حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، فَحَانَتِ الصَّلَاةُ، فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: أَتُصَلِّي بِالنَّاسِ فَأُقِيمُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاةِ، فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِي الصَّفِّ، فَصَفَّقَ النَّاسُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ، لَا يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ، فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ، الْتَفَتَ، فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنِ امْكُثْ مَكَانَكَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ، حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ: " يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ؟ "، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ، أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا لِي رَأَيْتُكُمْ أَكْثَرْتُمُ التَّصْفِيقَ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ، فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ "،
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 949
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تَخَلَّصَ:
نجات پانا،
منتقل ہونا،
یہاں مراد ہے گزر کر آگے پہنچنا۔
(2)
صَفَّقَ تَصْفِيْقاً:
ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارنا،
تالی بجانا،
عورتیں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کی پشت پر ماریں گی۔
(3)
مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَة:
ابو قحافہ کے لیے لائق ومناسب نہ تھا یا جائز نہ تھا۔
(4)
نَابَهُ:
نَابَ يَنُوْبُ نَوْباً:
پیش آنا۔
(5)
نَابَهُ أَمْرٌ:
کوئی امر پیش آ گیا۔
(6)
التَّصْفِيْحُ:
یہ تصفيق تالی بجانا کے ہم معنی ہے۔
فوائد ومسائل:
1۔
اگر کسی وجہ سے امام نہ آ سکے تو اس کی جگہ کسی اور قابل احترام شخصیت کو امام بنایا جا سکتا ہے۔
2۔
نماز میں اگر کوئی قابل توجہ یا لائق التفات بات پیش آ جائے تو امام کو متوجہ کرنے کے لیے سُبحَانَ اللہ کہا جائے گا۔
3۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو متوجہ کیا اور آپﷺ کی تعظیم وتوقیر کی خاطر،
ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے ہٹ گئے تو اس سے یہ استدلال کرنا کہ جب نماز میں آپﷺ کا ذکر یا نام آئے تو آپﷺ کا تصور تعظیم سے کرنا لازم ہے قیاس مع الفارق ہے اگر آپﷺ کا نماز میں تصور تعظیم کے لیے لازم ہوتا تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز میں آپﷺ کی طرف توجہ اور اشتعال کو افتنان سے تعبیر نہ کرتے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کا اہتمام فرماتے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 949
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 87
´افضل کی موجودگی میں مفضول کی امامت`
«. . . 408- مالك عن أبى حازم بن دينار عن سهل بن سعد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم وجاءت الصلاة، فجاء المؤذن إلى أبى بكر فقال: أتصلي للناس فأقيم؟ فقال: نعم، فصلى أبو بكر، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس فى الصلاة فتخلص حتى وقف فى الصف فصفق الناس وكان أبو بكر لا يلتفت فى صلاته، فلما أكثر الناس التصفيق التفت فرأى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن امكث مكانك، فرفع أبو بكر يديه فحمد الله على ما أمره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك ثم استأخر حتى استوى فى الصف وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فلما انصرف قال: ”يا أبا بكر، ما منعك أن تثبت إذ أمرتك؟“ فقال أبو بكر: ما كان لابن أبى قحافة أن يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما لي رأيتكم أكثرتم من التصفيق، من نابه شيء فى صلاته فليسبح، فإنه إذا سبح التفت إليه، وإنما التصفيق للنساء .“ . . .»
”. . . سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کی طرف صلح کرانے کے لئے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا تو مؤذن نے آ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تاکہ میں اقامت کہوں؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں! پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانی شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور لوگ نماز میں تھے، آپ چلتے ہوئے (اگلی صف میں) کھڑے ہو گئے تو لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں پھر انہوں نے نگاہ کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (دعا کے لئے) دونوں ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو تم اپنی جگہ کیوں نہ ٹھہرے رہے؟“ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوقحافہ کے بیٹے کی (یعنی میری) یہ طاقت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (کھڑے ہو کر) نماز پڑھائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں دیکھا تم کثرت سے تالیاں بجا رہے تھے؟ اگر نماز میں کوئی چیز پیش آئے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ سبحان اللہ کے بعد وہ (امام) اس طرف متوجہ ہو گا اور تالیاں بجانا تو عورتوں کے لئے ہے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 87]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 684، ومسلم 421، من حديث مالك به، وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: ”وحانت الصلاة“ وفي رواية يحييٰ: ”فقال“]
تفقه:
➊ جب نماز کا وقت فوت ہونے کا ڈر ہو تو پھر امام کا انتظار کرنے کے بجائے عارضی امام مقرر کرکے فرض نماز ادا کی جا سکتی ہے۔
➋ اگر شرعی عذر ہو تو صفوں میں سے گزر کر اگلی صف میں جا کر کھڑا ہو جانا جائز ہے۔ اگر کوئی شرعی عذر یا اجتہادی خطا ہو تو نماز میں عمل کثیر سے نماز فاسد نہیں ہوتی کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیاں بجانے والے مردوں کو نماز کے اعادے کا حکم نہیں دیا تھا۔
➍ نماز میں اِدھر اُدھر نہیں دیکھنا چاہئے اور اسی طرح آسمان کی طرف دیکھنا بھی منع ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے سامنے یا جائے نماز پر نظر رکھی جائے۔ واللہ اعلم
➎ اہلِ ایمان کا آپس میں بعض اجتہادی امور پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اختلاف کے بجائے اتفاق کی راہ نکالی جائے۔
➏ بعض اوقات نماز میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے لیکن نماز میں منہ ہر ہاتھ پھیرنا ثابت نہیں ہے۔ نماز کے بعد مطلق دعا میں منہ پر ہاتھ پھیرنا سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے۔ دیکھئے [الادب المفرد للبخاري 609 وسنده حسن لذاته وأخطأ من ضعفه]
➐ اگر مسئلہ معلوم نہ ہو تو آدمی معذور ہے لیکن واضح ثابت شدہ مسئلے یا ضرورتِ دین میں غلطی کا ارتکاب ہو جائے تو پھر معذور نہیں ہے۔
➑ افضل کے مقابلے میں مفضول کو امامت نہیں کرانی چاہئے۔
➒ اگر دو امام ہوں، ایک پہلے سے کھڑا ہو کر نماز پڑھا رہا ہو پھر دوسرا امام آئے اور بیٹھ کر نماز پڑھانا شروع کردے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھتے رہیں گے۔ اگر امام ایک ہو اور پہلے سے بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے سب لوگ بیٹھ کر ہی نماز پڑھیں گے۔ دیکھئے الموطأ حدیث: 1
➓ اس روایت سے بطریق اولیٰ اور بطریق قیاس ثابت ہے کہ اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کی جگہ دوسرا قائم مقام امام بن سکتا ہے۔ دیکھئے [التمهيد 104/21]
◄ اس حدیث سے اور بھی بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً اگر امام بھول جائے تو اسے لقمہ (فتحہ) دینا جائز ہے
◄ نیز امام کے بھولنے کی صورت میں مرد حضرات تسبیح اور عورتیں ہاتھ پر ہاتھ مارنے کے ذریعے سے آگاہ کریں گی
◄ افضل کی اجازت سے اُس کی موجودگی میں مفضول امامت کرا سکتا ہے اور
◄ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتے تھے۔ وغیرہ
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 408
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 941
´نماز میں عورتوں کے تالی بجانے کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی آپس میں لڑائی ہوئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی، تو آپ ظہر کے بعد مصالحت کرانے کی غرض سے ان کے پاس آئے اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہہ آئے کہ اگر عصر کا وقت آ جائے اور میں واپس نہ آ سکوں تو تم ابوبکر سے کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چنانچہ جب عصر کا وقت ہوا تو بلال نے اذان دی پھر تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے کہا تو آپ آگے بڑھ گئے، اس کے اخیر میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں نماز میں کوئی حادثہ پیش آ جائے تو مرد ”سبحان الله“ کہیں اور عورتیں دستک دیں۔“ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 941]
941۔ اردو حاشیہ:
➊ مسلمانوں میں کہیں جھگڑا ہو جائے، تو اولین فرصت میں ان میں صلح کرانے کی کوشش کی جائے اور بالخصوص آئمہ قوم اور ذی وجاہت افراد کو اس میں سبقت کرنی چاہیے۔
➋ امام مقرر کو چاہیے کہ متوقع غیر حاضری کی صورت میں اپنا نائب مقرر کر کے جائے۔
➌ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل اعتماد نائب تھے اور امت نے آپ کے اسی مقام کی وجہ سے انہیں منصب خلافت کے لئے منتخب کیا۔
