ہمیں سفیان نے عمرو سے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کعب بن اشرف کی ذمہ داری کون لے گا، اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہے۔" محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں؟ آپ نے فرمایا: "ہاں۔" انہوں نے عرض کی: مجھے اجازت دیجئے کہ میں (یہ کام کرتے ہوئے) کوئی بات کہہ لوں۔ آپ نے فرمایا: "کہہ لینا۔" چنانچہ وہ اس کے پاس آئے، بات کی اور باہمی تعلقات کا تذکرہ کیا اور کہا: یہ آدمی صدقہ (لینا) چاہتا ہے اور ہمیں تکلیف میں ڈال دیا ہے۔ جب اس نے یہ سنا تو کہنے لگا: اللہ کی قسم! تم اور بھی اکتاؤ گے۔ انہوں نے کہا: اب تو ہم اس کے پیروکار بن چکے ہیں اور (ابھی) اسے چھوڑنا نہیں چاہتے یہاں تک کہ دیکھ لیں کہ اس کے معاملے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ کہا: میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے کچھ ادھار دو۔ اس نے کہا: تم میرے پاس گروی میں کیا رکھو گے؟ انہوں نے جواب دیا: تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: اپنی عورتوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا: تم عرب کے سب سے خوبصورت انسان ہو، کیا ہم اپنی عورتیں تمہارے پاس گروی رکھیں؟ اس نے ان سے کہا: تم اپنے بچے میرے ہاں گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا: ہم میں سے کسی کے بیٹے کو گالی دی جائے گی تو کہا جائے گا: وہ کھجور کے دو وسق کے عوض گردی رکھا گیا تھا، البتہ ہم تمہارے پاس زرہ یعنی ہتھیار گروی رکھ دیتے ہیں۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ انہوں نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ حارث، ابوعبس بن جبر اور عباد بن بشر کو لے کر اس کے پاس آئیں گے۔ کہا: وہ آئے اور رات کے وقت اسے آواز دی تو وہ اتر کر ان کے پاس آیا۔ سفیان نے کہا: عمرو کے علاوہ دوسرے راوی نے کہا: اس کی بیوی اس سے کہنے لگی: میں ایسی آواز سن رہی ہوں جیسے وہ خون (کے طلبگار) کی آواز ہو۔ اس نے کہا: یہ تو محمد بن مسلمہ اور اس کا دودھ شریک بھائی اور ابونائلہ ہیں اور کریم انسان کو رات کے وقت بھی کسی زخم (کے مداوے) کی خاطر بلایا جائے تو وہ آتا ہے۔ محمد (بن مسلمہ) نے (اپنے ساتھیوں سے) کہا: میں، جب وہ آئے گا، اپنا ہاتھ اس کے سر کی طرف بڑھاؤں گا، جب میں اسے خوب اچھی طرح جکڑ لوں تو وہ تمہارے بس میں ہو گا (تم اپنا کام کر گزرنا۔) کہا: جب وہ نیچے اترا تو اس طرح اترا کہ اس نے پیٹی (چادر بائیں کندھے پر ڈال کر اس کا سر دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر سینے پر دونوں سروں سے) باندھی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا: ہمیں آپ سے عطر کی خوشبو آ رہی ہے۔ اس نے کہا: ہاں، میرے نکاح میں فلاں عورت ہے، وہ عرب کی سب عورتوں سے زیادہ معطر رہنے والی ہے۔ انہوں نے کہا: کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں اس (خوشبو) کو سونگھ لوں؟ اس نے کہا: ہاں، سونگھ لو۔ تو انہوں نے (سر کو) پکڑ کر سونگھا۔ پھر کہا: کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں اسے دوبارہ سونگھ لوں؟ کہا: کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں اسے دوبارہ سونگھ لوں؟ کہا: تو انہوں نے اس کے سر کو قابو کر لیا، پھر کہا: تمہارے بس میں ہے۔ کہا: تو انہوں نے اسے قتل کر دیا
