ زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری حرکتوں میں سے ایک ہے، اے مقداد!“ اس پر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا اور میں نے یہ کام کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو محض اللہ کی رحمت ہے تو نے مجھے آگاہ کیوں نہ کیا، ہم اپنے دونوں ساتھیوں کو جگاتے، اور وہ بھی اس رحمت سے حصہ پا لیتے“ میں نے کہا: اس ذات کی قسم، جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے، مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے، جب آپ نے اس کو پا لیا اور میں نے آپ کے ساتھ اس کو پا لیا، یہ لوگوں میں سے کس کو ملتی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
۔ نضر بن شمیل نے سلیمان بن مغیرہ سے اسی سند کےساتھ روایت کی۔ امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، وحامد بن عمر البكراوي ، ومحمد بن عبد الاعلى جميعا، عن المعتمر بن سليمان ، واللفظ لابن معاذ، حدثنا المعتمر، حدثنا ابي ، عن ابي عثمان ، وحدث ايضا عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثين ومائة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " هل مع احد منكم طعام؟ "، فإذا مع رجل صاع من طعام او نحوه، فعجن ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنم يسوقها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ابيع ام عطية او قال ام هبة؟ "، فقال: لا بل بيع، فاشترى منه شاة، فصنعت وامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بسواد البطن ان يشوى، قال: وايم الله ما من الثلاثين ومائة إلا حز له رسول الله صلى الله عليه وسلم حزة حزة من سواد بطنها، إن كان شاهدا اعطاه، وإن كان غائبا خبا له، قال: وجعل قصعتين، فاكلنا منهما اجمعون وشبعنا، وفضل في القصعتين فحملته على البعير او كما قال.وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى جَمِيعًا، عَنْ الْمُعْتَمِرِ بْنِ سُلَيْمَانَ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ مُعَاذ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، وَحَدَّثَ أَيْضًا عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ وَمِائَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ؟ "، فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ، فَعُجِنَ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبَيْعٌ أَمْ عَطِيَّةٌ أَوَ قَالَ أَمْ هِبَةٌ؟ "، فَقَالَ: لَا بَلْ بَيْعٌ، فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً، فَصُنِعَتْ وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَى، قَالَ: وَايْمُ اللَّهِ مَا مِنَ الثَّلَاثِينَ وَمِائَةٍ إِلَّا حَزَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُزَّةً حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا، إِنْ كَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهُ، وَإِنْ كَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ، قَالَ: وَجَعَلَ قَصْعَتَيْنِ، فَأَكَلْنَا مِنْهُمَا أَجْمَعُونَ وَشَبِعْنَا، وَفَضَلَ فِي الْقَصْعَتَيْنِ فَحَمَلْتُهُ عَلَى الْبَعِيرِ أَوْ كَمَا قَالَ. ابو عثمان نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کسی پاس کھانا ہے؟ ایک شخص کے پاس ایک صاع اناج نکلا یا تھوڑا کم یا زیادہ۔ پھر وہ سب گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے لمبا بکریاں لے کر ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو (بکری) بیچتا ہے یا ہدیہ دیتا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں بیچتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی تو اس کا گوشت تیار کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلیجی، گردے،۔دل وغیرہ کو بھوننے کا حکم دیا، (حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے) کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوتیس آدمیوں میں سے ہر ایک شخص کو اس کی کلیجی وغیرہ کا ایک ٹکڑا دیا، جو شخص موجودتھا اس کو دے دیا اور جو موجود نہیں تھا اسکے لئے رکھ لیا۔ (عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے) کہا: آپ نے (کھانے کے لئے) دو بڑے پیالے بنائے اور ہم سب نے ان دو پیالوں میں سے کھایا اور سیر ہوگئے، دونوں پیالوں میں کھانا پھر بھی بچ گیا تو میں نے اس کو اونٹ پر لاد لیا یاجس طرح انھوں نےکہا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم ایک سو تیس افراد تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم میں سے کسی شخص کے پاس کھانا ہے؟“ تو ایک آدمی کے پاس ایک صاع یا اس کے قریب آٹا نکلا، اسے گوندھا گیا، پھر ایک مشرک آدمی پراگندہ بال یا لمبا تڑنگا، بکریاں ہانکتے ہوئے، آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیچتے ہو یا عطیہ ہے یا فرمایا ہبہ ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، بلکہ بیچوں گا، آپ نے اس سے ایک بکری خرید لی، اسے تیار کیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کلیجی کو بھوننے کا حکم دیا اور اللہ کی قسم! ایک سو تیس آدمیوں میں سے ہر ایک کے لیے آپ نے اس کلیجی سے ایک ٹکڑا کاٹا، اگر موجود تھا تو اس کو دے دیا اور اگر غیر موجود تھا تو اس کے لیے رکھ لیا گیا اور بکری کے گوشت کو دو پیالوں میں ڈالا، ان سے سب نے کھایا اور ہم سیر ہو گئے اور دونوں پیالوں میں کھانا بچ گیا، اسے میں نے اونٹ پر رکھ لیا، یا جو بات انہوں نے کہی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، وحامد بن عمر البكراوي ، ومحمد بن عبد الاعلى القيسي كلهم، عن المعتمر ، واللفظ لابن معاذ ، حدثنا المعتمر بن سليمان، قال: قال ابي : حدثنا ابو عثمان ، انه حدثه عبد الرحمن بن ابي بكر ، ان اصحاب الصفة كانوا ناسا فقراء، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال مرة: " من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثلاثة، ومن كان عنده طعام اربعة فليذهب بخامس بسادس " او كما قال، وإن ابا بكر جاء بثلاثة، وانطلق نبي الله صلى الله عليه وسلم بعشرة وابو بكر بثلاثة، قال: فهو وانا وابي وامي، ولا ادري هل قال: وامراتي وخادم بين بيتنا وبيت ابي بكر؟، قال: وإن ابا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه وسلم، ثم لبث حتى صليت العشاء ثم رجع، فلبث حتى نعس رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء بعدما مضى من الليل ما شاء الله، قالت له امراته: ما حبسك عن اضيافك او قالت ضيفك؟ قال: او ما عشيتهم، قالت: ابوا حتى تجيء قد عرضوا عليهم فغلبوهم، قال: فذهبت انا فاختبات، وقال يا غنثر: فجدع وسب، وقال: كلوا لا هنيئا، وقال: والله لا اطعمه ابدا، قال: فايم الله ما كنا ناخذ من لقمة إلا ربا من اسفلها اكثر منها، قال: حتى شبعنا وصارت اكثر مما كانت قبل ذلك، فنظر إليها ابو بكر فإذا هي كما هي او اكثر، قال لامراته: يا اخت بني فراس ما هذا قالت؟ لا وقرة عيني لهي الآن اكثر منها قبل ذلك بثلاث مرار، قال: فاكل منها ابو بكر، وقال: إنما كان ذلك من الشيطان يعني يمينه ثم اكل منها لقمة ثم حملها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاصبحت عنده، قال: وكان بيننا وبين قوم عقد، فمضى الاجل فعرفنا اثنا عشر رجلا مع كل رجل منهم اناس الله اعلم كم مع كل رجل إلا انه بعث معهم، فاكلوا منها اجمعون او كما قال.حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ كُلُّهُمْ، عَنْ الْمُعْتَمِرِ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ مُعَاذ ٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: قَالَ أَبِي : حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا نَاسًا فُقَرَاءَ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَّةً: " مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَلَاثَةٍ، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ " أَوْ كَمَا قَالَ، وَإِنَّ أَبَا بَكْر ٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ، وَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَكْرٍ بِثَلَاثَةٍ، قَالَ: فَهُوَ وَأَنَا وَأَبِي وَأُمِّي، وَلَا أَدْرِي هَلْ قَالَ: وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَكْرٍ؟