Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
48. باب النِّسَاءُ الْغَازِيَاتُ يُرْضَخُ لَهُنَّ وَلاَ يُسْهَمُ وَالنَّهْيُ عَنْ قَتْلِ صِبْيَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ:
باب: جو عورتیں جہاد میں شریک ہوں ان کو انعام ملے گا اور حصہ نہیں ملے گا اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4684
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، " أَنَّ نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ خَمْسِ خِلَالٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ " لَوْلَا أَنْ أَكْتُمَ عِلْمًا مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ كَتَبَ إِلَيْهِ، نَجْدَةُ أَمَّا بَعْدُ، فَأَخْبِرْنِي هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ؟، وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ؟، وَهَلْ كَانَ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ؟، وَمَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ؟، وَعَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ؟، فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ، كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي، هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ، وَقَدْ كَانَ يَغْزُو بِهِنَّ فَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى وَيُحْذَيْنَ مِنَ الْغَنِيمَةِ، وَأَمَّا بِسَهْمٍ فَلَمْ يَضْرِبْ لَهُنَّ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، فَلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ، فَلَعَمْرِي إِنَّ الرَّجُلَ لَتَنْبُتُ لِحْيَتُهُ وَإِنَّهُ لَضَعِيفُ الْأَخْذِ لِنَفْسِهِ ضَعِيفُ الْعَطَاءِ مِنْهَا، فَإِذَا أَخَذَ لِنَفْسِهِ مِنْ صَالِحِ مَا يَأْخُذُ النَّاسُ، فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ الْيُتْمُ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ، وَإِنَّا كُنَّا، نَقُولُ: هُوَ لَنَا، فَأَبَى عَلَيْنَا قَوْمُنَا ذَاكَ "،
سلیمان بن بلال نے ہمیں جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی کہ (معروف خارجی سردار) نجدہ (بن عامر حنفی) نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پانچ باتیں دریافت کرنے کے لیے خط لکھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں علم چھپا رہا ہوں تو میں اسے جواب نہ لکھتا۔ نجدہ نے انہیں لکھا تھا: امابعد! مجھے بتائیے: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے مدد لیتے ہوئے جنگ کرتے تھے؟ کیا آپ غنیمت میں ان کا حصہ رکھتے تھے؟ کیا آپ بچوں کو قتل کرتے تھے؟ اور یہ کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ اس نے خمس کے بارے میں (بھی پوچھا کہ) وہ کس کا حق ہے؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف (جواب) لکھا: تم نے مجھ سے دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے مدد لیتے ہوئے جنگ کرتے تھے؟ بلاشبہ آپ ان سے جنگ میں مدد لیتے تھے اور وہ زخمیوں کو مرہم لگایا کرتی تھیں اور انہیں غنیمت (کے مال) سے معمولی سا عطیہ دیا جاتا تھا، رہا (غنیمت کا باقاعدہ) حصہ تو وہ آپ نے ان کے لیے نہیں نکالا، اور یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے، لہذا تم بھی بچوں کو قتل نہ کیا کرو۔ اور تم نے مجھ سے دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا: یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ مجھے اپنی عمر (کے مالک) کی قسم! کسی آدمی کی داڑھی نکل آتی ہے جبکہ ابھی وہ اپنے لیے حق لینے میں اور اپنی طرف سے حق دینے میں کمزور ہوتا ہے، جب وہ اپنے لیے ٹھیک طرح سے حقوق لے سکے جس طرح لوگ لیتے ہیں تو اس کی یتیمی ختم ہو جائے گی۔ اور تم نے مجھ سے خمس کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا کہ وہ کس کا حق ہے؟ تو ہم کہتے تھے: وہ ہمارا حق ہے، لیکن ہماری قوم نے ہماری یہ بات ماننے سے انکار کر دیا
یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ نامی خارجی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو خط لکھ کر ان سے پانچ خصائل کے بارے میں سوال کیا، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: اگر کتمان علم کا ڈر نہ ہوتا تو میں اسے جواب نہ لکھتا، نجدہ نے انہیں لکھا، حمد و صلوٰۃ کے بعد! مجھے بتائیے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو جنگ میں لے جاتے تھے؟ اور کیا انہیں غنیمت سے مقرر حصہ دیتے تھے؟ اور کیا بچوں کو قتل کرتے تھے؟ اور یتیم کی یتیمی کب ختم ہو گی؟ اور غنیمت کا خمس (پانچواں حصہ) کس کا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے اسے خط لکھا، تو نے خط لکھ کر مجھ سے پوچھا ہے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو شریک کرتے تھے؟ آپ ان کو جہاد میں لے جاتے تھے اور وہ زخمیوں کا علاج کرتی تھیں اور غنیمت سے کچھ عطیہ دیا جاتا تھا، لیکن رہا مقررہ حصہ، تو وہ ان کو نہیں دیا جاتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے (بچوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتے تھے) اس لیے تو بچوں کو قتل نہ کر اور تو نے خط کے ذریعہ مجھ سے پوچھا ہے، یتیم کی یتیمی کب ختم ہو گی؟ تو مجھے اپنی عمر کی قسم، انسان کی داڑھی نکل آتی ہے اور اس کے باوجود، وہ اپنا حق لینے میں کمزور ہوتا ہے اور اپنی طرف سے ان کا حق دینے میں کمزور ہوتا ہے (یعنی اسے لینے دینے کا سلیقہ نہیں ہوتا) تو جب وہ اپنا حق لینے میں لوگوں کی طرح صلاحیت کا اظہار کرے اور اس میں شعور و ادراک پیدا ہو جائے تو اس کی یتیمی ختم ہو جائے گی اور تو نے مجھ سے خط کے ذریعے پوچھا ہے، خمس کا کا ہے؟ تو ہم کہتے ہیں، وہ ہمارا ہے اور ہماری قوم (بنو امیہ) نے ہمیں دینے سے انکار کر دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4684 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4684  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يُحْذَيْنَ:
انہیں کچھ عطیہ دیا جائے گا۔
(2)
مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ؟:
یتیم کب یتیم کے حکم میں نہیں ہو گا۔
(3)
إِنَّهُ لَضَعِيفُ الْأَخْذِ:
اسے بالغ ہونے کے باوجود لین دین کا سلیقہ نہیں ہوتا،
وہ حقوق و فرائض کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا۔
(4)
فَإِذَا أَخَذَ لِنَفْسِهِ مِنْ صَالِحِ مَا يَأْخُذُ النَّاسُ:
جب وہ لوگوں سے معاملہ کرنے میں سوجھ بوجھ دکھائے،
جس طرح لوگ اچھی طرح اپنا حق لیتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
نجدہ خارجی نے خط کے ذریعے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے چند باتوں کے بارے میں سوال کیا،
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما دین میں ان کے غلو اور انتہا پسندی کی بنا پر اس کو جواب لکھنا پسند نہیں کرتے تھے،
لیکن کتمان علم کی وعید سے ڈر کر اس کا جواب دینے پر آمادہ ہوگئے،
عورتوں کے جہاد میں شریک ہونے اور غنیمت میں حصہ ہونے کے بارے میں جواب دیا،
کہ وہ علاج معالجہ وغیرہ کی ضرورت کے لیے جاسکتی ہیں،
لیکن انہیں غنیمت میں سے مجاہدوں والا حصہ نہیں ملے گا،
ہاں انہیں کچھ عطیہ کے طور پر دیا جائے گا،
جمہور فقہاء،
امام ابو حنیفہ،
امام شافعی،
امام احمد وغیرہ ہم کا یہی موقف ہے،
امام مالک کے نزدیک عورتوں کو کچھ بھی نہیں دیا جائے گا اور غلاموں کا بھی یہی حکم ہےاس طرح جو بچے جنگ میں شریک نہ ہوں،
انہیں قتل نہیں کیا جائے گا اور بلوغ کے بعد یتیمی کا حکم اس حدیث میں اس وقت ختم ہو گا جب اس کے اندر عقل وشعور پیدا ہو جائے،
اسے لین دین کا سلیقہ اور سوجھ بوجھ حاصل ہوجائے،
ائمہ حجاز (امام مالک،
امام شافعی،
امام احمد)

اور صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد)
کا بھی یہی موقف ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک پچیس سال کا ہو جائے،
تو اس کا مال اس کے حوالہ کر دیا جائے گا اور یہ سمجھا جائے گا،
اس میں سلیقہ اور عقل و شعور پیدا ہو گیا ہے اور وہ لوگوں سے صحیح طریقہ سے لین دین کر سکتا ہے،
حالانکہ قرآن مجید نے ﴿آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا﴾ رشدو سلیقہ نظر آئے،
کی قید لگائی ہے،
کسی عمر کا تعین نہیں کیا،
اسی طرح نجدہ نے غنیمت کے خمس کے بارے میں سوال کیا،
تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا،
ہماری قوم کے گھرانوں نے ہمیں یہ نہیں دیا،
جبکہ میرا موقف یہ ہے کہ یہ آپ کے (ذالقربی)
کا حق ہے،
امام شافعی کا موقف بھی یہی ہے کہ غنیمت کے خمس کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اور پانچواں حصہ،
بنو ہاشم اور بنو مطلب میں بلاامتیاز غنی اور فقیروں میں تقسیم ہو گا،
مردو عورت کو ملے گا،
امام احمد کا موقف بھی یہی ہے،
لیکن احناف کے نزدیک غنیمت کا خمس،
تین حصوں میں تقسیم ہوگا:
(1)
یتامٰی (2)
مساکین (3)
اور مسافروں کو ملے گا اور فقراء میں ذوالقربیٰ فقراء بھی داخل ہیں،
لیکن مالداروں کو نہیں ملے گا اور (أبیٰ علينا قومنا)
سے مراد احناف کے نزدیک خلفائے راشدین ہیں اور شوافع کے نزدیک یزید بن معاویہ اور بعد کے خلفاء مراد ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4684