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کعب بن اشرف سے کون نمٹے گا؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔“ تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ انہوں نے عرض کیا، تو آپ مجھے کچھ کہنے کی اجازت عنایت فرمائیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہہ سکتے ہو۔“ تو وہ کعب کے پاس آئے اور اس سے ادھر ادھر کی باتیں کیں، اپنی فرضی کشیدگی کا تذکرہ کیا۔ یا کعب سے اپنے رابطہ کا تذکرہ کیا اور کہا اس آدمی نے یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے صدقہ طلب کیا ہے اور اس نے ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے، تو جب اس نے یہ سنا، کہنے لگا، واللہ تم ابھی اور اکتاؤ گے، حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اب ہم اس کے پیروکار بن چکے ہیں اور ہم اس کو چھوڑنا ناپسند کرتے ہیں، حتیٰ کہ یہ دیکھ لیں اس کا انجام کیا ہوتا ہے اور کہا، میں چاہتا ہوں کہ تو مجھے کچھ قرض دے، تو اس نے کہا، تو تم میرے پاس کیا رہن رکھو گے؟ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، آپ کیا چاہتے ہیں، اس نے کہا، اپنی عورتوں کو میرے پاس رہن رکھ دو، انہوں نے کہا، آپ عرب کے سب سے خوبصورت انسان ہیں، تو کیا ہم آپ کے پاس اپنی عورتیں رہن رکھ دیں؟ اس نے ان سے کہا، تم میرے پاس اپنے بیٹوں کو رہن رکھ دو، انہوں نے کہا، ہمارے بیٹوں کو گالی دی جائے گی، انہیں کہا جائے گا، تمہیں کھجور کے دو وسق کے عوض رکھ دیا گیا تھا، لیکن ہم تمہارے پاس زرہ یعنی ہتھیار رہن رکھ دیتے ہیں۔ اس نے کہا، ہاں، حضرت محمد بن مسلم رضی اللہ تعالی عنہہ نے اس سے وعدہ کیا کہ اس کے پاس حارث، ابو عبس بن جبر اور عباد بن بشر کو لے کر آؤں گا، تو وہ رات کو آئے اور اسے بلایا، تو وہ ان کی طرف (قلعہ سے) نیچے اترا، سفیان کہتے ہیں، عمرو کے دوسرے راوی نے کہا، اس کی بیوی نے اسے کہا، میں ایسی آواز سن رہی ہوں، گویا وہ خون بہانے والے کی آواز ہے، اس نے کہا، یہ تو بس محمد بن مسلمہ، اس کا رضاعی بھائی اور ابو نائلہ ہے، معزز آدمی کو اگر رات کو بھی نیزہ بازی کی دعوت دی جائے تو وہ قبول کرتا ہے، محمد نے اپنے ساتھیوں سے کہا، جب وہ آ جائے گا، میں اپنا ہاتھ اس کے سر کی طرف بڑھاؤں گا، تو جب میں اس کو قابو کر لوں، تو تم اپنا کام کر ڈالنا، تو جب وہ اترا، تو وہ چادر اوڑھے ہوئے تھا، انہوں نے کہا، ہمیں آپ سے خوشبو کی مہک آ رہی ہے، اس نے کہا، ہاں، میری بیوی فلاں ہے جو عرب عورتوں میں سب سے زیادہ عطر سازی کی ماہر ہے، محمد بن مسلمہ نے کہا، کیا آپ مجھے خوشبو سونگھنے کی اجازت دیتے ہیں؟ اس نے کہا، ہاں، تو سونگھیے، تو انہوں نے سر پکڑ کر سونگھا، پھر کہا، کیا آپ دوبارہ سونگھنے کی اجازت دیتے ہیں؟ تو اس کا سر مضبوطی سے قابو کر لیا، پھر کہا، اپنا کام کر گزرو، تو ساتھیوں نے اسے قتل کر ڈالا۔