، قَالَ: وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صُلِّيَتِ الْعِشَاءُ ثُمَّ رَجَعَ، فَلَبِثَ حَتَّى نَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ بَعْدَمَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ: مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِكَ؟ قَالَ: أَوَ مَا عَشَّيْتِهِمْ، قَالَتْ: أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ، قَالَ: فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ، وَقَالَ يَا غُنْثَرُ: فَجَدَّعَ وَسَبَّ، وَقَالَ: كُلُوا لَا هَنِيئًا، وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا، قَالَ: فَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا، قَالَ: حَتَّى شَبِعْنَا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ، قَالَ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا قَالَتْ؟ لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلَاثِ مِرَارٍ، قَالَ: فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ، قَالَ: وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ، فَمَضَى الْأَجَلُ فَعَرَّفْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ إِلَّا أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ، فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ كَمَا قَالَ. معمبر بن سلیمان کے والد نے کہا: ہمیں ابو عثمان نے حدیث بیان کی کہ انھیں حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین (تیسرے: صحیح بخاری: 602) کولے جائے۔ اور جس کے پاس چار کا ہو وہ پانچویں یا چھٹے کو بھی لے جائے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو لے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال بھی دس کے قریب تھے تو گویا آدھا کھانا مہمانوں کے لئے ہوا)۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمارے گھر میں کوئی نہیں تھا سوائے میرے باپ اور میری ماں کے۔ راوی نے کہا کہ شاید اپنی بیوی کا بھی کہا اور ایک خادم جو میرے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رات کا کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھایا، پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی گئی۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ گئے اور وہیں رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ غرض بڑی رات گزرنے کے بعد جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ گھر آئے اور ان کی بیوی نے کہا کہ تم اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں رہ گئے تھے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا کہ مہمانوں نے تمہارے آنے تک نہیں کھایا اور انہوں نے مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا تھا لیکن مہمان ان پر نہ کھانے میں غالب ہوئے۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ناراضگی کے ڈر سے) چھپ گیا تو انہوں نے مجھے پکارا کہ اے سست مجہول یا احمق! تیری ناک کٹے اور مجھے برا کہا اور مہمانوں سے کہا کہ کھاؤ اگرچہ یہ کھانا خوشگوار نہیں ہے (کیونکہ بے وقت ہے)۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اللہ کی قسم میں اس کو کبھی بھی نہ کھاؤں گا۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے نیچے وہ کھانا اتنا ہی بڑھ جاتا، یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کھانے کو دیکھا کہ وہ اتنا ہی ہے یا زیادہ ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنی عورت سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن یہ کیا ہے؟ وہ بولی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) کہ یہ تو پہلے سے بھی زیادہ (ہوگیا) ہے تین حصے زیادہ ہے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کھایا اور کہا کہ میں نے جو قسم کھائی تھی وہ (غصے میں) شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا، اس کے بعد وہ کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ میں بھی صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان عقد تھا (یعنی صلح کا اقرار تھا)، پس اقرار کی مدت گزر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ آدمی ہمارے افسر کئے اور ہر ایک کے ساتھ لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ پھر وہ کھانا ان کے ساتھ کر دیا اور سب لوگوں نے اس میں سے کھایا۔