كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے The Book of Jihad and Expeditions 18. باب الإِمْدَادِ بِالْمَلاَئِكَةِ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ وَإِبَاحَةِ الْغَنَائِمِ: باب: فرشتوں کی مدد بدر کی لڑائی میں اور مباح ہونا لوٹ کا۔ Chapter: The support of the angels during the Battle of Badr, and the permissibility of the spoils حدثنا هناد بن السري ، حدثنا ابن المبارك ، عن عكرمة بن عمار ، حدثني سماك الحنفي ، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: حدثني عمر بن الخطاب ، قال: لما كان يوم بدر ح، وحدثنا زهير بن حرب واللفظ له، حدثنا عمر بن يونس الحنفي ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثني ابو زميل هو سماك الحنفي ، حدثني عبد الله بن عباس ، قال: حدثني عمر بن الخطاب ، قال: " لما كان يوم بدر نظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المشركين وهم الف واصحابه ثلاث مائة وتسعة عشر رجلا، فاستقبل نبي الله صلى الله عليه وسلم القبلة ثم مد يديه، فجعل يهتف بربه اللهم انجز لي ما وعدتني، اللهم آت ما وعدتني، اللهم إن تهلك هذه العصابة من اهل الإسلام لا تعبد في الارض، فما زال يهتف بربه مادا يديه مستقبل القبلة حتى سقط رداؤه عن منكبيه، فاتاه ابو بكر فاخذ رداءه فالقاه على منكبيه ثم التزمه من ورائه، وقال: يا نبي الله، كفاك مناشدتك ربك، فإنه سينجز لك ما وعدك، فانزل الله عز وجل إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم اني ممدكم بالف من الملائكة مردفين سورة الانفال آية 9 فامده الله بالملائكة، قال ابو زميل: فحدثني ابن عباس، قال: بينما رجل من المسلمين يومئذ يشتد في اثر رجل من المشركين امامه إذ سمع ضربة بالسوط، فوقه وصوت الفارس، يقول: اقدم حيزوم، فنظر إلى المشرك امامه، فخر مستلقيا، فنظر إليه، فإذا هو قد خطم انفه وشق وجهه كضربة السوط، فاخضر ذلك اجمع، فجاء الانصاري فحدث بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: صدقت، ذلك من مدد السماء الثالثة، فقتلوا يومئذ سبعين واسروا سبعين، قال ابو زميل: قال ابن عباس: فلما اسروا الاسارى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابي بكر، وعمر: ما ترون في هؤلاء الاسارى؟، فقال ابو بكر: يا نبي الله هم بنو العم والعشيرة ارى ان تاخذ منهم، فدية فتكون لنا قوة على الكفار فعسى الله ان يهديهم للإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما ترى يا ابن الخطاب؟، قلت: لا والله يا رسول الله، ما ارى الذي راى ابو بكر، ولكني ارى ان تمكنا فنضرب اعناقهم فتمكن عليا من عقيل، فيضرب عنقه وتمكني من فلان نسيبا لعمر فاضرب عنقه، فإن هؤلاء ائمة الكفر وصناديدها، فهوي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما قال ابو بكر ولم يهو ما قلت، فلما كان من الغد جئت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر قاعدين يبكيان، قلت: يا رسول الله اخبرني من اي شيء تبكي انت وصاحبك؟ فإن وجدت بكاء بكيت، وإن لم اجد بكاء تباكيت لبكائكما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ابكي للذي عرض علي اصحابك من اخذهم الفداء لقد عرض علي عذابهم ادنى من هذه الشجرة، شجرة قريبة من نبي الله صلى الله عليه وسلم، وانزل الله عز وجل ما كان لنبي ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض سورة الانفال آية 67 إلى قوله فكلوا مما غنمتم حلالا طيبا سورة الانفال آية 69 فاحل الله الغنيمة لهم ".حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ ح، وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ هُوَ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ نَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَهُمْ أَلْفٌ وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَتِسْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ، فَمَا زَالَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا يَدَيْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْكِبَيْهِ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، وَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ، فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ سورة الأنفال آية 9 فَأَمَدَّهُ اللَّهُ بِالْمَلَائِكَةِ، قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: فَحَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ يَشْتَدُّ فِي أَثَرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ أَمَامَهُ إِذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ، فَوْقَهُ وَصَوْتَ الْفَارِسِ، يَقُولُ: أَقْدِمْ حَيْزُومُ، فَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِ أَمَامَهُ، فَخَرَّ مُسْتَلْقِيًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُهُ وَشُقَّ وَجْهُهُ كَضَرْبَةِ السَّوْطِ، فَاخْضَرَّ ذَلِكَ أَجْمَعُ، فَجَاءَ الْأَنْصَارِيُّ فَحَدَّثَ بِذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: صَدَقْتَ، ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ، فَقَتَلُوا يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ وَأَسَرُوا سَبْعِينَ، قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمَّا أَسَرُوا الْأُسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ: مَا تَرَوْنَ فِي هَؤُلَاءِ الْأُسَارَى؟، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ هُمْ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةِ أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ، فِدْيَةً فَتَكُونُ لَنَا قُوَّةً عَلَى الْكُفَّارِ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ لِلْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟، قُلْتُ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَرَى الَّذِي رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَّا فَنَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ فَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنِّي مِنْ فُلَانٍ نَسِيبًا لِعُمَرَ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَإِنَّ هَؤُلَاءِ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَصَنَادِيدُهَا، فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ قَاعِدَيْنِ يَبْكِيَانِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَبْكِي أَنْتَ وَصَاحِبُكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْكِي لِلَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ أَخْذِهِمُ الْفِدَاءَ لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُهُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، شَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ سورة الأنفال آية 67 إِلَى قَوْلِهِ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالا طَيِّبًا سورة الأنفال آية 69 فَأَحَلَّ اللَّهُ الْغَنِيمَةَ لَهُمْ ". ابوزمیل سماک حنفی نے کہا: مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: جب در کا دن تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے، اور آپ کے ساتھ تین سو انیس آدمی تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوئے، پھر اپنے ہاتھ پھیلائے اور بلند آواز سے اپنے رب کو پکارنے لگے: "اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا اسے میرے لیے پورا فرما۔ اے اللہ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین میں تیری بندگی نہیں ہو گی۔" آپ قبلہ رو ہو کر اپنے ہاتھوں کو پھیلائے مسلسل اپنے رب کو پکارتے رہے حتی کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گئی۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے، چادر اٹھائی اور اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ کے ساتھ چمٹ گئے اور کہنے لگے: اللہ کے نبی! اپنے رب سے آپ کا مانگنا اور پکارنا کافی ہو گیا۔ وہ جلد ہی آپ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: "جب تم لوگ اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں ایک دوسرے کے پیچھے اترنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔" پھر اللہ نے فرشتوں کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمائی۔ ابوزمیل نے کہا: مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: اس دوران میں، اس دن مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے سامنے بھاگتے ہوئے مشرکوں میں سے ایک آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس نے اپنے اوپر سے کوڑا مارنے اور اس کے اوپر سے گھڑ سوار کی آواز سنی، جو کہہ رہا تھا: حیزوم! آگے بڑھ۔ اس نے اپنے سامنے مشرک کی طرف دیکھا تو وہ چت پڑا ہوا تھا، اس نے اس پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان پڑا ہوا تھا، کوڑے کی ضرب کی طرح اس کا چہرہ پھٹا ہوا تھا اور وہ پورے کا پورا سبز ہو چکا تھا، وہ انصاری آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: "تم نے سچ کہا، یہ تیسرے آسمان سے (آئی ہوئی) مدد تھی۔" انہوں (صحابہ) نے اس دن ستر آدمی قتل کیے اور ستر قیدی بنائے۔ ابوزمیل نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب انہوں نے قیدیوں کو گرفتار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: "ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟" تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے بیٹے ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، یہ کافروں کے خلاف ہماری قوت کا باعث ہو گا، ہو سکتا ہے کہ اللہ ان کو اسلام کی راہ پر چلا دے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟" کہا: میں نے عرض کی: نہیں، اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میری رائے وہ نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے، بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ ہمیں اختیار دیں اور ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ آپ عقیل پر علی رضی اللہ عنہ کو اختیار دیں وہ اس کی گردن اڑا دیں اور مجھے فلاں۔۔ عمر کے ہم نسب۔۔ پر اختیار دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں۔ یہ لوگ کفر کے پیشوا اور بڑے سردار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند کیا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہی تھی اور جو میں نے کہا تھا اسے پسند نہ فرمایا۔ جب اگلا دن ہوا (اور) میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے ہیں اور دونوں رو رہے ہیں۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے، آپ اور آپ کا ساتھی کس چیز پر رو رہے ہیں؟ اگر مجھے رونا آ یا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو بھی میں آپ دونوں کے رونے کی بنا پر رونے کی کوشش کروں گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اس بات پر رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے ان سے فدیہ لینے کے بارے میں میرے سامنے پیش کی تھی، ان کا عذاب مجھے اس درخت سے بھی قریب تر دکھایا گیا"۔۔ وہ درخت جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھا۔۔ اور اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل فرمائی ہیں: "کسی نبی کے لیے (روا) نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خون بہائے۔۔۔" اس فرمان تک۔۔۔ "تو تم اس میں سے کھاؤ جو حلال اور پاکیزہ غنیمتیں تم نے حاصل کی ہیں۔" تو اس طرح اللہ نے ان کے لیے غنیمت کو حلال کر دیا امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب بدر کا دن آیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|