➍ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مقام خلافت کو خوب پہچانتے تھے کہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی طرح مناسب نہیں کہ آگے رہ کر نماز پڑھائی جائے۔ یہ خصوصیت صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی۔ امت میں کسی اور کا یہ مقام نہیں ہے اور یہی وجہ تھی کہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی بےچینی کا انتظار کرتے ہوئے تالیاں بجائیں۔
➎ لاعلمی سے جو عمل ہو جائے وہ معاف ہے، جیسے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے تالیاں بجائیں۔ مگر علماء پر لازم ہے کہ اس کی اصلاح کریں تاکہ پھر اس کا اعادہ نہ ہونے پائے۔
➏ اثنائے قرات میں حمد اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لینے جائز ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 941
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 785
´امامت کے لیے رعایا میں سے کوئی آگے بڑھ جائے، پھر حاکم آ جائے تو کیا وہ پیچھے ہٹ جائے؟`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں کچھ اختلاف ہو گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر نکلے تاکہ آپ ان میں صلح کرا دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی معاملہ میں مشغول رہے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آپ پہنچا ۱؎ تو بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: ابوبکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابھی تک) نہیں آ سکے ہیں، اور نماز کا وقت ہو چکا ہے تو کیا آپ لوگوں کی امامت کر دیں گے؟ انہوں نے کہا: ہاں کر دوں گا اگر تم چاہو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اور اللہ اکبر کہہ کر لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور آپ صفوں میں چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں آ کر کھڑے ہو گئے، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر) لوگ تالیاں بجانے لگے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، تو جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ الٹے پاؤں اپنے پیچھے لوٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور جا کر لوگوں کو نماز پڑھائی، اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ”لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ جب تمہیں نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تالیاں بجانے لگتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لیے مخصوص ہے، جسے اس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب کوئی سبحان اللہ کہے گا تو جو بھی اسے سنے گا اس کی طرف ضرور متوجہ ہو گا (پھر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے) اور فرمایا: ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو تم نے لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھائی؟“، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا؟ ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھائے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 785]
785 ۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب اور ارباب اختیار صرف اس انتظار میں نہ رہیں کہ لوگ لڑنے کے بعد آئیں گے تو فیصلہ کروں گا بلکہ جھگڑے کی اطلاع ملنے پر فوراًً کاروائی کریں اور صلح کی کوشش کریں۔
➋ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اگر مجھے دیر ہو جائے تو ابوبکر سے کہنا کہ جماعت کرا دیں۔
➌ دوران نماز میں صفوں کو کاٹنے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی ممانعت ہے کیونکہ ایسا کرنا نمازیوں کی تکلیف کا باعث ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت ایسا کرنا جائز ہے مثلاً: وہ اہل علم و فضل جسے امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے تھا تاکہ امام بوقت ضرورت اسے اپنا نائب بنا سکے یا وہ شخص اگلی صف میں موجود خلا کو پر کرنا چاہتا ہو تو ایسی صورتیں امتناعی حکم میں شمار نہیں ہوں گی۔ یاد رہے کہ امام کے سامنے موجود سترہ مقتدیوں کے لیے کفایت کرتا ہے جس سے نمازیوں کے درمیان سے گزرنے کی گنجائش رہتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 220/2 تحت حديث: 684]
➍ تالی بجانے کا حکم تو عورتوں کے لیے ہے۔ یہ معنیٰ جمہور اہل علم کے قول کے مطابق ہیں یعنی اگر عورت کے لیے امام کو متنبہ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ایک ہاتھ کی پشت پر دوسرے ہاتھ کی انگلیاں مارے کیونکہ ہتھیلی پر مارنا لہو و لعب کے لیے ہوتا ہے جو نماز کے لائق نہیں۔ نماز میں مذکورہ طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ تالی بجانے کا مطلب یہی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس جملے کے معنیٰ یوں کیے ہیں۔ تالی بجانا عورتوں کا کام ہے۔ یعنی یہ تو عورتوں کی فضول عادت ہے۔ گویا آپ تالی کی حرمت فرما رہے ہیں۔ نماز میں یہ مردوں کے لیے جائز ہے نہ عورتوں کے لیے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک عورتیں بھی ضرورت کے موقع پر سبحان اللہ ہی کہیں گی لیکن یہ مفہوم صحیح احادیث کے خلاف ہے جن میں صراحت ہے کہ مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں۔ دیکھیے: [صحیح البخاري العمل في الصلاة حدیث: 1253 و صحیح مسلم الصلاۃ حدیث: 422]
اس کی تاویل بھی نہیں ہو سکتی۔
