سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم صلح حدیبیہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (عمرہ کے لئے) نکلے تو میرے ساتھیوں نے احرام باندھا اور میں نے احرام نہ باندھا۔ میں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا تو اس پر حملہ کردیا اور اسے شکار کرلیا۔ پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور میں نے آپ کو یہ بھی بتایا کہ میں حالت احرام میں نہیں تھا اور میں نے یہ شکار آپ کے لئے کیا ہے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم ہونے پر کہ یہ شکار سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے لئے کیا ہے، آپ نے خود اس میں سے نہ کھایا اور اپنے صحابہ سے کہا: ”تم کھا لو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ کہ بلاشبہ یہ شکار میں نے آپ ہی کے لئے کیا ہے اور یہ الفاظ، جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے یہ شکار آپ ہی کے لئے کیا ہے تو آپ نے اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ میرے علم کے مطابق اس سند سے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں صرف معمر ہی نے ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا ہے۔ اگر یہ الفاظ صحیح ثابت ہو جائیں تو پھر اس حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنگلی گدھے کا گوشت کھایا تھا جب کہ ابھی سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو ہی نہیں بتایا تھا کہ انہوں نے خاص آپ کے لئے اسے شکار کیا ہے۔ پھر جب سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا کہ انہوں نے یہ گدھا آپ ہی کے لئے شکار کیا ہے تو پھر آپ نے گوشت کھانا ترک کردیا اور اس سے رُک گئے۔ کیوں کہ یہ بات آپ کے بارے میں ثابت ہے کہ آپ نے اس گدھے کا گوشت کھایا تھا۔ (جیسا کہ اگلی روایت میں آرہا ہے)۔