من كتاب الصوم روزے کے مسائل 56. باب في لَيْلَةِ الْقَدْرِ: شب قدر کا بیان
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لئے باہر تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے پاس آ رہا تھا شب قدر کی تم کو خبر دینا چاہتا تھا کہ فلاں اور فلاں کے درمیان جھگڑا ہو گیا (سو میں بھول گیا وہ کونسی رات ہے) پس وہ بات اٹھا لی گئی اور شاید اس میں بہتری ہی ہے، پس اب تم اس کی تلاش آخری عشرے کی پانچویں ساتویں یا نویں رات کو کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1822]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2023]، [ابن حبان 3679]، [ابن ابي شيبه 514/2]، [التمهيد 200/2] وضاحت:
(تشریح حدیث 1818) یعنی شبِ قدر کو پانے کے لئے ان مذکورہ راتوں (25، 27، 29) میں قیام و عبادت کریں جس کا ثواب ہزار مہینے کی راتوں سے بہتر ہے، جس میں رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور خیر و برکت لے کر آتے ہیں، اور جس رات میں سال بھر کے فیصلے اللہ تعالیٰ صادر فرماتا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: «سورة الدخان: 3-6» اور «سورة القدر» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی لیکن میری کسی بیوی نے مجھے بیدار کر دیا لہٰذا میں بھول گیا (کہ وہ کون سی رات ہے) سو تم رمضان کے آخری عشرے میں اسے تلاش کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1823]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن صحیح سند سے یہی حدیث موجود ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1166]، [أبويعلی 5972]، [ابن حبان 3678] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب قدر کو آخری سات راتوں میں تلاش کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1824]»
اس روایت کی سند ضعیف لیکن حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2015]، [مسلم 1165]، [أبويعلی 5419]، [ابن حبان 3675]، [الحميدي 647]، [ابن الجارود فى الملتقى 405] وضاحت:
(تشریح احادیث 1819 سے 1821) ليلۃ القدر کی فضیلت کا بیان اوپر گذر چکا ہے، علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کون سی رات ہے؟ مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ آخری عشرے میں ہے یا کم از کم آخری سات راتوں میں ہے اور صحیح یہ ہے کہ پورے عشرے شب بیداری اور عبادت کرنی چاہے، کچھ علماء کرام یہ بھی کہتے ہیں کہ طاق راتوں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے، اور شبِ قدر ہر سال ہوتی ہے اور کبھی کسی معین دن یا تاریخ میں نہیں ہوتی بلکہ بدلتی رہتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ستائیسویں رات کو شبِ قدر ہوئی جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نشانیاں بتائی تھیں کہ رات بارش ہوگی، شہابِ ثاقب اس رات میں نہ دیکھے جائیں گے، اور سورج کی شعاعوں میں تیز ی و تمازت نہ ہوگی۔ بعض لوگ اس رات کو شعبان کی پندرہویں رات سمجھتے ہیں جو دلائل و حقائق کے قطعاً خلاف ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
|