كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے The Book of Jihad and Expeditions 48. باب النِّسَاءُ الْغَازِيَاتُ يُرْضَخُ لَهُنَّ وَلاَ يُسْهَمُ وَالنَّهْيُ عَنْ قَتْلِ صِبْيَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ: باب: جو عورتیں جہاد میں شریک ہوں ان کو انعام ملے گا اور حصہ نہیں ملے گا اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔ Chapter: Women who take part in military expeditions are to be given a reward but not a regular share; And the prohibition of killing children of the enemy حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا سليمان يعني ابن بلال ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن يزيد بن هرمز ، " ان نجدة كتب إلى ابن عباس يساله عن خمس خلال، فقال ابن عباس " لولا ان اكتم علما ما كتبت إليه كتب إليه، نجدة اما بعد، فاخبرني هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغزو بالنساء؟، وهل كان يضرب لهن بسهم؟، وهل كان يقتل الصبيان؟، ومتى ينقضي يتم اليتيم؟، وعن الخمس لمن هو؟، فكتب إليه ابن عباس، كتبت تسالني، هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغزو بالنساء، وقد كان يغزو بهن فيداوين الجرحى ويحذين من الغنيمة، واما بسهم فلم يضرب لهن، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لم يكن يقتل الصبيان، فلا تقتل الصبيان، وكتبت تسالني متى ينقضي يتم اليتيم، فلعمري إن الرجل لتنبت لحيته وإنه لضعيف الاخذ لنفسه ضعيف العطاء منها، فإذا اخذ لنفسه من صالح ما ياخذ الناس، فقد ذهب عنه اليتم، وكتبت تسالني عن الخمس لمن هو، وإنا كنا، نقول: هو لنا، فابى علينا قومنا ذاك "،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، " أَنَّ نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ خَمْسِ خِلَالٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ " لَوْلَا أَنْ أَكْتُمَ عِلْمًا مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ كَتَبَ إِلَيْهِ، نَجْدَةُ أَمَّا بَعْدُ، فَأَخْبِرْنِي هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ؟، وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ؟، وَهَلْ كَانَ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ؟، وَمَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ؟، وَعَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ؟، فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ، كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي، هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ، وَقَدْ كَانَ يَغْزُو بِهِنَّ فَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى وَيُحْذَيْنَ مِنَ الْغَنِيمَةِ، وَأَمَّا بِسَهْمٍ فَلَمْ يَضْرِبْ لَهُنَّ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، فَلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ، فَلَعَمْرِي إِنَّ الرَّجُلَ لَتَنْبُتُ لِحْيَتُهُ وَإِنَّهُ لَضَعِيفُ الْأَخْذِ لِنَفْسِهِ ضَعِيفُ الْعَطَاءِ مِنْهَا، فَإِذَا أَخَذَ لِنَفْسِهِ مِنْ صَالِحِ مَا يَأْخُذُ النَّاسُ، فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ الْيُتْمُ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ، وَإِنَّا كُنَّا، نَقُولُ: هُوَ لَنَا، فَأَبَى عَلَيْنَا قَوْمُنَا ذَاكَ "، سلیمان بن بلال نے ہمیں جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی کہ (معروف خارجی سردار) نجدہ (بن عامر حنفی) نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پانچ باتیں دریافت کرنے کے لیے خط لکھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں علم چھپا رہا ہوں تو میں اسے جواب نہ لکھتا۔ نجدہ نے انہیں لکھا تھا: امابعد! مجھے بتائیے: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے مدد لیتے ہوئے جنگ کرتے تھے؟ کیا آپ غنیمت میں ان کا حصہ رکھتے تھے؟ کیا آپ بچوں کو قتل کرتے تھے؟ اور یہ کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ اس نے خمس کے بارے میں (بھی پوچھا کہ) وہ کس کا حق ہے؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف (جواب) لکھا: تم نے مجھ سے دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے مدد لیتے ہوئے جنگ کرتے تھے؟ بلاشبہ آپ ان سے جنگ میں مدد لیتے تھے اور وہ زخمیوں کو مرہم لگایا کرتی تھیں اور انہیں غنیمت (کے مال) سے معمولی سا عطیہ دیا جاتا تھا، رہا (غنیمت کا باقاعدہ) حصہ تو وہ آپ نے ان کے لیے نہیں نکالا، اور یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے، لہذا تم بھی بچوں کو قتل نہ کیا کرو۔ اور تم نے مجھ سے دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا: یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ مجھے اپنی عمر (کے مالک) کی قسم! کسی آدمی کی داڑھی نکل آتی ہے جبکہ ابھی وہ اپنے لیے حق لینے میں اور اپنی طرف سے حق دینے میں کمزور ہوتا ہے، جب وہ اپنے لیے ٹھیک طرح سے حقوق لے سکے جس طرح لوگ لیتے ہیں تو اس کی یتیمی ختم ہو جائے گی۔ اور تم نے مجھ سے خمس کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا کہ وہ کس کا حق ہے؟ تو ہم کہتے تھے: وہ ہمارا حق ہے، لیکن ہماری قوم نے ہماری یہ بات ماننے سے انکار کر دیا یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ نامی خارجی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو خط لکھ کر ان سے پانچ خصائل کے بارے میں سوال کیا، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: ”اگر کتمان علم کا ڈر نہ ہوتا تو میں اسے جواب نہ لکھتا“، نجدہ نے انہیں لکھا، حمد و صلوٰۃ کے بعد! مجھے بتائیے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو جنگ میں لے جاتے تھے؟ اور کیا انہیں غنیمت سے مقرر حصہ دیتے تھے؟ اور کیا بچوں کو قتل کرتے تھے؟ اور یتیم کی یتیمی کب ختم ہو گی؟ اور غنیمت کا خمس (پانچواں حصہ) کس کا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے اسے خط لکھا، تو نے خط لکھ کر مجھ سے پوچھا ہے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو شریک کرتے تھے؟ آپ ان کو جہاد میں لے جاتے تھے اور وہ زخمیوں کا علاج کرتی تھیں اور غنیمت سے کچھ عطیہ دیا جاتا تھا، لیکن رہا مقررہ حصہ، تو وہ ان کو نہیں دیا جاتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے (بچوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتے تھے) اس لیے تو بچوں کو قتل نہ کر اور تو نے خط کے ذریعہ مجھ سے پوچھا ہے، یتیم کی یتیمی کب ختم ہو گی؟ تو مجھے اپنی عمر کی قسم، انسان کی داڑھی نکل آتی ہے اور اس کے باوجود، وہ اپنا حق لینے میں کمزور ہوتا ہے اور اپنی طرف سے ان کا حق دینے میں کمزور ہوتا ہے (یعنی اسے لینے دینے کا سلیقہ نہیں ہوتا) تو جب وہ اپنا حق لینے میں لوگوں کی طرح صلاحیت کا اظہار کرے اور اس میں شعور و ادراک پیدا ہو جائے تو اس کی یتیمی ختم ہو جائے گی اور تو نے مجھ سے خط کے ذریعے پوچھا ہے، خمس کا کا ہے؟ تو ہم کہتے ہیں، وہ ہمارا ہے اور ہماری قوم (بنو امیہ) نے ہمیں دینے سے انکار کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابوبکر بن ابی شیبہ اور اسحاق بن ابراہیم دونوں نے ہمیں حاتم بن اسماعیل سے حدیث بیان کی، انہوں نے جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی کہ نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ان سے کچھ باتیں پوچھنے کے لیے خط لکھا۔۔۔ (آگے) سلیمان بن بلال کی حدیث کے مانند ہے، مگر حاتم کی حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے، لہذا تم بھی بچوں کو قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں بھی اسی طرح علم حاصل ہو جائے جس طرح خضر کو اس بچے کے بارے میں علم ہوا تھا جسے انہوں نے قتل کیا تھا۔ اسحاق نے حاتم سے روایت کردہ اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا: (الا یہ کہ) تم (بچوں میں سے) مومن کا امتیاز کر لو تو کافر کو قتل کر دینا اور مومن کو چھوڑ دینا (یہ دونوں باتیں کسی انسان کے بس میں نہیں جب تک اللہ تعالیٰ نہ بتائے یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو چند باتوں کے بارے میں سوال لکھ بھیجا، جیسا کہ اوپر کی حدیث میں سلیمان بن بلال نے بیان کیا ہے، لیکن اس حدیث میں حاتم نے بیان کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے، تو بھی قتل نہ کر، الا یہ کہ تجھے بھی بچے کے بارے میں خضر علیہ السلام کی طرح اس بات کا علم ہو جائے، جس کے باعث انہوں نے بچے کو قتل کیا تھا اور اسحاق نے حاتم سے یہ اضافہ کیا ہے اور تو مؤمن کا امتیاز کر لے، تو کافر کو قتل کر دینا اور مومن کو چھوڑ دینا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن إسماعيل بن امية ، عن سعيد المقبري ، عن يزيد بن هرمز ، قال: " كتب نجدة بن عامر الحروري إلى ابن عباس " يساله عن العبد والمراة يحضران المغنم، هل يقسم لهما؟، وعن قتل الولدان، وعن اليتيم متى ينقطع عنه اليتم؟، وعن ذوي القربى من هم؟، فقال ليزيد: اكتب إليه فلولا ان يقع في احموقة، ما كتبت إليه، اكتب إنك كتبت تسالني عن المراة والعبد يحضران المغنم هل يقسم لهما شيء؟، وإنه ليس لهما شيء إلا ان يحذيا، وكتبت تسالني عن قتل الولدان وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يقتلهم وانت فلا تقتلهم، إلا ان تعلم منهم ما علم صاحب موسى من الغلام الذي قتله، وكتبت تسالني عن اليتيم متى ينقطع عنه اسم اليتم؟، وإنه لا ينقطع عنه اسم اليتم حتى يبلغ ويؤنس منه رشد، وكتبت تسالني عن ذوي القربى من هم؟، وإنا زعمنا انا هم، فابى ذلك علينا قومنا "،وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: " كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ " يَسْأَلُهُ عَنِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَةِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ، هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا؟، وَعَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ، وَعَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ؟، وَعَنْ ذَوِي الْقُرْبَى مَنْ هُمْ؟، فَقَالَ لِيَزِيدَ: اكْتُبْ إِلَيْهِ فَلَوْلَا أَنْ يَقَعَ فِي أُحْمُوقَةٍ، مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ، اكْتُبْ إِنَّكَ كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا شَيْءٌ؟، وَإِنَّهُ لَيْسَ لَهُمَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْتُلْهُمْ وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْهُمْ، إِلَّا أَنْ تَعْلَمَ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ صَاحِبُ مُوسَى مِنَ الْغُلَامِ الَّذِي قَتَلَهُ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ؟، وَإِنَّهُ لَا يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ حَتَّى يَبْلُغَ وَيُؤْنَسَ مِنْهُ رُشْدٌ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ ذَوِي الْقُرْبَى مَنْ هُمْ؟، وَإِنَّا زَعَمْنَا أَنَّا هُمْ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا "، ہمیں ابن ابی عمر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے اسماعیل بن امیہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید مقبری سے اور انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی، انہوں نے کہا: نجدہ بن عامر حروری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا، وہ ان سے اس غلام اور عورت کے بارے میں پوچھ رہا تھا جو جنگ میں شریک ہوتے ہیں، کیا وہ غنیمت کی تقسیم میں (بھی) شریک ہوں گے؟ اور بچوں کے قتل کرنے کے بارے میں (پوچھا) اور یتیم کے بارے میں کہ اس سے یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور ذوی القربیٰ کے بارے میں کہ وہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے یزید سے کہا: اس کی طرف لکھو اور اگر ڈر نہ ہوتا کہ وہ کسی حماقت میں پڑ جائے گا تو میں اس کی طرف جواب نہ لکھتا، (اسے) لکھو: تم نے مجھے اس عورت اور غلام کے بارے دریافت کرنے کے لیے خط لکھا تھا جو جنگ میں شریک ہوتے ہیں: کیا وہ غنیمت کی تقسیم میں شریک ہوں گے؟" حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کے لیے کچھ نہیں ہے، الا یہ کہ انہیں کچھ عطیہ دے دیا جائے اور تم نے مجھ سے بچوں کو قتل کرنے کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا، بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل نہیں کیا اور تم بھی انہیں قتل مت کرو، الا یہ کہ تمہیں ان بچوں کے بارے میں وہ بات معلوم ہو جائے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی (خضر) کو اس بچے کے بارے میں معلوم ہو گئی جسے انہوں نے قتل کیا تھا۔ اور تم نے مجھ سے یتیم کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا کہ اس سے یتیم کا لقب کب ختم ہو گا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ اس سے یتیم کا لقب ختم نہیں ہوتا حتی کہ وہ بالغ ہو جائے اور اس کی بلوغت (سمجھداری کی عمر کو پہنچنے) کے بارے پتہ چلنے لگے۔ اور تم نے مجھ سے ذوی القربیٰ کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا کہ وہ کون ہیں؟ ہمارا خیال تھا کہ وہ ہم لوگ ہی ہیں۔ تو ہماری قوم نے ہماری یہ بات ماننے سے انکار کر دیا یزید بن ہرمز بیان کرتے ہیں، کہ نجدہ بن عامر حروری نے، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو لکھ کر اس غلام اور اس عورت کے بارے میں پوچھا، جو جنگ میں شریک ہوتے ہیں، کیا ان کو حصہ دیا جائے گا؟ اور بچوں کے قتل کا کیا حکم ہے؟ اور یتیم کی یتیمی کب ختم ہو گی؟ اور ذو القربی سے مراد کون ہے؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے یزید کو کہا، اسے خط لکھو اور اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ وہ حماقت میں مبتلا ہو جائے گا، تو میں اسے خط کا جواب نہ دیتا، لکھو! تو نے مجھ سے یہ لکھ کر پوچھا ہے کہ عورت اور غلام، غنیمت کی تقسیم کے وقت موجود ہیں، کیا انہیں بھی کچھ دیا جائے گا؟ اور واقعہ یہ ہے، ان کے لیے غنیمت میں کوئی حصہ نہیں ہے، ہاں انہیں کچھ عطیہ دیا جا سکتا ہے اور تو نے مجھ سے بچوں کے قتل کے بارے میں پوچھا ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل نہیں کیا، اس لیے تو بھی انہیں قتل نہ کر، الا یہ کہ تو ان کے بارے میں جان لے، جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی (خضر) نے اس بچے کے بارے میں جان لیا تھا، جسے اس نے قتل کیا تھا۔ اور تو نے مجھ سے یتیم کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اس سے یتیم کا نام کب ختم ہو گا؟ اور صورت حال یہ ہے اس سے یتیم کا نام ختم نہیں ہو گا حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائے اور اس سے رشد (سوجھ بوجھ، سلیقہ) معلوم ہو جائے اور تو نے لکھ کر ذوالقربیٰ کے بارے میں پوچھا، وہ کون ہیں؟ اور ہمارا نظریہ یہ ہے کہ وہ ہم ہیں، لیکن ہماری قوم نے ہماری بات کو تسلیم نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالرحمان بن بشر عبدی نے ہمیں یہی حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اسماعیل بن امیہ نے سعید بن ابی سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی، انہوں نے کہا: نجدہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا۔۔۔ اور انہوں نے اسی (سابقہ حدیث) کے مانند حدیث بیان کی۔ ابواسحاق نے کہا: مجھے عبدالرحمان بن بشر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے پوری یہی حدیث بیان کی یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو لکھا، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا وهب بن جرير بن حازم ، حدثني ابي ، قال: سمعت قيسا يحدث، عن يزيد بن هرمز . ح وحدثني محمد بن حاتم واللفظ له، قال: حدثنا بهز ، حدثنا جرير بن حازم ، حدثني قيس بن سعد ، عن يزيد بن هرمز ، قال: كتب نجدة بن عامر إلى ابن عباس، قال: فشهدت ابن عباس حين قرا كتابه وحين كتب جوابه، وقال ابن عباس : والله لولا ان ارده عن نتن يقع فيه ما كتبت إليه ولا نعمة عين، قال: " فكتب إليه إنك سالت عن سهم ذي القربى الذي ذكر الله من هم؟