یا جس طرح انہوں نے بیان کیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہے، وہ تین کو لے اور جس کے پاس چار کا کھانا، وہ پانچواں چھٹا لے جائے۔“ یا جو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین افراد کو لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو لے گئے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین افراد لائے، کیونکہ گھر میں میں، میرا باپ اور میری ماں تھے، (اور عبدالرحمٰن کے شاگرد کہتے ہیں) میں نہیں جانتا، کیا انہوں نے کہا، میری بیوی اور ہمارے دونوں گھروں کا مشترکہ خادم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام کا کھانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھایا، پھر عشاء کی نماز پڑھنے تک وہیں ٹھہرے رہے، پھر دوبارہ وہیں آئے، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے لگے اور جس قدر اللہ کو منظور تھا، اتنی رات گزرنے کے بعد آئے، ان کی بیوی نے ان سے کہا، اپنے مہمانوں یا مہمان سے کیوں رکے رہے؟ انہوں نے پوچھا کہ یا تم نے ان کو شام کا کھانا نہیں کھلایا؟ اس نے کہا: انہوں نے آپ کی آمد تک انکار کیا، گھر والوں نے ان کے سامنے پیش کیا تھا اور وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے، عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں جا کر چھپ گیا، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے احمق، نادان، تیری ناک کٹے اور برا بھلا کہا اور مہمانوں کو کہا: کھاؤ، یہ تمہارے لیے خوش گوار نہ ہو اور کہا: اللہ کی قسم! میں کبھی بھی اس کو نہیں کھاؤں گا اور اللہ کی قسم! ہم جو لقمہ اٹھاتے، اس سے زیادہ نیچے سے ابھر آتا، حتی کہ ہم سیر ہو گئے اور وہ پہلے سے زیادہ ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر نظر دوڑائی تو وہ اتنا ہی یا اس سے زیادہ تھا، انہوں نے اپنی بیوی سے کہا: اے بنو فراس کے فرد! یہ کیا ہوا؟ اس نے کہا: نہیں، میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم! یہ اب پہلے سے تین گنا زیادہ ہے اور اس سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کھایا اور فرمایا: وہ قسم تو شیطانی کام تھا، پھر اس سے لقمہ اٹھایا، پھر اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے، وہ صبح تک آپ کے پاس رہا، ہمارے اور ایک قوم کے درمیان معاہدہ تھا، مدت گزر گئی اور ہم نے بارہ نگران مقرر کیے، ہر آدمی کے ماتحت لوگ تھے، اللہ ہی جانتا ہے، ہر ایک آدمی کے تحت کتنے لوگ تھے، اتنی بات ہے کہ آپ نے کھانا ان کے ساتھ بھیجا اور ان سب نے اس سے کھایا، یا جو الفاظ استاد نے کہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني محمد بن المثنى ، حدثنا سالم بن نوح العطار ، عن الجريري ، عن ابي عثمان ، عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، قال: نزل علينا اضياف لنا، قال: وكان ابي يتحدث إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل، قال: فانطلق، وقال: " يا عبد الرحمن، افرغ من اضيافك، قال: فلما امسيت جئنا بقراهم، قال: فابوا، فقالوا: حتى يجيء ابو منزلنا فيطعم معنا، قال: فقلت لهم: إنه رجل حديد، وإنكم إن لم تفعلوا خفت ان يصيبني منه اذى، قال: فابوا فلما جاء لم يبدا بشيء اول منهم، فقال: افرغتم من اضيافكم؟، قال: قالوا: لا والله ما فرغنا، قال: الم آمر عبد الرحمن؟ قال: وتنحيت عنه، فقال: يا عبد الرحمن قال: فتنحيت، قال: فقال: يا غنثر، اقسمت عليك إن كنت تسمع صوتي إلا جئت، قال: فجئت، فقلت: والله ما لي ذنب هؤلاء اضيافك، فسلهم قد اتيتهم بقراهم، فابوا ان يطعموا حتى تجيء، قال: فقال: ما لكم ان لا تقبلوا عنا قراكم؟، قال: فقال ابو بكر: فوالله لا اطعمه الليلة، قال: فقالوا: فوالله لا نطعمه حتى تطعمه، قال: فما رايت كالشر كالليلة قط، ويلكم ما لكم ان لا تقبلوا عنا قراكم؟، قال: ثم قال: اما الاولى فمن الشيطان هلموا قراكم، قال: فجيء بالطعام فسمى فاكل واكلوا، قال: فلما اصبح غدا على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، بروا وحنثت، قال: فاخبره، فقال: " بل انت ابرهم واخيرهم "، قال: ولم تبلغني كفارة.