وعن انس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طلب العلم فريضة على كل مسلم وواضع العلم عند غير اهله كمقلد الخنازير الجوهر واللؤلؤ والذهب» . رواه ابن ماجه وروى البيهقي في شعب الإيمان إلى قوله مسلم. وقال: هذا حديث متنه مشهور وإسناده ضعيف وقد روي من اوجه كلها ضعيف وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غير أَهله كمقلد الْخَنَازِير الْجَوْهَر واللؤلؤ وَالذَّهَبَ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ إِلَى قَوْلِهِ مُسْلِمٍ. وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ مَتْنُهُ مَشْهُورٌ وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ وَقَدْ رُوِيَ من أوجه كلهَا ضَعِيف
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”طلب علم ہر مسلمان پر فرض ہے، کسی ایسے شخص کو، جو اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو، پڑھانے والا، خنزیروں کے گلے میں ہیرے جواہرات اور سونے کے ہار ڈالنے والے کی طرح ہے۔ “ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے جبکہ بیہقی نے ((مسلم)) تک شعب الایمان میں روایت کیا ہے، اور انہوں نے فرمایا: اس حدیث کا متن مشہور ہے جبکہ سند ضعیف ہے، اور یہ روایت متعدد طریق سے مروی ہے، لیکن وہ سب ضعیف ہیں۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا والحديث ضعيف، رواه ابن ماجه (224) والبيھقي في شعب الإيمان (1543) ٭ حفص بن سليمان: متروک، وللحديث طرق کثيرة نحو الخمسين و کلھا ضعيفة و صححه بعض الأئمة من أجل کثرة الطرق (!) والله أعلم. فائدة: و قال شعبة: رآني الأعمش يومًا و أنا أحدث، قال: ويحک أو ويلک يا شعبة! لا تعلق الدر في أعناق الخنازير (مسند علي بن الجعد: 812 وسنده صحيح) و قال الأعمش: انظروا لا تنثروا ھذه الدنانير علي الکنائس يعني الحديث (مسند علي بن الجعد: 764 وسنده صحيح) وقال: أبو داود الطيالسي: نا زائدة بن قدامة الثقفي... و کان لا يحدث قدريًا و لا صاحب بدعة يعرفه. (الجامع للخطيب 524/1 ح 758 وسنده صحيح)»
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا والحديث ضعيف
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 218
تحقيق الحديث: اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔ ◄ اس کا راوی قاری ابوعمر حفص بن سلیمان الاسدی البزاز الکوفی: حفص بن ابی داود صاحب عاصم روایت حدیث میں سخت ضعیف و مجروح تھا۔ ◄ ابوحاتم الرازی نے کہا: ”وہ ضعیف الحدیث ہے، سچ نہیں بولتا، متروک الحدیث ہے۔“[كتاب الجرح والتعديل 3؍174] ◄ امام مسلم نے کہا: «متروك الحديث» ۔ [كتاب الكنيٰ قلمي ص71؍147] ◄ امام بخاری نے فرمایا: «تركوه»”یعنی محدثین نے اسے متروک قرار دیا ہے۔“[كتاب الضعفاء: 73] ◄ قاری حفص بن ابی داود پر جمہور محدثین نے جرح کی اور ان کے بارے میں اعدل الاقوال درج ذیل ہے: «متروك فى الحديث، ثقة فى القرآن» ”وہ حدیث میں متروک اور قرآن (کی روایت) میں ثقہ تھے۔“ دیکھئے: [تحفة الاقوياء ص29] ◄ حافظ ابن حجر العسقلانی نے کہا: «متروك الحديث مع إمامته فى القراءة.» ”وہ قرأت میں امام ہونے کے باوجود حدیث میں متروک ہے۔“[تقريب التهذيب:1405]
