صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
مشروبات کا بیان
The Book of Drinks
32. باب إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَفَضْلِ إِيثَارِهِ:
32. باب: مہمان کی خاطرداری کرنا چاہئے۔
Chapter: Honoring guests and the virtue of showing preference to one's guest
حدیث نمبر: 5362
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شبابة بن سوار ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن المقداد ، قال: اقبلت انا وصاحبان لي، وقد ذهبت اسماعنا وابصارنا من الجهد، فجعلنا نعرض انفسنا على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فليس احد منهم يقبلنا، فاتينا النبي صلى الله عليه وسلم، فانطلق بنا إلى اهله، فإذا ثلاثة اعنز، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " احتلبوا هذا اللبن بيننا "، قال: فكنا نحتلب، فيشرب كل إنسان منا نصيبه، ونرفع للنبي صلى الله عليه وسلم نصيبه، قال: فيجيء من الليل، فيسلم تسليما لا يوقظ نائما ويسمع اليقظان، قال: ثم ياتي المسجد فيصلي ثم ياتي شرابه فيشرب، فاتاني الشيطان ذات ليلة وقد شربت نصيبي، فقال محمد: ياتي الانصار فيتحفونه ويصيب عندهم ما به حاجة إلى هذه الجرعة، فاتيتها فشربتها، فلما ان وغلت في بطني وعلمت انه ليس إليها سبيل، قال: ندمني الشيطان، فقال: ويحك ما صنعت اشربت شراب محمد؟ فيجيء فلا يجده فيدعو عليك فتهلك، فتذهب دنياك وآخرتك، وعلي شملة إذا وضعتها على قدمي خرج راسي، وإذا وضعتها على راسي خرج قدماي، وجعل لا يجيئني النوم، واما صاحباي فناما ولم يصنعا ما صنعت، قال: فجاء النبي صلى الله عليه وسلم، فسلم كما كان يسلم ثم اتى المسجد فصلى ثم اتى شرابه فكشف عنه فلم يجد فيه شيئا، فرفع راسه إلى السماء، فقلت: الآن يدعو علي فاهلك، فقال: " اللهم اطعم من اطعمني واسق من اسقاني "، قال: فعمدت إلى الشملة فشددتها علي واخذت الشفرة، فانطلقت إلى الاعنز ايها اسمن، فاذبحها لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هي حافلة وإذا هن حفل كلهن، فعمدت إلى إناء لآل محمد صلى الله عليه وسلم ما كانوا يطمعون ان يحتلبوا فيه، قال: فحلبت فيه حتى علته رغوة، فجئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " اشربتم شرابكم الليلة؟ "، قال: قلت: يا رسول الله اشرب، فشرب ثم ناولني، فقلت: يا رسول الله اشرب، فشرب ثم ناولني، فلما عرفت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد روي واصبت دعوته، ضحكت حتى القيت إلى الارض، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إحدى سوآتك يا مقداد "، فقلت: يا رسول الله كان من امري كذا وكذا وفعلت كذا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ما هذه إلا رحمة من الله افلا كنت آذنتني فنوقظ صاحبينا فيصيبان منها؟ "، قال: فقلت: والذي بعثك بالحق ما ابالي إذا اصبتها واصبتها معك من اصابها من الناس.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ الْمِقْدَادِ ، قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي، وَقَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنَ الْجَهْدِ، فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ يَقْبَلُنَا، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقَ بِنَا إِلَى أَهْلِهِ، فَإِذَا ثَلَاثَةُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا "، قَالَ: فَكُنَّا نَحْتَلِبُ، فَيَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنَّا نَصِيبَهُ، وَنَرْفَعُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبَهُ، قَالَ: فَيَجِيءُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لَا يُوقِظُ نَائِمًا وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ، قَال: ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَهُ فَيَشْرَبُ، فَأَتَانِي الشَّيْطَانُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَقَدْ شَرِبْتُ نَصِيبِي، فَقَالَ مُحَمَّدٌ: يَأْتِي الْأَنْصَارَ فَيُتْحِفُونَهُ وَيُصِيبُ عِنْدَهُمْ مَا بِهِ حَاجَةٌ إِلَى هَذِهِ الْجُرْعَةِ، فَأَتَيْتُهَا فَشَرِبْتُهَا، فَلَمَّا أَنْ وَغَلَتْ فِي بَطْنِي وَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ إِلَيْهَا سَبِيلٌ، قَالَ: نَدَّمَنِي الشَّيْطَانُ، فَقَالَ: وَيْحَكَ مَا صَنَعْتَ أَشَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ؟ فَيَجِيءُ فَلَا يَجِدُهُ فَيَدْعُو عَلَيْكَ فَتَهْلِكُ، فَتَذْهَبُ دُنْيَاكَ وَآخِرَتُكَ، وَعَلَيَّ شَمْلَةٌ إِذَا وَضَعْتُهَا عَلَى قَدَمَيَّ خَرَجَ رَأْسِي، وَإِذَا وَضَعْتُهَا عَلَى رَأْسِي خَرَجَ قَدَمَايَ، وَجَعَلَ لَا يَجِيئُنِي النَّوْمُ، وَأَمَّا صَاحِبَايَ فَنَامَا وَلَمْ يَصْنَعَا مَا صَنَعْتُ، قَالَ: فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ كَمَا كَانَ يُسَلِّمُ ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى ثُمَّ أَتَى شَرَابَهُ فَكَشَفَ عَنْهُ فَلَمْ يَجِدْ فِيهِ شَيْئًا، فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: الْآنَ يَدْعُو عَلَيَّ فَأَهْلِكُ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي وَأَسْقِ مَنْ أَسْقَانِي "، قَالَ: فَعَمَدْتُ إِلَى الشَّمْلَةِ فَشَدَدْتُهَا عَلَيَّ وَأَخَذْتُ الشَّفْرَةَ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْأَعْنُزِ أَيُّهَا أَسْمَنُ، فَأَذْبَحُهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هِيَ حَافِلَةٌ وَإِذَا هُنَّ حُفَّلٌ كُلُّهُنَّ، فَعَمَدْتُ إِلَى إِنَاءٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانُوا يَطْمَعُونَ أَنْ يَحْتَلِبُوا فِيهِ، قَالَ: فَحَلَبْتُ فِيهِ حَتَّى عَلَتْهُ رَغْوَةٌ، فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَشَرِبْتُمْ شَرَابَكُمُ اللَّيْلَةَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْرَبْ، فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْرَبْ، فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي، فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَوِيَ وَأَصَبْتُ دَعْوَتَهُ، ضَحِكْتُ حَتَّى أُلْقِيتُ إِلَى الْأَرْضِ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِحْدَى سَوْآتِكَ يَا مِقْدَادُ "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَانَ مِنْ أَمْرِي كَذَا وَكَذَا وَفَعَلْتُ كَذَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا هَذِهِ إِلَّا رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ أَفَلَا كُنْتَ آذَنْتَنِي فَنُوقِظَ صَاحِبَيْنَا فَيُصِيبَانِ مِنْهَا؟ "، قَالَ: فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُبَالِي إِذَا أَصَبْتَهَا وَأَصَبْتُهَا مَعَكَ مَنْ أَصَابَهَا مِنَ النَّاسِ.
شبانہ بن سوار نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے، انھوں نے حضرت مقدار رضی اللہ عنہ سے روایت کی، سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے دونوں ساتھی آئے اور (فاقہ وغیرہ کی) تکلیف سے ہماری آنکھوں اور کانوں کی قوت جاتی رہی تھی۔ ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر پیش کرتے تھے لیکن کوئی ہمیں قبول نہ کرتا تھا۔ آخر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ وہاں تین بکریاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا دودھ دوہو، ہم تم سب پئیں گے پھر ہم ان کا دودھ دوہا کرتے اور ہم میں سے ہر ایک اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ رکھ چھوڑتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لاتے اور ایسی آواز سے سلام کرتے جس سے سونے والا نہ جاگے اور جاگنے والا سن لے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آتے، نماز پڑھتے، پھر اپنے دودھ کے پاس آتے اور اس کو پیتے۔ ایک رات جب میں اپنا حصہ پی چکا تھا کہ شیطان نے مجھے بھڑکایا۔ شیطان نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو انصار کے پاس جاتے ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے دیتے ہیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت ہے، مل جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیا ضرورت ہو گی؟ آخر میں آیا اور وہ دودھ پی گیا۔ جب دودھ پیٹ میں سما گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ دودھ نہیں ملنے کا تو اس وقت شیطان نے مجھے ندامت کی اور کہنے لگا کہ تیری خرابی ہو تو نے کیا کام کیا؟ تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ پی لیا، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے اور دودھ کو نہ پائیں گے تو تجھ پر بددعا کریں گے اور تیری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوں گی۔ میں ایک چادر اوڑھے ہوئے تھا جب اس کو پاؤں پر ڈالتا تو سر کھل جاتا اور جب سر ڈھانپتا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور مجھے نیند بھی نہ آ رہی تھی جبکہ میرے ساتھی سو گئے اور انہوں نے یہ کام نہیں کیا تھا جو میں نے کیا تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور معمول کے موافق سلام کیا، پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، اس کے بعد دودھ کے پاس آئے، برتن کھولا تو اس میں کچھ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا میں سمجھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بددعا کرتے ہیں اور میں تباہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! کھلا اس کو جو مجھے کھلائے اور پلا اس کو جو مجھے پلائے۔ یہ سن کر میں نے اپنی چادر کو مضبوط باندھا، چھری لی اور بکریوں کی طرف چلا کہ جو ان میں سے موٹی ہو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ذبح کروں۔ دیکھا تو اس کے تھن میں دودھ بھرا ہوا ہے۔ پھر دیکھا تو اور بکریوں کے تھنوں میں بھی دودھ بھرا ہوا ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کا ایک برتن لیا جس میں وہ دودھ نہ دوہتے تھے (یعنی اس میں دوہنے کی خواہش نہیں کرتے تھے)۔ اس میں میں نے دودھ دوہا، یہاں تک کہ اوپر جھاگ آ گیا (اتنا بہت دودھ نکلا) اور میں اس کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اپنے حصے کا دودھ رات کو پیا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ دودھ پیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی کر مجھے دیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور پیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور پیا۔ پھر مجھے دیا، جب مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیر ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں نے لے لی ہے، تب میں ہنسا، یہاں تک کہ خوشی کے مارے زمین پر گر گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے مقداد! تو نے کوئی بری بات کی؟ وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا حال ایسا ہوا اور میں نے ایسا قصور کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت کا دودھ (جو خلاف معمول اترا) اللہ کی رحمت تھی۔ تو نے مجھ سے پہلے ہی کیوں نہ کہا ہم اپنے دونوں ساتھیوں کو بھی جگا دیتے کہ وہ بھی یہ دودھ پیتے؟ میں نے عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا کلام دے کر بھیجا ہے کہ اب مجھے کوئی پرواہ نہیں جب آپ نے اللہ کی رحمت حاصل کر لی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاصل کی تو کوئی بھی اس کو حاصل کرے۔
حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اور میرے دو ساتھی آئے اور ہمارے کان اور ہماری آنکھیں بھوک کی وجہ سے ختم ہو رہے تھے، یعنی ہماری ساعت اور بصارت متاثر ہو رہی تھی تو ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے پیش کرنے لگے اور ان میں سے کوئی ہمیں قبول کرنے کی سکت نہ رکھتا تھا تو ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ہمیں لے کر اپنے گھر چلے گئے تو وہاں تین بکریاں موجود تھیں، سو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے لیے مشترکہ طور پر ان کو دوہ لو۔ تو ہم ان کا دودھ نکال لیتے اور ہم میں سے ہر انسان اپنا حصہ پی لیتا اور ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اٹھا رکھتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لاتے اور اس طرح سلام کہتے جس سے سونے والا بیدار نہ ہوا اور بیدار سن لے، پھر مسجد میں جا کر نماز پڑھتے، پھر اپنے مشروب کے پاس آ کر اسے نوش فرما لیتے، ایک رات میرے پاس شیطان آیا، جبکہ میں اپنا حصہ پی چکا تھا، کہنے لگا، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) انصار کے پاس جاتا ہے، وہ اسے تحفے پیش کرتے ہیں اور وہ ان کے ہاں اپنی ضرورت کی چیز پا لیتے ہیں، اسے اس گھونٹ کی ضرورت نہیں ہے تو میں اس کے پاس آیا اور اسے پی لیا تو جب وہ میرے پیٹ میں سما گیا اور میں نے جان لیا، اب اس تک پہنچنے کی کوئی راہ نہیں، (وہ واپس نہیں آ سکتا) شیطان نے مجھے پشیمان کرنا شروع کر دیا، کہنے لگا، تم پر افسوس! تو نے کیا حرکت کی؟ کیا تو نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مشروب بھی پی لیا ہے؟ وہ آئے گا اور اسے نہ پا کر تیرے خلاف دعا کرے گا اور تو ہلاک ہو جائے گا، جس سے تیری دنیا اور آخرت تباہ ہو جائے گی، اور مجھ پر ایک چادر تھی، جب میں اسے اپنے پاؤں پر ڈالتا تو سر کھل جاتا اور جب میں اسے اپنے سر پر ڈالتا تو میرے پاؤں ظاہر ہو جاتے اور مجھے نیند نہیں آ رہی تھی، جبکہ میرے دونوں ساتھی سو چکے تھے اور انہوں نے میرے والی حرکت نہ کی تھی، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ نے معمول کے مطابق سلام کہا، پھر مسجد میں آ کر نماز پڑھی، پھر اپنے مشروب کے پاس آئے، اس سے پردہ اٹھایا تو برتن میں کچھ نہ پایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، میں نے دل میں کہا، اب آپ میرے خلاف دعا کریں گے، جس سے میں ہلاک ہو جاؤں گا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اے اللہ! مجھے کھلانے والے کو کھلا اور مجھے پلانے والے کو پلا۔ تو میں نے اپنی چادر کی طرف توجہ کی اور اسے اپنے اوپر اچھی طرح باندھ لیا اور چھری پکڑی اور بکریوں کی طرف چل پڑا تاکہ جو ان میں سے زیادہ موٹی ہو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ذبح کروں تو اس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے اور ان سب کے تھنوں میں دودھ جمع ہو چکا تھا تو میں نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گھر والوں کا وہ برتن لیا، جس میں وہ دودھ نکالنے کی خواہش نہیں کر سکتے تھے، میں نے اس میں دودھ دوہا، حتی کہ اس پر جھاگ آ گئی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا آج رات تم نے اپنا مشروب پی لیا؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! پیجئے، آپ نے پی لیا، پھر مجھے پکڑا دیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! پیجئے، آپ نے پیا اور پھر مجھے پکڑا دیا، جب میں نے سمجھ لیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیر ہو چکے ہیں اور میں نے آپ کی دعا بھی لے لی، میں کھل کھلا ہنس پڑا، حتی کہ زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری حرکتوں میں سے ایک ہے، اے مقداد! اس پر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا اور میں نے یہ کام کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو محض اللہ کی رحمت ہے تو نے مجھے آگاہ کیوں نہ کیا، ہم اپنے دونوں ساتھیوں کو جگاتے، اور وہ بھی اس رحمت سے حصہ پا لیتے میں نے کہا: اس ذات کی قسم، جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے، مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے، جب آپ نے اس کو پا لیا اور میں نے آپ کے ساتھ اس کو پا لیا، یہ لوگوں میں سے کس کو ملتی ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2055

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5362 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5362  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الجرعة:
گھونٹ۔
(2)
وغلت في بطني:
میرے پیٹ میں اس نے جگہ بنالی۔
(3)
حافلة:
وہ دودھ جمع کرچکی تھی،
حافلة کی جمع حفل ہے،
سب نے دودھ جمع کرلیا تھا،
سب کے تھنوں میں دودھ بھر گیا تھا۔
رغوة:
دودھ کے اوپر اٹھنے والی جھاگ،
احدي سواء تك:
تیری کرتوتوں میں سے ایک کرتوت ہے،
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں صحابہ کرام کے فقر و فاقہ کا اظہار ہو رہا ہے کہ ان میں سے (جن کو وہ ملے)
کسی کے پاس اتنی سکت نہ تھی کہ وہ تین آدمیوں کی مہمان نوازی کر سکتا،
مجبور ہو کر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ بھی دودھ کے سوا انہیں کچھ پیش نہ کر سکے اور وہ آپ کے ساتھ دودھ پر ہی گزارہ کرتے رہے تھے،
حتی کہ شیطان نے حضرت مقداد کے دل میں عجیب سوچ پیدا کی اور انہیں سے ایک حرکت سرزد کروا کر انہیں پشیمان کرنا شروع کر دیا،
جس کے نتیجہ میں اللہ کی رحمت کا ظہور ہوا اور بکریوں کے تھنوں میں دوبارہ دودھ جمع ہو گیا،
تاکہ شرمسار ہونے والا آپ کا معجزہ بھی دیکھ لے اور آپ دودھ سے محروم بھی نہ رہیں اور حضرت مقداد،
آپ کی دعا کے مستحق ٹھہرے،
جس سے وہ خوف اور غم و حزن سے نکل کر خوشی سے سرشار ہو گئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5362   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.