مشكوة المصابيح
كِتَاب الْعِلْمِ
علم کا بیان
اہل علم کی فضیلت
حدیث نمبر: 215
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرْضِ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ فَإِذَا أَتَوْكُمْ فَاسْتَوْصُوا بهم خيرا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک لوگ تمہارے تابع ہیں، کیونکہ لوگ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے زمین کے اطراف و اکناف سے تمہارے پاس آئیں گے، پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ خیر و بھلائی کے ساتھ پیش آنا۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا (بل موضوع)، رواه الترمذي (2650 و أشار إلٰي ضعفه من أجل أبي ھارون العبدي) [و رواه ابن ماجه: 249]
٭ أبو ھارون عمارة بن جوين ضعيف جدًا، متھم بالکذب.»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا (بل موضوع)
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 215 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 215
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند سخت ضعیف (بلکہ موضوع) ہے۔
◄ اس روایت کا راوی ابوہارون عمارہ بن جوین العبدی سخت ضعیف و مجروح تھا۔
◄ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا:
«كانت عنده صحيحفة، يقول: هذه (صحيفة) الوصي. و كان عندهم لا يصدق فى حديثه.»
”اس کے پاس ایک صحیفہ تھا، وہ کہتا تھا: یہ وصی کا صحیفہ ہے۔ اور وہ ان (محدثین) کے نزدیک اپنی حدیث میں سچا نہیں تھا۔“ [تاريخ ابن معين، روايت عباس الدوري: 3524، الجرح والتعديل لابن ابي حاتم 6؍364 وسنده صحيح، والزيادة منه]
◄ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کی گواہی سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔
➊ ابوہارون العبدی کذاب (جھوٹا) تھا۔
➋ ابوہارون العبدی کٹر شیعہ (رافضی) تھا۔ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وصی سمجھتا تھا یعنی اس کا یہ عقیدہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت کی وصیت کر دی تھی، حالانکہ یہ عقیدہ بالکل باطل اور مردود ہے۔
◄ امام ابن معین نے مزید فرمایا:
«أبوهارون العبدي غير ثقة، يكذب واسمه عمارة بن جوين»
”ابوہارون العبدی غیر ثقہ (تھا) جھوٹ بولتا تھا اور اس کا نام عمارہ بن جوین تھا۔“ [سوالات ابن الجنيد: 1]
◄ امام حماد بن زید رحمہ اللہ نے فرمایا:
”ابوہارون العبدی کذاب تھا، وہ صبح کو ایک چیز روایت کرتا اور شام کو دوسری چیز روایت کرتا تھا۔“ [كتاب الجرح والتعديل 6؍364 وسنده حسن]
یعنی وہ متناقض اور متعارض روایتیں بیان کرتا تھا جو کہ اس کے کذاب ہونے کی ایک بڑی دلیل ہے۔
◄ حافظ ابن حبان نے کہا:
«كان رافضيا، يروي عن أبى سعيد ما ليس من حديثه، لا يحل كتابة حديثه إلا علىٰ جهة التعجب.»
وہ رافضی تھا، ابوسعید (الخدری رضی اللہ عنہ) سے ایسی حدیثیں بیان کرتا جو ان کی (بیان کردہ) حدیثیں نہیں تھیں، اس کی حدیث لکھنا حلال نہیں، اِلا یہ کہ بطور تعجب ہو۔ [كتاب المجروحين 2؍177، دوسرا نسخه 2؍168]
◄ تفصیلی جرح کے لئے اہل سنت کی مشہور کتب المجروحین کی طرف رجوع کریں۔ مختصراً عرض ہے کہ ابوہارون مذکور سخت مجروح، متروک اور کذاب تھا۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 215
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث247
´طالبان علم کی وصیت۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تمہارے پاس کچھ لوگ علم حاصل کرنے آئیں گے، لہٰذا جب تم ان کو دیکھو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق انہیں «مرحبا» (خوش آمدید) کہو، اور انہیں علم سکھاؤ۔“ محمد بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے حکم سے پوچھا کہ «اقنوهم» کے کیا معنی ہیں، تو انہوں نے کہا: «علموهم»، یعنی انہیں علم سکھلاؤ۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 247]
اردو حاشہ:
(1)
یہ روایت بعض محققین کے نزدیک حسن ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے (الصحیحة، حدیث: 280)
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث نبوی وہ علم ہے جو انتہائی توجہ اور شوق سے حاصل کیے جانے کے لائق ہے۔
صحابہ کرام ؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ علم حاصل کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خوش خبری دی کہ ان سے بھی یہ علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز سے لوگ آئیں گے۔
چنانچہ ہر دور میں مسلمان اس مبارک علم کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
(3)
مبارک باد کے لائق ہیں وہ طالبان علوم نبوی جنہیں خوش آمدید کہنے کی وصیت خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے، دوسرے علوم و فنون کو یہ شرف حاصل نہیں اگرچہ ان کا سیکھنا بھی مسلمان معاشرے کی ضرورت ہے۔
(4)
علمائے دین کو چاہیے کہ طلبہ سے شفقت و محبت کا اظہار کریں اور انہیں دینی علوم کے شرف اور مقام و مرتبہ سے آگاہ کریں تاکہ طلبہ توجہ اور محنت سے یہ علم حاصل کریں اور اس سے راستے میں آنے والی مشکلات کو صبر و حوصلہ سے برداشت کریں۔
(5)
اُقْنُوهُمْ، (انہیں قابل ذخیرہ چیز دو)
کا لفظ قنیة سے ماخوذ ہے اور قنیة اس چیز کو کہتے ہیں جسے جمع کیا جائے اور سنبھال کر رکھا جائے۔
علم بھی ایسی چیز ہے جسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور پھر اسے یاد رکھا جانا چاہیے۔
لکھ کر، دہرائی اور مذاکرہ کے ذریعے سے اسے ذہن نشین کرنا اور سمجھنا چاہیے تاکہ وہ محفوظ رہے اور فراموش ہو کر ضائع نہ ہو جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 247
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2650
´علم (دین) حاصل کرنے والوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا بیان۔`
ابوہارون کہتے ہیں کہ ہم ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے پاس (علم دین حاصل کرنے کے لیے) آتے، تو وہ کہتے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق تمہیں خوش آمدید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ تمہارے پیچھے ہیں ۱؎ کچھ لوگ تمہارے پاس زمین کے گوشہ گوشہ سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے تو جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔“ [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2650]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی لوگ تمہارے افعال واقوال کے تابع ہیں،
چونکہ تم نے مجھ سے مکارم اخلاق کی تعلیم حاصل کی ہے،
اس لیے تمہارے بعد آنے والے تمہارے مطیع و پیروکار ہوں گے اس لیے ان کی دلجوئی کرتے ہوئے ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔
نوٹ:
(سند میں ابوہارون العیدی عمارۃ بن جوین مشہور کذابین میں سے ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2650