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ الْعَطَّارُ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ: نَزَلَ عَلَيْنَا أَضْيَافٌ لَنَا، قَالَ: وَكَانَ أَبِي يَتَحَدَّثُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ، قَالَ: فَانْطَلَقَ، وَقَالَ: " يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، افْرُغْ مِنْ أَضْيَافِكَ، قَالَ: فَلَمَّا أَمْسَيْتُ جِئْنَا بِقِرَاهُمْ، قَالَ: فَأَبَوْا، فَقَالُوا: حَتَّى يَجِيءَ أَبُو مَنْزِلِنَا فَيَطْعَمَ مَعَنَا، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُمْ: إِنَّهُ رَجُلٌ حَدِيدٌ، وَإِنَّكُمْ إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا خِفْتُ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ أَذًى، قَالَ: فَأَبَوْا فَلَمَّا جَاءَ لَمْ يَبْدَأْ بِشَيْءٍ أَوَّلَ مِنْهُمْ، فَقَالَ: أَفَرَغْتُمْ مِنْ أَضْيَافِكُمْ؟، قَالَ: قَالُوا: لَا وَاللَّهِ مَا فَرَغْنَا، قَالَ: أَلَمْ آمُرْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ؟ قَالَ: وَتَنَحَّيْتُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ قَالَ: فَتَنَحَّيْتُ، قَالَ: فَقَالَ: يَا غُنْثَرُ، أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ إِنْ كُنْتَ تَسْمَعُ صَوْتِي إِلَّا جِئْتَ، قَالَ: فَجِئْتُ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ مَا لِي ذَنْبٌ هَؤُلَاءِ أَضْيَافُكَ، فَسَلْهُمْ قَدْ أَتَيْتُهُمْ بِقِرَاهُمْ، فَأَبَوْا أَنْ يَطْعَمُوا حَتَّى تَجِيءَ، قَالَ: فَقَالَ: مَا لَكُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاكُمْ؟، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَوَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ اللَّيْلَةَ، قَالَ: فَقَالُوا: فَوَاللَّهِ لَا نَطْعَمُهُ حَتَّى تَطْعَمَهُ، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُ كَالشَّرِّ كَاللَّيْلَةِ قَطُّ، وَيْلَكُمْ مَا لَكُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاكُمْ؟، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَمَّا الْأُولَى فَمِنَ الشَّيْطَانِ هَلُمُّوا قِرَاكُمْ، قَالَ: فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَسَمَّى فَأَكَلَ وَأَكَلُوا، قَالَ: فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَرُّوا وَحَنِثْتُ، قَالَ: فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: " بَلْ أَنْتَ أَبَرُّهُمْ وَأَخْيَرُهُمْ "، قَالَ: وَلَمْ تَبْلُغْنِي كَفَّارَةٌ. جریری نے ابو عثمان سے، انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہمارے ہاں ہمارے کچھ مہمان آئے، میرے والد رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر گفتگو کیا کرتے تھے، وہ چلے گئے اور مجھ سے فرمایا: عبدالرحمان! تم اپنے مہمانوں کی سب خدمت بجا لانا۔جب شام ہوئی تو ہم نے (ان کے سامنے) کھانا پیش کیا، کہا: توانھوں نے انکار کردیا اور کہا: جب گھر کے مالک (بچوں کے والد) آئیں گے اور ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے (ہم اس وقت کھانا کھائیں گے۔) کہا: میں نے ان کو بتایا کہ وہ (میرے والد) تیز مزاج آدمی ہیں، اگرتم نے کھانا نہ کھایا تو مجھے خدشہ ہے کہ مجھے ان کی طرف سے سزا ملے گی۔کہا: لیکن وہ نہیں مانے، جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو ان (کے متعلق پوچھنے) سے پہلے انھوں نے کوئی (اور) بات شروع نہ کی۔انھوں نے کہا: مہمانوں (کی میزبانی) سے فارغ ہوگئے ہو؟گھر والوں نے کہا: واللہ! ابھی ہم فارغ نہیں ہوئے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں نے عبدالرحمان کو کہا نہیں تھا؟ (حضرت عبدالرحمان نے) کہا: میں ایک طرف ہٹ گیا انھوں نے آواز دی: عبدالرحمان! میں کھسک گیا۔پھر انہوں نے کہا: اے احمق!میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آوازسن رہا ہے تو آجا۔حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آگیا اور میں نے کہا: اللہ کی قسم! میرا کوئی قصور نہیں ہے۔