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز جاری رکھنے کا اشارہ کرنا بطور تکریم و تشریف تھا نہ کہ بطور حکم ورنہ ان کے لیے پیچھے ہٹنا جائز نہ ہوتا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اٹھا کر اپنی بے حیثیتی کا اظہار کرنا اور حمد و ثنا کرنا اور پیچھے ہٹ آنا اس توجیہ کی تائید کرتا ہے۔ نماز کے بعد آپ کا استفسار کرنا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جواب دینا لوگوں کو اسی توجیہ کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تھا۔ کسر نفسی کا عظیم اظہار ہے کہ اپنے آپ کو معروف نام سے ذکر کرنے کی بجائے ابوقحافہ کا بیٹا کہا: جو غیر معروف تھا۔ رضي اللہ عنه و أرضاه۔
➏ مستقل امام کی جگہ مقتدیوں میں سے کوئی نماز پڑھا رہا ہو تو جب امام آ جائے تو اس کا پیچھے ہٹنا اور مستقل امام کا آگے بڑھ کر امامت کرانا جائز ہے یا نہیں؟ امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ اسے جائز قرار دیتے ہیں جبکہ مالکی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں۔ لیکن اس موضوع سے متعلق تمام احادیث اور واقعات کو جمع کیا جائے تو راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مستقل امام کا آگے بڑھ کر امامت کرانا اور پہلے امام کا پیچھے ہٹنا اس صورت میں جائز ہے جب مستقل امام نماز کے ابتدا میں آئے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے لیکن اگر نماز کا کچھ حصہ ادا کیا جا چکا ہو تو اس صورت میں مستقل امام کو عارضی امام کی اقتدا ہی میں نماز ادا کر لینی چاہیے جیسا کہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز فجر ادا کی تھی کیونکہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک رکعت ادا کرچکے تھے۔ اگر اسے مطلقاً جائز سمجھ لیا جائے یعنی امام نماز کا کچھ حصہ ادا کرچکا ہو پھر بھی آگے پیچھے ہونا جائز ہے تو یہ کسی صورت مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ بعد میں پیچیدگیوں کا باعث بنے گا مثلاً: سلام وغیرہ کے مسئلہ میں لہٰذا راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ صرف ابتدا میں جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 220/2]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 785
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1184
´نماز میں رفع یدین کرنے، اور اللہ کی حمد و ثناء کرنے کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے درمیان صلح کرانے گئے تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا، تو مؤذن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور اس نے ان سے لوگوں کو جمع کر کے ان کی امامت کرنے کے لیے کہا (چنانچہ انہوں نے امامت شروع کر دی) اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور صفوں کو چیر کر اگلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے، لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تالیاں بجانے لگے تاکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر دے دیں، جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو انہیں احساس ہوا کہ نماز میں کوئی چیز ہو گئی ہے، تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی اور طرف دھیان نہیں کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ جیسے ہو ویسے ہی رہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کہنے پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر وہ الٹے پاؤں پیچھے آ گئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے، پھر آپ نے نماز پڑھائی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی، جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا؟“ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کرے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا: ”تمہیں کیا ہو گیا تھا کہ تم تالیاں بجا رہے تھے، تالیاں تو عورتوں کے لیے ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں تمہاری نماز میں کوئی چیز پیش آ جائے، تو تم ”سبحان اللہ“ کہو۔“ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1184]
1184۔ اردو حاشیہ: اس رفع الیدین سے مراد تکبیر والا رفع الیدین نہیں بلکہ دعا والا رفع الیدین ہے جس میں ہتھیلیوں کا رخ قبلہ کی بجائے چہرے کی طرف ہوتا ہے۔ یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے، فوائد حدیث: 785)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1184
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5415
´صلح کرانے کے لیے حاکم کے رعایا کے پاس جانے کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کے دو قبیلوں کے درمیان تکرار ہوئی یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو پتھر مارنے لگے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان صلح کرانے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، تو بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور آپ کا انتظار کیا اور رکے رہے، پھر اقامت کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، جب لوگوں نے آپ کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5415]
اردو حاشہ:
باب کا مقصد یہ ہے کہ حاکم اس انتظار میں نہ رہے کہ لوگ لڑنے کے بعد میرے پاس آئیں گے توفیصلہ کروں گا بلکہ کوشش کرے کہ لڑائی ہو ہی نہ۔ صلح سے کام چل جائے۔ حدیث کے باقی مباحث پیچھے گزر چکے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5415
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:956
956- سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کے درمیان صلح کروانے کے لیے تشریف لے گئے کیونکہ ان کے درمیان جھگڑا ہوا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے ایک دوسرے کو پتھر بھی مارے تھے۔ اس دوران نماز کا وقت ہوگیا، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں رکے رہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھ گئے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درمیان میں سے گزرتے ہوئے تشریف لائے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے والی صف تک پہن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:956]
فائدہ:
اس حدیث میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ اول اور خلیفہ بلافصل ہونے کی زبردست دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اپنا نائب جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بنایا ہے، کسی اور کو نہیں، نیز اس حدیث میں بہت زیادہ مسائل بیان ہوئے ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تالیاں عورتوں کے لیے خاص ہیں، مردوں کے لیے نہیں، افسوس کہ آج ہر موقع پر مرد تالیاں بجاتے نظر آتے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 955
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1204
1204. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”مردوں کے لیے سبحان اللہ کہنا اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1204]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ امام بھول جائے اور اس کو ہوشیار کرنا ہو تو مرد سبحان اللہ بلند آواز سے کہیں اور اگر کسی عورت کو لقمہ دینا ہو تو وہ تالی بجائے، اس سے عورتوں کا باجماعت نماز پڑھنا بھی ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1204
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1218
1218. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی کہ قباء میں قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ چند صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ کو کچھ رکنا پڑا۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو حضرت بلال ؓ سیدنا ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا: اے ابوبکر! رسول اللہ ﷺ کو کچھ دیر ہو گئی ہے اور نماز کا وقت ہو چکا ہے، کیا آپ لوگوں کی امامت کا فریضہ سر انجام دیں گے؟حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اگر آپ چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں، چنانچہ حضرت بلال ؓ اقامت کہی اور حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھے اور لوگوں نے اللہ أکبر کہہ کر نماز شروع کر دی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے تالی بجانا شروع کر دی۔۔ راوی حدیث حضرت سہل ؓ کہتے ہیں: تصفيح کے معنی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1218]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو بکر ؓ نے رب کے سامنے ہاتھوں کو اٹھا کر الحمد للہ کہا۔
اس میں کچھ ہرج ہوتا تو آپ ضرور منع فرمادیتے اور اس سے حدیث کی مناسبت باب سے ظاہر ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1218
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7190
7190. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ بنو عمرو میں باہم لڑائی ہوگئی۔نبی ﷺ کو اس کو اطلاع ملی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھی،پھر ان کے ہاں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔جب نماز عصر کا وقت ہوا تو بلال ؓ نے اذان اور اقامت کہی، پھر سیدنا ابو بکر ؓ سے کہا کہ وہ آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں، چنانچہ آپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو نبی ﷺ بھی تشریف لے آئے جبکہ ابو بکر ؓ نماز ہی میں تھے۔آپ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور سیدنا ابو بکر ؓ کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور اس صف میں تشریف لے گئے جو ابو بکر ؓ کے قریب تھی۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا، لیکن سیدنا ابو بکر ؓ جب نماز شروع کرتے تو ختم کرنے سے پہلے کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کی تالیاں بند نہیں ہورہیں تو ادھر متوجہ ہوئے اور نبی ﷺ کو اپنے پیچھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7190]
حدیث حاشیہ:
قبیلہ بنی عمر بن عوف میں آپ صلح کرانے گئے‘ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا‘ اس میں امام کی کسر شان نہیں ہے بلکہ یہ اس خوبی ہوگی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7190
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1234
1234. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے۔ آپ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ساتھ لے کر ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ کو وہاں دیر ہو گئی اور ادھر نماز کا وقت ہو گیا۔ حضرت بلال ؓ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا: ابوبکر! رسول اللہ ﷺ کو وہاں دیر ہو گئی ہے۔ جبکہ نماز کا وقت قریب آ گیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو میں تیار ہوں، چنانچہ حضرت بلال ؓ نے تکبیر کہی اور حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے تکبیر تحریمہ کہی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نماز میں بالکل کسی طرف بھی متوجہ نہیں ہوا کرتے تھے۔ جب لوگوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1234]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اشارہ سے حضرت ابو بکر ؓ کو نماز پڑھاتے رہنے کا حکم فرمایا۔
