كِتَابُ: الْمَنَاسِكِ حج کے احکام و مسائل 1836. (95) بَابُ إِبَاحَةِ الْإِحْرَامِ مِنْ غَيْرِ تَسْمِيَةِ حَجٍّ وَلَا عَمْرَةٍ، وَمِنْ غَيْرِ قَصْدِ نِيَّةٍ وَاحِدٍ بِعَيْنِهِ عِنْدَ ابْتِدَاءِ الْإِحْرَامِ حج یا عمرے کا نام لئے بغیر بھی احرام باندھنا جائز ہے اور احرام کی ابتداء میں ان دونوں میں سے کسی ایک کی تعین کی نیت و ارادہ کیے بغیر بھی احرام باندھںا درست ہے
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کی نیت سے (مدینہ منوّرہ سے) نکلے حتّیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے (طواف کیا) اور مقام ابراہیم کے پاس دو رکعات ادا کیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم بھی (سعی کی) ابتداء اسی سے کریںگے جس سے اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں) ابتداء کی ہے۔“ لہٰذا آپ نے صفا پہاڑی سے (سعی کی) ابتدء کی۔ حتّیٰ کہ آخری ساتواں چکّر مروہ پہاڑی پر پہنچ کر ختم کیا اور سعی سے فارغ ہو گئے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یمن سے آپ کے لئے جانور لیکر حاضر ہوگئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم نے احرام باندھتے وقت کیا نیت کی تھی۔ (کس حج کا تلبیہ پکارا تھا)“ انہوں نے عرض کی کہ میں نے کہا تھا کہ اے اللہ، میں بھی اسی نیت سے احرام باندھتا ہوں جس نیت سے تیرے رسول نے احرام باندھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ بیشک میں نے حج کا احرام باندھا ہے۔“ پھر جناب دورقی نے بقیہ حدیث بیا ن کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کی طرح احرام باندھا حالانکہ احرام باندھتے وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حج کی نیت کرکے احرام باندھا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ کے راستے میں آنے والے میقات ذوالحلیفہ سے احرام باندھا تھا جب کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس وقت یمن کی جانب موجود تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مکّہ مکرّمہ پہنچ کر آپ سے معلوم ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حج کی نیت سے احرام باندھا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اسی احرام کو درست قرار دیدیا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت پر احرام باندھا تھا حلانکہ احرام باندھے وقت انہیں معلوم نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج، عمرے یا ان دونوں کی نیت سے احرام باندھا ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا قصّہ بھی اس مسئلے کے متعلق ہے۔ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جب کہ آپ بطحاء میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا تھا: ”تم نے بہت اچھا کیا ہے (کہ اپنی قربانی ساتھ نہیں لائے اس لئے عمرہ ادا کرکے احرام کھول لو) لیکن آخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مختلف حُکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا کہ وہ اپنے احرام میں پابند رہیں کیونکہ ان کے پاس قربانی کا جانور موجود تھا۔ لہٰذا انہیں (10 ذوالحجہ کو) قربانی کا جانور اپنی جگہ پہنچنے تک احرام کھولنے کی اجازت نہ تھی۔ اور آپ نے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو عمرہ کرکے احرام کھولنے کا حُکم دیا کیونکہ ان کے پاس قربانی کا جانور موجود نہیں تھا۔ میں نے یہ مسئلہ کتاب الکبیر میں بیان کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
|