یہ ہیں آپ کے مہمان ان سے پوچھ لیجئے، میں ان کاکھانا ان کے پاس لایاتھا، انہوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکاور کردیا، (عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے) کہاتو انھوں (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ) نے (ان سے) کہا: کیا بات ہے؟تم نے ہمارا پیش کیا ہواکھانا کیوں قبول نہیں کیا؟ (عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم!میں آج رات یہ کھانا نہیں کھاؤں گا۔مہمانوں نے کہا اللہ کی قسم!ہم بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے جب تک آپ نہیں کھاتے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شر جیسا (شر)، اس رات جیسی (رات) میں نے کبھی نہیں دیکھی، تم لوگوں پر افسوس!تمھیں کیا ہے؟تم لوگوں نے ہماری دعوت قبول کیوں نہیں کی؟پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: (میری) پہلی بات (نہ کھانے کی قسم) شیطان کی طرف سے (ابھارنے پر) تھی۔چلو، اپنا میزبانی کا کھانا لاؤ۔حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر کھانالایا گیا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا صبح ہوئی تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں نے قسم پوری کرلی اور میں نے توڑدی (کہا) پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا واقعہ سنایا، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: نہیں، تم ان سے بڑھ کر قسم پوری کرنے والے ہو، ان سے بہتر ہو، " (حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے) کہا: مجھ تک کفارہ دینے کی بات نہیں پہنچی (مجھے معلوم نہیں کہ میرے والد نے کفارہ دیا یا کب دیا۔) حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں: ہمارے ہاں مہمان آئے اور میرے والد رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر گفتگو کیا کرتے تھے، اس لیے وہ چلے گئے اور مجھے کہہ گئے: اے عبدالرحمٰن! اپنے مہمانوں سے فارغ ہو جانا، یعنی ان کی ضیافت کرنا تو جب شام ہو گئی، ہم نے انہیں ان کی ضیافت پیش کی، انہوں نے (کھانے سے) انکار کر دیا، کہنے لگے: گھر کا مالک آ کر ہمارے ساتھ کھانا کھائے تو ہم تب کھائیں گے، میں نے ان سے کہا: وہ سخت گیر آدمی ہے اور اگر تم نے کھانا نہ کھایا تو مجھے خطرہ ہے کہ تو وہ مجھے سزا دیں گے، یعنی مجھے ان سے تکلیف برداشت کرنی پڑے گی، انہوں نے پھر بھی انکار کر دیا تو جب وہ آئے، ان کے بارے میں سوال کرنے سے پہلے کوئی گفتگو نہیں کی، پوچھا: کیا تم اپنے مہمانوں سے فارغ ہو گئے ہو؟ گھر والوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم فارغ نہیں ہوئے، انہوں نے کہا: کیا میں عبدالرحمٰن کو حکم دے کر نہیں گیا تھا؟ اور میں ان سے ایک طرف ہٹ گیا، انہوں نے کہا: اے عبدالرحمٰن! تو میں دور ہٹ گیا، انہوں نے کہا: اے احمق، کمینے، میں تمہیں قسم دیتا ہوں، اگر میری آواز سن رہے ہو تو آ جاؤ، تو میں حاضر ہو گیا اور عرض کیا: اللہ کی قسم! میرا کوئی قصور نہیں، یہ آپ کے مہمان ہیں، ان سے پوچھ لیجئے، میں نے انہیں ان کی ضیافت پیش کی تھی، انہوں نے آپ کی آمد تک کھانے سے انکار کر دیا تو ابوبکر نے ان سے پوچھا: تم نے ہماری ضیافت قبول کرنے سے کیوں انکار کیا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! آج رات میں کھانا نہیں کھاؤں گا تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم بھی اسے نہیں کھائیں گے، جب تک آپ اسے نہیں کھاتے، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: آج کی رات جیسا شر کبھی نہیں دیکھا، تم پر افسوس! تمہیں کیا ہوا ہے، تم ہماری دعوت قبول نہیں کرتے ہو؟ پھر ابوبکر نے کہا: پہلی بات (قسم) تو شیطانی فعل ہے، اپنی ضیافت کی طرف بڑھو، کھانا لایا گیا، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کر دیا اور وہ بھی کھانے لگے، جب صبح ہوئی تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! مہمانوں نے قسم کو پورا کیا اور میں نے قسم توڑ ڈالی اور آپ کو پورا واقعہ سنایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ تو ان سے زیادہ وفادار اور اطاعت گزار ہے اور ان سے بہترین ہے۔“ عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، مجھے کفارہ کا علم نہیں ہو سکا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|