اس سے حضرت ابو بکر ؓ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی کہ جب آنحضرت ﷺ نے اپنی حیات مقدسہ میں حضرت ابو بکر ؓ کو اپنا نائب مقرر فرمایا تو بعد وفات نبوی آپ کی خلافت بالکل حق بجانب تھی۔
صدافسوس ان لوگوں پر جوآنکھیں بند کر کے محض تعصب کی بنیاد پر خلافت صدیقی سے بغاوت کرتے ہیں۔
اور جمہورامت کا خلاف کرکے معصیت رسول اللہ ﷺ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1234
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 684
684. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرو بن عوف قبیلے میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ جب نماز کا وقت ہوا تو مؤذن نے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آ کر کہا: اگر آپ نماز پڑھائیں تو میں اقامت کہہ دوں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھانے لگے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے جبکہ لوگ نماز میں مصروف تھے۔ آپ صفوں میں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ اس پر لوگوں نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں، لیکن ابوبکر ؓ اپنی نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے عادی نہ تھے۔ جب لوگوں نے مسلسل تالیاں بجائیں تو حضرت ابوبکر ؓ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ ﷺ پر ان کی نظر پڑی (وہ پیچھے ہٹنے لگے) تو رسول اللہ ﷺ نے اشارہ کیا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں امامت کا اعزاز بخشا ہے، تاہم وہ پیچھے ہٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:684]
حدیث حاشیہ:
بنی عمرو بن عوف ساکنان قبا قبیلہ اوس کی ایک شاخ تھی۔
ان میں آپس میں تکرار ہو گئی۔
ان میں صلح کرانے کی غرض سے آنحضرت ﷺ وہاں تشریف لے گئے اور چلتے وقت بلال ؓ سے فرما گئے تھے کہ اگر عصر کا وقت آجائے اور میں نہ آسکوں تو ابوبکر ؓ سے کہنا وہ نماز پڑھا دیں گے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کو وہاں کافی وقت لگ گیا۔
یہاں تک کہ جماعت کا وقت آگیا اور حضرت صدیق اکبر ؓ مصلے پر کھڑے کر دیے گئے۔
اتنے ہی میں آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے اور معلوم ہونے پر حضڑت صدیق اکبر پیچھے ہو گئے اور آنحضرت ﷺ نے نماز پڑھائی۔
حضرت صدیق اکبر ؓ نے تواضع و انکساری کی بنا پر اپنے آپ کو ابوقحافہ کا بیٹا کہا۔
کیوں کہ ان کے باپ ابوقحافہ کو دوسرے لوگوں پر کوئی خاص فضیلت نہ تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر مقررہ امام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص امام بن جائے اور نماز شروع کرتے ہی فوراً دوسرا امام مقررہ آجائے تو اس کو اختیار ہے کہ خواہ خود امام بن جائے اور دوسرا شخص جو امامت شروع کراچکا تھا وہ مقتدی بن جائے یا نئے امام کا مقتدی رہ کر نماز ادا کرے کسی حال میں نماز میں خلل نہ ہوگا اور نہ نماز میں کوئی خرابی آئے گی۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کو اگر امام کو لقمہ دینا پڑے تو باآواز بلند سبحان اللہ کہنا چاہئے۔
اگر کوئی عورت لقمہ دے تو اسے تالی بجا دینا کافی ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 684
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:684
684. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرو بن عوف قبیلے میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ جب نماز کا وقت ہوا تو مؤذن نے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آ کر کہا: اگر آپ نماز پڑھائیں تو میں اقامت کہہ دوں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھانے لگے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے جبکہ لوگ نماز میں مصروف تھے۔ آپ صفوں میں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ اس پر لوگوں نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں، لیکن ابوبکر ؓ اپنی نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے عادی نہ تھے۔ جب لوگوں نے مسلسل تالیاں بجائیں تو حضرت ابوبکر ؓ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ ﷺ پر ان کی نظر پڑی (وہ پیچھے ہٹنے لگے) تو رسول اللہ ﷺ نے اشارہ کیا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں امامت کا اعزاز بخشا ہے، تاہم وہ پیچھے ہٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:684]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوان کی دونوں صورتوں کو اس حدیث سے ثابت کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی:
”اپنی جگہ پر قائم رہو“ سے ثابت ہوا کہ اگر دوسرے امام کے آنے پر پہلا امام جماعت کرانے میں مصروف رہے تو اس کی نماز درست ہے۔
اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پیچھے ہٹ جانے اور رسول اللہ ﷺ کے اس پر انکار نہ کرنے سے ثابت ہوا کہ دوسرے امام کے آنے پر اگر پہلا امام پیچھے ہٹ جائے تو بھی اس کی نماز درست ہوگی۔
(حاشیة السندي: 125/1) (2)
یہ نماز جس میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں امامت کا اعزاز ملا، عصر کی نماز تھی اور حضرت ابو بکر ؓ کو نماز پڑھانے کی درخواست کرنے والے حضرت بلال ؓ تھے۔
