صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
كِتَابُ: الْمَنَاسِكِ
حج کے احکام و مسائل
1836. (95) بَابُ إِبَاحَةِ الْإِحْرَامِ مِنْ غَيْرِ تَسْمِيَةِ حَجٍّ وَلَا عَمْرَةٍ، وَمِنْ غَيْرِ قَصْدِ نِيَّةٍ وَاحِدٍ بِعَيْنِهِ عِنْدَ ابْتِدَاءِ الْإِحْرَامِ
حج یا عمرے کا نام لئے بغیر بھی احرام باندھنا جائز ہے اور احرام کی ابتداء میں ان دونوں میں سے کسی ایک کی تعین کی نیت و ارادہ کیے بغیر بھی احرام باندھںا درست ہے
حدیث نمبر: 2620
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا ابن ابي حازم ، اخبرني جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن جابر بن عبد الله ، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نرى إلا الحج حتى قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة فطاف بالبيت سبعا، وصلى خلف المقام ركعتين، ثم قال: " نبدا بالذي بدا الله به"، فبدا بالصفا حتى فرغ من آخر سبعة على المروة، فجاءه علي بن ابي طالب بهدية من اليمن، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بم اهللت؟" قال: قلت: اللهم إني اهل بما اهل به رسولك، قال:" فإني اهللت بالحج" ، فذكر الدورقي الحديث بطوله، قال ابو بكر: فقد اهل علي بن ابي طالب بما اهل به النبي صلى الله عليه وسلم، وهو غير عالم في وقت إهلاله ما الذي به اهل النبي صلى الله عليه وسلم، لان النبي صلى الله عليه وسلم إنما كان مهلا من طريق المدينة، وكان علي بن ابي طالب رحمه الله من ناحية اليمن، وإنما علم علي بن ابي طالب ما الذي به اهل النبي صلى الله عليه وسلم عند اجتماعهما بمكة، فاجاز صلى الله عليه وسلم إهلاله بما اهل به النبي صلى الله عليه وسلم، وهو غير عالم في وقت إهلاله اهل النبي صلى الله عليه وسلم بالحج او بالعمرة او بهما جميعا، وقصة ابي موسى الاشعري من هذا الباب لما قدم على النبي صلى الله عليه وسلم، وهو منيخ بالبطحاء، فقال صلى الله عليه وسلم:" قد احسنت"، غير ان النبي صلى الله عليه وسلم في المتعقب امر عليا بغير ما امر به ابا موسى، امر عليا بالمقام على إحرامه، إذ كان معه هدي، فلم يجد له الإحلال إلى ان بلغ الهدي محله، وامر ابا موسى بالإحلال بعمرة، إذ لم يكن معه هدي، وقد بينت هذه المسالة في كتاب الكبيرحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ ، أَخْبَرَنِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا نَرَى إِلا الْحَجَّ حَتَّى قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: " نَبْدَأُ بِالَّذِي بَدَأَ اللَّهُ بِهِ"، فَبَدَأَ بِالصَّفَا حَتَّى فَرَغَ مِنْ آخِرِ سَبْعَةٍ عَلَى الْمَرْوَةِ، فَجَاءَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بِهَدِيَّةٍ مِنَ الْيَمَنِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِمَ أَهْلَلْتَ؟" قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ، قَالَ:" فَإِنِّي أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ" ، فَذَكَرَ الدَّوْرَقِيُّ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَقَدْ أَهَلَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ غَيْرُ عَالِمٍ فِي وَقْتِ إِهْلالِهِ مَا الَّذِي بِهِ أَهَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا كَانَ مُهِلا مِنْ طَرِيقِ الْمَدِينَةِ، وَكَانَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَحِمَهُ اللَّهُ مِنْ نَاحِيَةِ الْيَمَنِ، وَإِنَّمَا عَلِمَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ مَا الَّذِي بِهِ أَهَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ اجْتِمَاعِهِمَا بِمَكَّةَ، فَأَجَازَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِهْلالَهُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ غَيْرُ عَالِمٍ فِي وَقْتِ إِهْلالِهِ أَهَلَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ أَوْ بِالْعُمْرَةِ أَوْ بِهِمَا جَمِيعًا، وَقِصَّةُ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ مِنْ هَذَا الْبَابِ لَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُنِيخٌ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أَحْسَنْتَ"، غَيْرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُتَعَقَّبِ أَمَرَ عَلِيًّا بِغَيْرِ مَا أَمَرَ بِهِ أَبَا مُوسَى، أَمَرَ عَلِيًّا بِالْمُقَامِ عَلَى إِحْرَامِهِ، إِذْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلَمْ يَجِدْ لَهُ الإِحْلالَ إِلَى أَنْ بَلَغَ الْهَدْيَ مَحِلَّهُ، وَأَمَرَ أَبَا مُوسَى بِالإِحْلالِ بِعُمْرَةٍ، إِذْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، وَقَدْ بَيَّنْتُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ فِي كِتَابِ الْكَبِيرِ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کی نیت سے (مدینہ منوّرہ سے) نکلے حتّیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے (طواف کیا) اور مقام ابراہیم کے پاس دو رکعات ادا کیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم بھی (سعی کی) ابتداء اسی سے کریںگے جس سے اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں) ابتداء کی ہے۔ لہٰذا آپ نے صفا پہاڑی سے (سعی کی) ابتدء کی۔ حتّیٰ کہ آخری ساتواں چکّر مروہ پہاڑی پر پہنچ کر ختم کیا اور سعی سے فارغ ہو گئے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یمن سے آپ کے لئے جانور لیکر حاضر ہوگئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے احرام باندھتے وقت کیا نیت کی تھی۔ (کس حج کا تلبیہ پکارا تھا) انہوں نے عرض کی کہ میں نے کہا تھا کہ اے اللہ، میں بھی اسی نیت سے احرام باندھتا ہوں جس نیت سے تیرے رسول نے احرام باندھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک میں نے حج کا احرام باندھا ہے۔ پھر جناب دورقی نے بقیہ حدیث بیا ن کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کی طرح احرام باندھا حالانکہ احرام باندھتے وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حج کی نیت کرکے احرام باندھا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ کے راستے میں آنے والے میقات ذوالحلیفہ سے احرام باندھا تھا جب کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس وقت یمن کی جانب موجود تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مکّہ مکرّمہ پہنچ کر آپ سے معلوم ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حج کی نیت سے احرام باندھا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اسی احرام کو درست قرار دیدیا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت پر احرام باندھا تھا حلانکہ احرام باندھے وقت انہیں معلوم نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج، عمرے یا ان دونوں کی نیت سے احرام باندھا ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا قصّہ بھی اس مسئلے کے متعلق ہے۔ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جب کہ آپ بطحاء میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا تھا: تم نے بہت اچھا کیا ہے (کہ اپنی قربانی ساتھ نہیں لائے اس لئے عمرہ ادا کرکے احرام کھول لو) لیکن آخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مختلف حُکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا کہ وہ اپنے احرام میں پابند رہیں کیونکہ ان کے پاس قربانی کا جانور موجود تھا۔ لہٰذا انہیں (10 ذوالحجہ کو) قربانی کا جانور اپنی جگہ پہنچنے تک احرام کھولنے کی اجازت نہ تھی۔ اور آپ نے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو عمرہ کرکے احرام کھولنے کا حُکم دیا کیونکہ ان کے پاس قربانی کا جانور موجود نہیں تھا۔ میں نے یہ مسئلہ کتاب الکبیر میں بیان کر دیا ہے۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.