، وإنا كنا نرى ان قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم هم نحن، فابى ذلك علينا قومنا، وسالت عن اليتيم متى ينقضي يتمه؟، وإنه إذا بلغ النكاح، واونس منه رشد ودفع إليه ماله فقد انقضى يتمه، وسالت هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقتل من صبيان المشركين احدا؟، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يقتل منهم احدا وانت فلا تقتل منهم احدا، إلا ان تكون تعلم منهم ما علم الخضر من الغلام حين قتله، وسالت عن المراة والعبد هل كان لهما سهم معلوم إذا حضروا الباس؟، فإنهم لم يكن لهم سهم معلوم، إلا ان يحذيا من غنائم القوم "،حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسًا يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَشَهِدْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ حِينَ قَرَأَ كِتَابَهُ وَحِينَ كَتَبَ جَوَابَهُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ أَرُدَّهُ عَنْ نَتْنٍ يَقَعُ فِيهِ مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ وَلَا نُعْمَةَ عَيْنٍ، قَالَ: " فَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّكَ سَأَلْتَ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مَنْ هُمْ؟، وَإِنَّا كُنَّا نَرَى أَنَّ قَرَابَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ نَحْنُ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا، وَسَأَلْتَ عَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُهُ؟، وَإِنَّهُ إِذَا بَلَغَ النِّكَاحَ، وَأُونِسَ مِنْهُ رُشْدٌ وَدُفِعَ إِلَيْهِ مَالُهُ فَقَدِ انْقَضَى يُتْمُهُ، وَسَأَلْتَ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ مِنْ صِبْيَانِ الْمُشْرِكِينَ أَحَدًا؟، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ مِنْهُمْ أَحَدًا وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْ مِنْهُمْ أَحَدًا، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الْغُلَامِ حِينَ قَتَلَهُ، وَسَأَلْتَ عَنِ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ هَلْ كَانَ لَهُمَا سَهْمٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ؟، فَإِنَّهُمْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ سَهْمٌ مَعْلُومٌ، إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا مِنْ غَنَائِمِ الْقَوْمِ "، قیس بن سعد نے مجھے یزید بن ہرمز سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: نجدہ بن عامر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا تو میں اس وقت، جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کا خط پڑھا اور اس کا جواب لکھا، ان کے پاس حاضر تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ (خیال) نہ ہوتا کہ (غالبا) میں اسے کسی قبیح عمل میں پڑ جانے سے روک لوں گا تو اسے جواب نہ لکھتا، یہ اس کی آنکھوں کی خوشی کے لیے نہیں۔ کہا: تو انہوں نے اس کی طرف لکھا: تم نے ذوی القربیٰ کے حصے کے بارے میں پوچھا تھا، جس کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ کون ہین؟ تو ہمارا خیال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار ہمی لوگ ہیں (لیکن) ہماری قوم نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اور تم نے یتیم کے بارے میں پوچھا تھا، اس کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ تو جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے، اس کے سمجھدار ہو جانے کا پتہ چلنے لگے اور اس کا مال اس کے حوالے کیا جا سکے تو اس سے یتیمی ختم ہو جائے گی۔ اور تم نے پوچھا تھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے بچوں میں سے کسی کو قتل کرتے تھے؟ تو بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی ایک کو بھی قتل نہیں کرتے تھے اور تم بھی ان میں سے کسی کو قتل مت کرنا، الا یہ کہ ان کے بارے میں تم کو بھی اسی بات کا علم ہو جائے جس کا اس بچے کے بارے میں خضر علیہ السلام کو علم ہوا جب انہوں نے اسے قتل کیا تھا۔ اور تم نے عورت اور غلام کے بارے میں پوچھا کہ جب وہ جنگ میں شریک ہوں تو کیا ان کو بھی مقررہ حصہ ملے گا؟ واقعہ یہ ہے کہ ان کا کوئی مقررہ حصہ نہیں، ہاں یہ کہ لوگوں کی غنیمتوں میں سے انہیں کچھ عطیہ دے دیا جائے یزید بن یرمز بیان کرتے ہیں، نجدہ بن عامر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو خط لکھا، جب ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے اس کا خط پڑھا اور جب اس کا جواب لکھا، میں بھی موجود تھا، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر مجھے یہ احساس نہ ہوتا کہ میں اس کو گندگی بدبو میں گرفتار ہونے سے باز رکھ سکوں گا، تو میں اسے جواب نہ لکھتا، اس کی آنکھوں کو آسودگی نصیب نہ ہو، اسے لکھ، تو نے ذوالقربیٰ کے حصہ کے بارے میں پوچھا ہے، جن کا اللہ نے ذکر کیا ہے، کہ وہ کون ہیں؟ اور ہم سمجھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار، وہ ہم ہیں، لیکن ہماری قوم نے ہماری بات تسلیم نہیں کی اور تو نے یتیم کے بارے میں پوچھا ہے کہ اس کی یتیمی کب ختم ہو گی؟ اور واقعہ یہ ہے جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے اور اس سے سوجھ بوجھ (عقل و شعور اور سلیقہ) معلوم ہو اور اس کا مال اسے دے دیا جائے گا، تو اس کی یتیمی ختم ہو جائے گی اور تو نے دریافت کیا ہے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے بچوں میں سے کسی کو قتل کرتے تھے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو قتل نہیں کرتے تھے اور تو بھی ان میں سے کسی کو قتل نہ کر، الا یہ کہ تو ان میں وہ بات جان لے، جو خضر علیہ السلام نے اس بچے کے بارے میں جان لی تھی، جسے انہوں نے قتل کیا تھا اور تو نے عورت اور غلام کے بارے میں سوال کیا ہے، کیا ان کے لیے مقررہ حصہ تھا؟ جبکہ جنگ میں شریک ہوتے تھے؟ تو ان کے لیے متعین حصہ نہ تھا، الا یہ کہ مسلمانوں کی غنیمتوں سے ان کو کچھ عطیہ دے دیا جاتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مختار بن صیفی نے یزید بن ہرمز سے روایت کی، انہوں نے کہا: نجدہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا۔۔۔ اور انہوں نے حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا اور ان کی طرح پورا واقعہ بیان نہیں کیا جن کی احادیث ہم نے (اوپر) بیان کی ہیں یزید بن ہرمز بیان کرتے ہیں کہ نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو خط لکھا، آگے حدیث کا کچھ حصہ ہے، پورا واقعہ بیان نہیں کیا گیا، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیثوں میں مکمل واقعہ بیان کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالرحیم بن سلیمان نے ہمیں ہشام (بن حسان) سے حدیث بیان کی، انہوں نے حفصہ بنت سیرین سے اور انہوں نے حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئی، میں پیچھے ان کے خیموں میں رہتی تھی، ان کے لیے کھانا تیار کرتی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی حضرت ام عطیہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی ہے، میں ان کے خیموں میں پیچھے رہتی، ان کے لیے کھانا تیار کرتی اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی بیمار پرسی کرتی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یزید بن ہارون نے ہشام بن حسان سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی امام صاحب ایک اور استاد سے ہشام بن حسان کی مذکورہ سند سے اس طرح روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|