خود رسول اللہ ﷺ حضرت بلال ؓ کو یہ ہدایت دے کر گئے تھے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند احمد، ابو داود اور ابن حبان کے حوالے سے مندرجہ ذیل حدیث نقل کی ہے جس میں ان تمام امور کی صراحت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ سے کہا کہ اگر نماز عصر کا وقت ہوجائے اور میں نہ آسکوں تو ابو بکر صدیق ؓ سے کہنا کہ لوگوں کو نماز پڑھادیں۔
(فتح الباري: 218/2) (3)
رسول اللہ ﷺ کے ایام علالت میں بھی ایک مرتبہ اس قسم کا واقعہ پیش آیا تھا، لیکن اس وقت حضرت ابوبکر ؓ بدستور امام رہے اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اقتدا میں نماز فجر کی دوسری رکعت ادا کی تھی جبکہ اس موقع پر آپ پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر جماعت کرائی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ نماز فجر کے موقع پر نماز کا بیشتر حصہ ادا ہوچکا تھا، اس لیے حضرت ابو بکر ؓ نے امامت جاری رکھی جبکہ نماز عصر کے موقع پر ابھی نماز کا آغاز ہی ہوتھا، لہٰذا آپ پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر جماعت کرائی۔
اس طرح جنگ تبوک کے موقع پر ایک مرتبہ ایسا ہی واقعہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کے ساتھ پیش آیاتھا۔
چونکہ نماز فجر کی ایک رکعت ادا ہوچکی تھی، اس لیے حضرت عبدالرحمٰن ؓ نے جماعت جاری رکھی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی امامت میں دوسری رکعت ادا کی۔
(فتح الباري: 220/2) (4)
دوران نماز میں صفوں کو کاٹنے اور لوگوں کی گردنوں کو پھلانگنے کی ممانعت ہے کیونکہ ایسا کرنا نمازیوں کی تکلیف کا باعث ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت ایسا کرنا جائز ہے، مثلاً:
وہ اہل علم وفضل جسے امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے تھا تاکہ امام بوقت ضرورت اسے اپنا نائب بنا سکے یا وہ شخص جو اگلی صف میں موجود خلا کو پر کرنا چاہتا ہوتو ایسی صورتیں امتناعی حکم میں شمار نہیں ہوں گی. (فتح الباري: 221/2)
نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنی جگہ سے ہٹ کر پہلی صف میں شامل ہوگئے تھے، واضح رہے کہ اگر کسی کو اس طرح کی صورت حال سے واسطہ پڑے تو اسے الٹے پاؤں پیچھے ہٹنا چاہیے، تاکہ قبلے کی طرف پیٹھ نہ ہو اور نہ کسی دوسری طرف ہی منہ کرنا پڑے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1534(673)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 684
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1204
1204. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”مردوں کے لیے سبحان اللہ کہنا اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1204]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر دوران نماز میں کوئی حادثہ پیش آ جائے تو امام کو متنبہ کرنے کے لیے مردوں کو چاہیے کہ وہ سبحان اللہ کہیں اور عورتیں اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر ماریں۔
وہ زبان سے سبحان اللہ نہ کہیں، کیونکہ عورت کی آواز فتنے سے خالی نہیں ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ عورت کو کھلے عام اذان اور اقامت کہنے کی ممانعت ہے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 377) (2)
اگر کسی مرد کو مسئلے کا علم نہ ہو اور وہ امام کو متنبہ کرنے کے لیے تالی بجا دے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان صحابۂ کرام ؓ کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا جنہوں نے نادانستہ طور پر دوران نماز میں تالیاں بجائی تھیں، بلکہ آپ نے صرف انہیں شریعت کے حکم سے آگاہ فرمایا۔
اگر کوئی عورت کھیل کے طور پر دوران نماز میں تالی بجاتی ہے تو اس کی نماز باطل ہے کیونکہ اس نے نماز کو کھیل اور تماشا بنایا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1204
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1218
1218. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی کہ قباء میں قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ چند صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ کو کچھ رکنا پڑا۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو حضرت بلال ؓ سیدنا ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا: اے ابوبکر! رسول اللہ ﷺ کو کچھ دیر ہو گئی ہے اور نماز کا وقت ہو چکا ہے، کیا آپ لوگوں کی امامت کا فریضہ سر انجام دیں گے؟حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اگر آپ چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں، چنانچہ حضرت بلال ؓ اقامت کہی اور حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھے اور لوگوں نے اللہ أکبر کہہ کر نماز شروع کر دی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے تالی بجانا شروع کر دی۔۔ راوی حدیث حضرت سہل ؓ کہتے ہیں: تصفيح کے معنی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1218]
حدیث حاشیہ:
(1)
دوران نماز میں ہاتھ اٹھانے کے متعدد واقعات ہیں۔
نماز شروع کرتے، رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دوسری رکعت سے فراغت کے بعد کھڑے ہوتے وقت ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں، نیز قنوت نازلہ میں بھی رکوع کے بعد ہاتھ اٹھانا ثابت ہے، لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے ان مواقع کے علاوہ اپنے ہاتھ اٹھائے تھے۔
واضح رہے کہ آپ نے معذرت خواہی کے طور پر ایسا نہیں کیا تھا۔
جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کے اس اعزاز دینے پر کہ آپ نے اپنی موجودگی میں انہیں نماز پڑھانے کا اشارہ فرمایا، انہوں نے اللہ کی حمد وثنا کی اور ہاتھ اٹھا کر اس ذات عالی کا شکر ادا کیا۔
