صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
48. باب النِّسَاءُ الْغَازِيَاتُ يُرْضَخُ لَهُنَّ وَلاَ يُسْهَمُ وَالنَّهْيُ عَنْ قَتْلِ صِبْيَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ:
باب: جو عورتیں جہاد میں شریک ہوں ان کو انعام ملے گا اور حصہ نہیں ملے گا اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4685
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ كِلَاهُمَا، عَنْ حَاتِمِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، أَنَّ نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ، عَنْ خِلَالٍ بِمِثْلِ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ حَاتِمٍ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، فَلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الصَّبِيِّ الَّذِي قَتَلَ وَزَادَ إِسْحَاقُ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ حَاتِمٍ وَتُمَيِّزَ الْمُؤْمِنَ فَتَقْتُلَ الْكَافِرَ وَتَدَعَ الْمُؤْمِنَ.
ابوبکر بن ابی شیبہ اور اسحاق بن ابراہیم دونوں نے ہمیں حاتم بن اسماعیل سے حدیث بیان کی، انہوں نے جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی کہ نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ان سے کچھ باتیں پوچھنے کے لیے خط لکھا۔۔۔ (آگے) سلیمان بن بلال کی حدیث کے مانند ہے، مگر حاتم کی حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے، لہذا تم بھی بچوں کو قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں بھی اسی طرح علم حاصل ہو جائے جس طرح خضر کو اس بچے کے بارے میں علم ہوا تھا جسے انہوں نے قتل کیا تھا۔ اسحاق نے حاتم سے روایت کردہ اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا: (الا یہ کہ) تم (بچوں میں سے) مومن کا امتیاز کر لو تو کافر کو قتل کر دینا اور مومن کو چھوڑ دینا (یہ دونوں باتیں کسی انسان کے بس میں نہیں جب تک اللہ تعالیٰ نہ بتائے
یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو چند باتوں کے بارے میں سوال لکھ بھیجا، جیسا کہ اوپر کی حدیث میں سلیمان بن بلال نے بیان کیا ہے، لیکن اس حدیث میں حاتم نے بیان کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے، تو بھی قتل نہ کر، الا یہ کہ تجھے بھی بچے کے بارے میں خضر علیہ السلام کی طرح اس بات کا علم ہو جائے، جس کے باعث انہوں نے بچے کو قتل کیا تھا اور اسحاق نے حاتم سے یہ اضافہ کیا ہے اور تو مؤمن کا امتیاز کر لے، تو کافر کو قتل کر دینا اور مومن کو چھوڑ دینا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4685 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4685
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ:
حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے بتا دیا گیا تھا کہ یہ بچہ کافر ہو گا اور والدین کے لیے بھی فتنہ کا باعث بنے گا،
اس طرح اگر تم کافر اور مومن کے درمیان امتیاز کر سکو اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے آگاہ کر دے،
تو تم کافر بننے والے بچوں کو قتل کر سکتے ہو اور اگر یہ امتیاز تیرے لیے ممکن نہیں ہے،
تو پھر تیرے لیے بچوں کو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4685