من كتاب الصوم روزے کے مسائل 21. باب الرُّخْصَةِ في الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ: روزے دار کے لئے بیوی کے بوسہ لینے کی اجازت کا بیان
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے، عروہ نے کہا: لیکن یہ بوسہ (روزے کی حالت میں) کوئی اچھی بات نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1763]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1928]، [مسلم 1106]، [أبوداؤد 2382]، [ترمذي 727]، [ابن ماجه 1683]، [أبويعلی 4428]، [ابن حبان 537، 3539]، [الحميدي 198، 199] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں ان کا بوسہ لے لیا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1764]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے سرور میں آ کر روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ: آج میں نے بہت بڑا جرم کیا، میں روزے سے تھا اور بوسہ لے لیا؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم روزے میں پانی سے کلی کر لو تو کیا خیال ہے؟“ میں نے کہا: اس میں تو کوئی حرج نہیں، فرمایا: ”پھر اس میں کیوں (حرج) ہونے لگا۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1765]»
مذکورہ بالا حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2385]، [ترمذي 727]، [ابن حبان 3544]، [موارد الظمآن 905]، [المحلی 209/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 1759 سے 1762) سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہ اتنے جلیل القدر صحابی ایک معمولی سی حرکت ان سے سرزد ہوئی لیکن مواخذے کا اتنا شدید خوف کہ گھبرائے ہوئے محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، ماجرا سنایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمالِ شفقت و محبت سے مثال دیکر سمجھایا کہ جس طرح کلی کرنے سے روزے میں خلل نہیں پڑا، بوس و کنار سے بھی کوئی خلل نہیں، اس طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی پریشانی دور ہو کر انہیں تسلی ہوئی۔ شریعت ایک آسان و جامع قانون کا نام ہے جس کا زندگی کے ہر ہر گوشے سے تعلق ضروری ہے، میاں بیوی کا تعلق جو بھی ہے ظاہر ہے اس لئے حالتِ روزہ میں اپنی بیوی کے ساتھ بوس و کنار جائز رکھا گیا ہے بشرطیکہ روزہ رکھنے والے کو اپنی طبیعت پر پورا قابو حاصل ہو (جیسا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے: «كَانَ أَمْلَكُكُمْ لِإِرْبِهِ» یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش کو کنٹرول میں رکھنے پر تم سے زیادہ اختیار رکھتے تھے)۔ اسی لئے (کچھ علماء نے کہا) جوانوں کے واسطے بوس و کنار کی اجازت نہیں، ان کا نفس غالب رہتا ہے، ہاں یہ خوف نہ ہو تو جائز ہے (مولانا راز رحمۃ اللہ علیہ)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
|