(2)
امام بخاری نے اس سے ایک مسئلہ استنباط کیا کہ دوران نماز کسی پیش آمدہ حادثے کی بنا پر ہاتھ اٹھانے جائز ہیں۔
جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے دوران نماز میں ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے اس عمل کو برقرار رکھا۔
لہٰذا ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1218
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1234
1234. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے۔ آپ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ساتھ لے کر ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ کو وہاں دیر ہو گئی اور ادھر نماز کا وقت ہو گیا۔ حضرت بلال ؓ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا: ابوبکر! رسول اللہ ﷺ کو وہاں دیر ہو گئی ہے۔ جبکہ نماز کا وقت قریب آ گیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو میں تیار ہوں، چنانچہ حضرت بلال ؓ نے تکبیر کہی اور حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے تکبیر تحریمہ کہی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نماز میں بالکل کسی طرف بھی متوجہ نہیں ہوا کرتے تھے۔ جب لوگوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1234]
حدیث حاشیہ:
(1)
احناف کے نزدیک نماز میں اشارہ کرنا مکروہ ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ دوران نماز میں اشارہ کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔
رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز اشارہ فرمایا، لوگوں نے تالیاں بجائیں۔
یہ سب دوران نماز اشارے ہی ہیں۔
ان سے نماز میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوئی۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ اذکار وغیرہ کو اگر دنیوی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ ذکر کے زمرے سے خارج ہو جاتے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک ان کی شان نہیں بدلتی۔
اسی میں سہولت ہے۔
ہمیں اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ہم اس پر عمل کر کے بھی جنت سے محروم نہیں رہیں گے۔
(2)
ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کی اقتدا میں نماز ادا فرمائی، لیکن حضرت ابوبکر ؓ تواضع اور انکسار کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ آپ کی امامت پر راضی تھے اور آپ نے اس کے متعلق اشارہ بھی فرمایا۔
حضرت ابوبکر ؓ نے خیال فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف میں تشریف لائے ہیں، اس لیے آپ امامت کرانا چاہتے ہیں، بصورت دیگر آپ آگے تشریف نہ لاتے بلکہ پیچھے ہی ان کی امامت میں نماز ادا کر لیتے، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کی اقتدا میں پیچھے ہی نماز ادا کر لی تھی۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کا امر وجوب کے لیے نہیں تھا وگرنہ حضرت ابوبکر ؓ اس کی مخالفت نہ کرتے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1234
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7190
7190. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ بنو عمرو میں باہم لڑائی ہوگئی۔نبی ﷺ کو اس کو اطلاع ملی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھی،پھر ان کے ہاں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔جب نماز عصر کا وقت ہوا تو بلال ؓ نے اذان اور اقامت کہی، پھر سیدنا ابو بکر ؓ سے کہا کہ وہ آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں، چنانچہ آپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو نبی ﷺ بھی تشریف لے آئے جبکہ ابو بکر ؓ نماز ہی میں تھے۔آپ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور سیدنا ابو بکر ؓ کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور اس صف میں تشریف لے گئے جو ابو بکر ؓ کے قریب تھی۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا، لیکن سیدنا ابو بکر ؓ جب نماز شروع کرتے تو ختم کرنے سے پہلے کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کی تالیاں بند نہیں ہورہیں تو ادھر متوجہ ہوئے اور نبی ﷺ کو اپنے پیچھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7190]
حدیث حاشیہ:
1۔
کامیاب مثالی حکومت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کی ضروریات وسہولیات کا پوراپورا خیال رکھے اور عدل وانصاف ان کے دروازے تک پہنچانے کا اہتمام کرے۔
جب کہیں ان میں گڑ بڑ کا پتا چلے تو فوراً اس کے سد باب کا اہتمام کرے۔
اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ حاکم وقت وہاں جائے اور حالات کا جائزہ لے، چنانچہ قبیلہ بنوعمرو جو قباء میں رہائش رکھے ہوئے تھا ان میں لڑائی ہوئی۔
نوبت پتھراؤ کرنے تک جاپہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا چلیں، ان کے درمیان صلح کرادیں۔
(صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2693)
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس وہاں تشریف لے گئے، فریقین کے بیانات سنے اور ان کے درمیان صلح کرادی۔
اس طرح جھگڑا بھی ختم ہوگیا اور مقامی احباب کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی کہ ہمارے سربراہ ہمارے پاس چل کر آئے ہیں۔
2۔
بہرحال ایسے معاملات میں حاکم وقت کو دلچسپی لینی چاہیے اور اسے اپنی شان کے خلاف خیال نہ کرے جیسا کہ عام طور پر صاحب اقتدار حضرات کویہ "بیماری" لاحق ہو جاتی ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7190