فائدہ: «طلب العلم فريضة عليٰ كل مسلم» والی روایات کی مفصل تخریج شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: [تخريج أحاديث مشكلة الفقر وكيف عالجها الإسلام ص 48۔ 62 ح86] میں کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے لیکن اس کی تمام سندیں ضعیف و مردود ہی ہیں۔ مثلاً: ➊ [تاريخ دمشق لابن عساكر 58؍144، دوسرا نسخه 15؍1461/ 1]، [امالي ابن سمعون 23] اور [مشيخة الآبنوسي 154] والی روایت میں ابوعلی محمد بن محمد بن ابی حذیفہ قاسم کی توثیق نامعلوم ہے، قتادۃ مشہور مدلس تھے اور روایت (ان تک بشرط صحت) «عن» سے ہے۔ ◄ شیخ البانی رحمہ اللہ کو اس سند کے ایک راوی أحمد بن محمد بن ابی الخناجر کے حالات نہیں ملے، حالانکہ ان کا تذکرہ کتاب الجرح والتعدیل [2؍73] سیر اعلام النبلاء [13؍240] اور المستدرک للحاکم [4؍399 ح8207 وقال ابن صاعد: وكان ثقة مأمونًا] میں موجود ہے اور وہ ثقہ وصدوق تھے۔ ➋ [المعجم الصغير للطبراني 1؍16 ح22 بترقيمي، دوسرا نسخه ص6] والی روایت میں حکم بن عطیہ جمہور کے نزدیک ضعیف ديكهئے: [سنن الترمذي بتحقيقي: 3668] عباس بن اسماعیل الہاشمی مجہول الحال «وثقه ابن حبان وحده بتوثيق لين» اور أحمد بن بشر بن حبیب البیروتی کی توثیق نامعلوم ہے۔ ➌ الفواید لتمام الرازی [مخطوط ص9ب، مطبوع 1؍32 ح56، دوسرا نسخه 8؍2] والی روایت میں ابوبکر بن ابی شیبہ محمد بن أحمد البغدادی کی توثیق اور حالات نامعلوم ہیں۔ ◄ أحمد بن محمد بن شبیب بن زیاد ابوبکر بن ابی شیبہ ثقہ تھے، لیکن الفوائد کی روایت میں أحمد بن محمد نہیں بلکہ محمد بن أحمد ہے اور معلوم نہیں کہ شیخ البانی نے کس دلیل سے محمد بن أحمد کو أحمد بن محمد بنا ڈالا؟ ➍ عائذ بن ایوب طوسی مجہول اور اسماعیل بن ابی خالد مدلس والی روایت بھی ضعیف ہے۔ ↰ خلاصہ یہ کہ طلب العلم فریضہ والی روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف و مردود ہے۔ بیہقی نے «اطلبو العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة عليٰ كل مسلم» کے بارے میں کہا: «هذا حديث متنه مشهور وأسانيده ضعيفة. لا أعرف له إسنادا يثبت بمثله الحديث. والله أعلم» اس حدیث کا متن مشہور ہے اور اس کی سندیں ضعیف ہیں۔ مجھے اس کی کوئی ایسی سند معلوم نہیں جس سے یہ حدیث ثابت ہوتی ہو۔ «والله اعلم»[المدخل الي السنن الكبريٰ: 325] ◄ جبکہ ابوعلی الحسین بن علی الحافظ النیسابوری رحمہ اللہ اس حدیث کو صحیح سمجھتے تھے، لیکن راجح یہی ہے کہ یہ روایت غیر ثابت اور ضعیف ہے۔ «والله اعلم»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث224
´علماء کے فضائل و مناقب اور طلب علم کی ترغیب و تشویق۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اور نااہلوں و ناقدروں کو علم سکھانے والا سور کے گلے میں جواہر، موتی اور سونے کا ہار پہنانے والے کی طرح ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 224]
اردو حاشہ: (1) ہر مسلمان سے مراد مرد اور عورتیں سبھی ہیں کیونکہ شریعت کے احکام پر عمل کرنا مردوں اور عورتوں سبھی پر فرض ہے، لہذا انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کیا جائز ہے کیا ناجائز۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں سب کو دین سکھایا اور اس کے مسائل بتائے۔
(2) یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن اس کا پہلا حصہ (طلب علم کی فرضیت) معناً صحیح ہے، یعنی احکام شریعت کا ضروری علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 224