۔ عباد بن زیاد کو عروہ بن مغیرہ بن شعبہ خبر دی کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غز وہ تبوک میں شریک ہوئے۔ مغیرہ نے کہا: صبح کی نماز سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے باہر نکلے اور میں نے آپ کے ہمراہ پانی کا ایک برتن اٹھا لیا۔ جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میر ی طرف لوٹے تو میں برتن سے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنے لگا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے، پھر اپنا چہرہ دھویا، اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں سے جبہ نکالنے لگے، جبے کی دونوں آستینیں تنگ ہوئیں تو آپ نے اپنے ہاتھ جبے کے اندر کر لیے حتیٰ کہ آپ نے اپنے بازور جبے کے نیچے سے نکال لیے اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے، پھر اپنے دونوں موزوں پر مسح (کر کے) وضو (مکمل) کیا، پھر آپ آگے بڑھے۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی آپ کے ساتھ آگے بڑھا یہاں تک کہ ہم لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو آگے کر چکے تھے، انہوں نے نماز پڑھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو رکعتوں میں سے ایک ملی۔ آپ نے آخری رکعت لوگوں کے ساتھ ادا کی، چنانچہ جب حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی تکمیل کے لیے کھڑے ہو گئے، اس بات نے مسلمانوں کو گھبراہٹ میں مبتلا کر دیا اور انہوں نے کثرت سے سبحان اللہ کہنا شروع کر دیا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ” تم نے اچھا کیا۔“ یا فرمایا: ”تم نے ٹھیک کیا۔“ آپ نے ان کی تحسین فرمائی کہ انہوں نے وقت پر نماز پڑھ لی تھی۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں شریک ہوئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے باہر نکلے اور میں صبح کی نماز سے پہلے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پانی کا برتن اٹھا کر چلا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس لوٹے تو میں برتن (لوٹا) سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر پانی ڈالنے لگا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے، پھر اپنا چہرہ دھویا، اس کے بعد اپنے بازوؤں سے جبہ اتارنے لگے، آستینیں تنگ نکلیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جبے کے اندر کر لیے حتیٰ کہ اپنے بازو جبے کے نیچے سے نکال لیے، اور ان کو کہنیوں سمیت دھویا، پھر موزوں کے اوپر مسح کیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے اور میں بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل پڑا، (ہم نے پہنچ کر) لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو آگے کر چکے تھے، انہوں نے نماز پڑھائی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رکعت ملی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت لوگوں کے ساتھ ادا کی تو جب عبدالرحمان بن عوف نے سلام پھیرا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی تکمیل کے لیے کھڑے ہو گئے، مسلمان اس سے گھبرا گئے (پریشان ہو گئے) اور انہوں نے کثرت سے سُبحَانَ اللّٰہ کہنا شروع کر دیا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”تم نے اچھا کیا“ یا فرمایا ”تم نے ٹھیک کیا“، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے وقت پر نماز پڑھنے کو قابل رشک قرار دیا۔