كِتَاب الْعِلْمِ علم کا بیان اہل علم کی فضیلت
کثیر بن قیس بیان کرتے ہیں، میں سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور اس نے کہا: ابودرداء! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر سے ایک حدیث کی خاطر تمہارے پاس آیا ہوں، مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (براہ راست) بیان کرتے ہیں۔ میں کسی اور کام کے لیے نہیں آیا، انہوں نے بیان کیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص طلب علم کے لیے سفر کرتا ہے تو اللہ اسے جنت کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے، فرشتے طالب علم کی رضامندی کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں، زمین و آسمان کی ہر چیز اور پانی کی گہرائی میں مچھلیاں طالب علم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں، بے شک عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو باقی ستاروں پر برتری ہے، بے شک علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ اور انبیاء علیہم السلام درہم و دینار نہیں چھوڑ کر جاتے بلکہ وہ تو صرف علم چھوڑ کر جاتے ہیں، پس جس نے اسے حاصل کر لیا اس نے وافر حصہ حاصل کر لیا۔ “ امام ترمذی نے راوی کا نام قیس بن کثیر ذکر کیا ہے۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابوداؤد ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے راوی کا نام قیس بن کثیر بتایا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه أحمد (5/ 196 ح 22058) والترمذي (2682 وقال: وليس إسناده عندي بمتصل.) و أبو داود (3641) و ابن ماجه (223) والدارمي (1/ 99 ح 349) [و ابن حبان، الموارد: 80] ٭ داود بن جميل و کثير بن قيس ضعيفان وللحديث شواهد ضعيفة و حديث مسلم (السابق: 204) يغني عنه.»
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد اور دوسرا عالم ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح میری فضیلت تمہارے ادنی آدمی پر ہے۔ “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ، اس کے فرشتے، زمین و آسمان کی مخلوق حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاں، لوگوں کو خیر و بھلائی کی تعلیم دینے والے کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«حسن، رواه الترمذي (2685 وقال: غريب) و له شواھد وھو بھا حسن.»
دارمی نے مکحول سے مرسل روایت بیان کی ہے۔ اور انہوں نے ”دو آدمیوں“ کا ذکر نہیں کیا اور انہوں (مکحول) نے کہا: عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح میری فضیلت تمہارے ادنی آدمی پر ہے۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی!”اس کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ “ اور پھر مکمل حدیث بیان کی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 88 ح 295) ٭ السند مرسل وله شواھد دون قوله: ’’ثم تلا ھذه الآية: ﴿و إنما يخشي الله من عباده العلماء﴾‘‘ فھو ضعيف والباقي حسن، انظر الحديث السابق (213) فائدة: قال رسول الله ﷺ لطالب العلم: مرحبًا بطالب العلم! إن طالب العلم لتحف به الملائکة و تظله بأجنحتھا و يرکب بعضھا بعضًا حتي يبلغوا السماء الدنيا من حبھم لما طلب. (الجرح والتعديل 13/2، وسنده حسن)»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک لوگ تمہارے تابع ہیں، کیونکہ لوگ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے زمین کے اطراف و اکناف سے تمہارے پاس آئیں گے، پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ خیر و بھلائی کے ساتھ پیش آنا۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا (بل موضوع)، رواه الترمذي (2650 و أشار إلٰي ضعفه من أجل أبي ھارون العبدي) [و رواه ابن ماجه: 249] ٭ أبو ھارون عمارة بن جوين ضعيف جدًا، متھم بالکذب.»