كِتَابُ: الْمَنَاسِكِ حج کے احکام و مسائل 1850. (109) بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الْمُفَسِّرِ لِلْأَخْبَارِ الَّتِي ذَكَرْنَاهَا فِي الْبَابَيْنِ الْمُتَقَدِّمَيْنِ گزشتہ دو ابواب میں مذکور مجمل روایات کی مفسر روایت کا بیان
تخریج الحدیث:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: خشکی کے شکار کا گوشت تمہارے لئے حلال ہے جب کہ تم حالت احرام میں ہو، بشرطیکہ تم نے خود شکار نہ کیا ہو اور نہ خاص طور پر تمہارے لئے شکار کیا گیا ہو۔“ امام صاحب اپنے استاد نصر بن مرزوق کی سند سے یہی روایت لائے ہیں اس میں خشکی کے شکار کا ذکر ہے اورلحم (گوشت) کا لفظ مذکور نہیں۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم صلح حدیبیہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (عمرہ کے لئے) نکلے تو میرے ساتھیوں نے احرام باندھا اور میں نے احرام نہ باندھا۔ میں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا تو اس پر حملہ کردیا اور اسے شکار کرلیا۔ پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور میں نے آپ کو یہ بھی بتایا کہ میں حالت احرام میں نہیں تھا اور میں نے یہ شکار آپ کے لئے کیا ہے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم ہونے پر کہ یہ شکار سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے لئے کیا ہے، آپ نے خود اس میں سے نہ کھایا اور اپنے صحابہ سے کہا: ”تم کھا لو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ کہ بلاشبہ یہ شکار میں نے آپ ہی کے لئے کیا ہے اور یہ الفاظ، جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے یہ شکار آپ ہی کے لئے کیا ہے تو آپ نے اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ میرے علم کے مطابق اس سند سے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں صرف معمر ہی نے ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا ہے۔ اگر یہ الفاظ صحیح ثابت ہو جائیں تو پھر اس حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنگلی گدھے کا گوشت کھایا تھا جب کہ ابھی سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو ہی نہیں بتایا تھا کہ انہوں نے خاص آپ کے لئے اسے شکار کیا ہے۔ پھر جب سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا کہ انہوں نے یہ گدھا آپ ہی کے لئے شکار کیا ہے تو پھر آپ نے گوشت کھانا ترک کردیا اور اس سے رُک گئے۔ کیوں کہ یہ بات آپ کے بارے میں ثابت ہے کہ آپ نے اس گدھے کا گوشت کھایا تھا۔ (جیسا کہ اگلی روایت میں آرہا ہے)۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلے جب کہ صحابہ کرام محرم تھے اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ غیر محرم تھے۔ انہوں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا تو (اسے شکار کرنے کے لئے) اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ انہیں نیزه یا کوڑا پکڑا دیں لیکن اُنہوں نے اُنہیں وہ پکڑانے سے انکار کردیا کیونکہ وہ حالت احرام میں تھے لہٰذا انہوں نے خود ہی (نیچے اُتر کر وہ نیزہ پکڑا پھر اس گدھے کا پیچھا کیا اور (اسے پکڑ کر) ذبح کرلیا۔ پھر وہ گدھا لیکر حاضر ہوگئے۔ اور دوسرے صحابہ کرام بھی آپ کے پاس حاضر ہوئے اور سارا ماجرا سُنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اس کا کچھ گوشت ہے؟“ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ جی ہاں اور آپ کو اُس کی ران پیش کی گئی اور آپ نے اس میں سے کھایا۔ میں نے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے تمام طرق کتاب الکبیر میں بیان کر دیے ہیں اور یہ ان کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گدھے کا گوشت کھایا تھا۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
|