لیث نے ہمیں سعید بن ابی سعید سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی جانب گھڑ سواروں کا ایک دستہ بھیجا تو وہ بنوحنفیہ کے ایک آدمی کو پکڑ لائے، جسے ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا، وہ اہل یمامہ کا سردار تھا، انہوں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکل کر اس کے پاس آئے اور پوچھا: "ثمامہ! تمہارے پاس کیا (خبر) ہے؟" اس نے جواب دیا: اے محمد! میرے پاس اچھی بات ہے، اگر آپ قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا حق مانگا جاتا ہے اور اگر احسان کریں گے تو اس پر احسان کریں گے جو شکر کرنے والا ہے۔ اور اگر مال چاہتے ہیں تو طلب کیجئے، آپ جو چاہتے ہیں، آپ کو دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا حتی کہ جب اگلے سے بعد کا دن (آئندہ پرسوں) ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "ثمامہ! تمہارے پاس (کہنے کو) کیا ہے؟" اس نے جواب دیا: (وہی) جو میں نے آپ سے کہا تھا، اگر احسان کریں گے تو ایک شکر کرنے والے پر احسان کریں گے اور اگر قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو طلب کیجئے، آپ جو چاہتے ہیں آپ کو وہی دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (اسی حال میں) چھوڑ دیا حتی کہ جب اگلا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "ثمامہ! تمہارے پاس کیا ہے؟" اس نے جواب دیا: میرے پاس وہی ہے جو میں نے آپ سے کہا تھا: اگر احسان کریں گے تو ایک احسان شناس پر احسان کریں گے اور اگر قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون ضائع نہیں جاتا، اور اگر مال چاہتے ہیں تو طلب کیجیے، آپ جو چاہتے ہیں وہی آپ کو دیا جائے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ثمامہ کو آزاد کر دو۔" وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے ایک باغ کی طرف گیا، غسل کیا، پھر مسجد میں داخل ہوا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے محمد! اللہ کی قسم! روئے زمین پر آپ کے چہرے سے بڑھ کر کوئی چہرہ نہیں تھا جس سے مجھے بغض ہو اور اب آپ کے چہرے سے بڑھ کر کوئی چہرہ نہیں جو مجھے زیادہ محبوب ہو۔ اللہ کی قسم! آپ کے دین سے بڑھ کر کوئی دین مجھے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا، اب آپ کا دین سب سے بڑھ کر محبوب دین ہو گیا ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے آپ کے شہر سے بڑھ کر کوئی شہر برا نہیں لگتا تھا، اب مجھے آپ کے شہر سے بڑھ کو کوئی اور شہر محبوب نہیں۔ آپ کے گھڑسواروں نے مجھے (اس وقت) پکڑا تھا جب میں عمرہ کرنا چاہتا تھا۔ اب آپ کیا (صحیح) سمجھتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (ایمان کی قبولیت کی) خوشخبری دی اور حکم دیا کہ عمرہ ادا کرے۔ جب وہ مکہ آئے تو کسی کہنے والے نے ان سے کہا: کیا بے دین ہو گئے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا: نہیں، بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام میں داخل ہو گیا ہوں، اور اللہ کی قسم! یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی تمہارے پاس نہیں پہنچے گا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت دے دیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑ سوار دستہ نجد کی طرف بھیجا تو وہ دستہ بنو حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی آدمی کو پکڑ لایا جو اہل یمامہ کا سردار تھا تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ”تیرا کیا خیال ہے، اے ثمامہ!“ تو اس نے کہا، اے محمد! میرا خیال اچھا ہے، (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے ساتھ برا سلوک نہیں کرتے)۔ اگر آپ قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے، اور اگر آپ احسان کریں گے تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہے لے لیجئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوڑ کر چلے گئے حتی کہ اگلے دن کے بعد آئے اور پوچھا، ”تیرا کیا تصور ہے؟ اے ثمامہ۔“ اس نے کہا، جو میں آپ کو کہہ چکا ہوں، اگر آپ احسان کریں گے تو ایک شکر گزار پر احسان فرمائیں گے اور اگر آپ قتل کریں گے تو ایک صاحب خون کو قتل کریں گے اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں مانگ لیں، آپ کو دے دیا جائے گا تو آپ اسے چھوڑ کر چلے گئے حتی کہ اگلا دن آ گیا تو آپ نے پوچھا، ”تیرا کیا گمان ہے؟ اے ثمامہ۔“ تو اس نے کہا، میں نے اپنا نظریہ آپ کو بتا دیا ہے، اگر آپ احسان کریں گے تو ایک شکر گزار انسان پر احسان ہو گا اور اگر آپ قتل کریں گے تو آپ ایک خون کے مالک کو قتل کریں گے۔ اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو مانگئے، جو آپ چاہیں، مل جائے گا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثمامہ کو آزاد کر دو۔“ تو وہ مسجد کے قریبی نخلستان میں چلا گیا اور غسل کیا، پھر مسجد میں داخل ہو کر کہنے لگا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بےشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندہ اور رسول ہیں، اے محمد! اللہ کی قسم! روئے زمین پر کوئی چہرہ (شخص) مجھے آپ کے چہرہ (شخصیت) سے زیادہ مبغوض نہ تھا اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تمام چہروں سے مجھے زیادہ محبوب ہے، اللہ کی قسم! کوئی دین، مجھے آپ کے دین سے زیادہ ناپسندیدہ نہ تھا اور اب آپ کا دین، تمام دینوں سے مجھے زیادہ پسند ہے، اللہ کی قسم! کوئی شہر میرے نزدیک آپ کے شہر سے زیادہ قابل نفرت نہ تھا اور اب آپ کا علاقہ (شہر) مجھے تمام شہروں سے زیادہ پسند ہے اور آپ کے سواروں نے مجھے اس وقت پکڑا جبکہ میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا تو آپ کا کیا خیال ہے؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (قبولیت کی) بشارت سنائی اور اسے عمرہ کرنے کا حکم دیا، جب وہ مکہ آیا تو کسی نے اس سے پوچھا، کیا بے دین ہو گئے ہو؟ اس نے کہا، نہیں، لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام میں داخل ہو گیا ہوں اور نہیں، اللہ کی قسم! تمہارے پاس ثمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