كِتَاب الْعِلْمِ علم کا بیان علم اور علماء کے فضائل
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رات کی ایک گھڑی کی درس و تدریس رات بھر عبادت کرنے سے بہتر ہے۔ اس حدیث کو دارمی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 149 ح 620) ٭ السند منقطع، ابن جريج لم يدرک ابن عباس، و حفص بن غياث مدلس و عنعن.»
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں دو حلقوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”دونوں خیرو بھلائی پر ہیں، لیکن ان میں ایک دوسرے سے افضل ہے، رہے وہ لوگ جو اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس کے مشتاق ہیں، پس اگر وہ چاہے تو انہیں عطا فرمائے اور اگر چاہے تو عطا نہ فرمائے، اور رہے وہ لوگ جو فقہ یا علم سیکھ رہے ہیں اور جاہلوں کو تعلیم دے رہے ہیں، تو وہ بہتر ہیں، اور مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ “ پھر آپ اس حلقے میں بیٹھ گئے۔ اس حدیث کو دارمی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 99، 100 ح 355) ٭ عبد الرحمٰن بن زياد و عبد الرحمٰن بن رافع ضعيفان تقدما (239) وقال رسول الله ﷺ: إن الله تعالي لم يبعثني معنتًا و لا متعنتًا ولکن بعثني معلمًا ميسرًا. (رواه مسلم: 1478، دارالسلام: 3690)»
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ سے دریافت کیا گیا کہ علم کی وہ کیا حد ہے جہاں پہنچ کر انسان فقیہ بن جاتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے امور دین کے متعلق چالیس احادیث یاد کیں اور انہیں آگے امت تک پہنچایا تو اللہ اسے فقیہ کی حیثیت سے اٹھائے گا اور روز قیامت میں اس کے حق میں شفاعت کروں گا اور گواہی دوں گا۔ “ اس حدیث کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (1726 و سنده موضوع) ٭ نوح بن ذکوان ضعيف و أخوه أيوب: منکر الحديث، والحسن البصري عنعن، و عبد الملک بن ھارون بن عنترة کذاب و للحديث طرق کثيرة کلھا ضعيفة.»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو سب سے بڑا سخی کون ہے؟“ صحابہ نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سب سے بڑا سخی ہے، پھر اولاد آدم میں سب سے بڑا سخی میں ہوں، اور میرے بعد وہ شخص سخی ہے جس نے علم حاصل کیا اور اسے فروغ دیا، روز قیامت وہ اس حیثیت سے آئے گا کہ وہ اکیلا ہی امیر ہو گا۔ “ یا فرمایا: ”اکیلا ہی ایک امت ہو گا۔ “ اس حدیث کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (1767) ٭ فيه سويد بن عبد العزيز: ضعفه الجمھور، و نوح بن ذکوان ضعيف و أيوب بن ذکوان مجروح منکر الحديث.»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دو قسم کے بھوکے حریص لوگ کبھی سیر نہیں ہوتے، علم کا حریص شخص کبھی علم سے سیر نہیں ہوتا اور دنیا کا حریص کبھی دنیا سے سیر نہیں ہوتا۔ “ بیہقی نے یہ تینوں احادیث شعب الایمان میں بیان کی ہیں۔ اور امام احمد نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے بارے میں فرمایا: اس حدیث کا متن تو لوگوں میں مشہور ہے، لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10279، نسخة محققة: 9798، و في المدخل: 50) [و ابن عدي في الکامل (2298/6) و عنه ابن الجوزي في العلل المتناھية (113) و في سنده: محمد بن أحمد بن يزيد مجروح.] ٭ فيه أبو الفضل العباس بن الحسين بن أحمد الصفار لم أجد و حميد الطويل مدلس و عنعن و سقط ذکره من شعب الإيمان و للحديث شواھد ضعيفة عند الحاکم (1/ 92) و أبي خيثمة في العلم (141) وغيرهما. وقال کعب الأحبار لأبي ھريرة رضي الله عنه: أما إنک لم تجد أحدًا يطلب شيئًا ألا يشبع منه يومًا من الدھر إلا طالب علم و طلب دنيا. (رواه الحاکم 92/1 ح 313 وسنده صحيح) تعديلات [260]: سنده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10279، وسقط منه ذکر حميد الطويل، نسخة محققة: 9798، و في المدخل: 50) [و ابن عدي في الکامل (2298/6) و عنه ابن الجوزي في العلل المتناھية (113) و في سنده: محمد بن أحمد بن يزيد مجروح.] ٭ فيه أبو الفضل العباس بن الحسين بن أحمد الصفار لم أجده و للحديث شواھد ضعيفة عند الحاکم (1/ 92) و أبي خيثمة في العلم (141) وغيرهما.»
عون رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”دو بھوکے حریص لوگ سیر نہیں ہوتے صاحب علم اور صاحب دنیا، اور یہ دونوں برابر بھی نہیں ہو سکتے، رہا صاحب علم تو وہ رحمان کی رضا مندی میں بڑھتا چلا جاتا ہے، اور رہا صاحب دنیا تو وہ سرکشی میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”ہاں بلاشبہ انسان سرکش ہو جاتا ہے، جب وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، انہوں نے دوسرے کے لیے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”بات صرف یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے علما ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ “ اس حدیث کو دارمی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 96 ح 339) ٭ عون بن عبد الله بن عتبة بن مسعود لم يسمع من ابن مسعود رضي الله عنه فالسند منقطع.» |