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دانائی کی بات، دانا شخص کی گم شدہ چیز ہے، پس وہ اسے جہاں پائے تو وہاں وہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔ “ اس حدیث کوترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے، اور ابراہیم بن فضل راوی حدیث کے معاملے میں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2687) و ابن ماجه (4169) ٭ إبراهيم بن الفضل المخزومي: متروک. فائدة: وقال عبد الله بن عباس رضي الله عن: خذ الحکمة ممن سمعتھا فإن الرجل ينطق بالحکمة و ليس من أھلھا فتکون کالرمية خرجت من غير رام. (رواه الخرائطي في مساوئ الأخلاق: 390 وسنده حسن، باب ماجاء في سوء الجوار من الکراھة والذم)»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک فقیہ، شیطان پر، ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ “اس حدیث کو ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2681 وقال: غريب.) و ابن ماجه (222) ٭ روح بن جناح ضعفه الجمھور و اتھمه ابن حبان وغيره والجرح فيه مقدم.»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”طلب علم ہر مسلمان پر فرض ہے، کسی ایسے شخص کو، جو اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو، پڑھانے والا، خنزیروں کے گلے میں ہیرے جواہرات اور سونے کے ہار ڈالنے والے کی طرح ہے۔ “ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے جبکہ بیہقی نے ((مسلم)) تک شعب الایمان میں روایت کیا ہے، اور انہوں نے فرمایا: اس حدیث کا متن مشہور ہے جبکہ سند ضعیف ہے، اور یہ روایت متعدد طریق سے مروی ہے، لیکن وہ سب ضعیف ہیں۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا والحديث ضعيف، رواه ابن ماجه (224) والبيھقي في شعب الإيمان (1543) ٭ حفص بن سليمان: متروک، وللحديث طرق کثيرة نحو الخمسين و کلھا ضعيفة و صححه بعض الأئمة من أجل کثرة الطرق (!) والله أعلم. فائدة: و قال شعبة: رآني الأعمش يومًا و أنا أحدث، قال: ويحک أو ويلک يا شعبة! لا تعلق الدر في أعناق الخنازير (مسند علي بن الجعد: 812 وسنده صحيح) و قال الأعمش: انظروا لا تنثروا ھذه الدنانير علي الکنائس يعني الحديث (مسند علي بن الجعد: 764 وسنده صحيح) وقال: أبو داود الطيالسي: نا زائدة بن قدامة الثقفي... و کان لا يحدث قدريًا و لا صاحب بدعة يعرفه. (الجامع للخطيب 524/1 ح 758 وسنده صحيح)»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دو خصلتیں کسی منافق میں اکٹھی نہیں ہو سکتی، اچھے اخلاق اور دین میں سمجھ بوجھ۔ “ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه الترمذي (2684 وقال: غريب. لا أعرفه إلا من حديث خلف بن أيوب العامري.) ٭ خلف ھذا صدوق مبتدع، حدّث عن عوف و قيس بمناکير و للحديث شواھد ضعيفة عند ابن المبارک (الزھد: 459) وغيره.»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص طلب علم کے لیے سفر کرتا ہے تو وہ واپس آنے تک اللہ کی راہ میں رہتا ہے۔ “ اس حدیث کو ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2647 وقال: حسن غريب.) والدارمي (لم أجده) ٭ خالد بن يزيد و أبو جعفر الرازي و الربيع بن أنس: کلھم حسن الحديث في غير ما أنکر عليه و قال ابن حبان في ربيع بن أنس: ’’والناس يتقون حديثه ما کان من رواية [أبي] جعفر عنه لأن فيھا اضطراب کثير‘‘ (کتاب الثقات 4/ 228) فالجرح خاص والخاص مقدم علي العام. فائدة: و روي الحاکم في المستدرک من حديث أبي ھريرة عن النبي ﷺ قال: من جاء مسجدنا ھذا يتعلم خيرًا أو يعلمه فھو کالمجاھد في سبيل الله... (1/ 91 ح 309) وسنده حسن.»
سیدنا سخرہ ازدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص علم حاصل کرتا ہے تو یہ اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس روایت میں ابوداود راوی ضعیف ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا موضوع، رواه الترمذي (2648 وقال: ھذا حديث ضعيف الإسناد.) والدارمي (1/ 139 ح 567) ٭ أبو داود الأعمي: نفيع کذاب، و محمد بن حميد الرازي ضعيف جدًا علي الراجح ضعفه الجمھور.» |