من كتاب الصوم روزے کے مسائل 14. باب النَّهْيِ عَنِ الْوِصَالِ في الصَّوْمِ: روزے میں وصال کی ممانعت کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ وصال سے بچو“، لوگوں نے عرض کیا: آپ تو وصال کرتے ہیں؟ فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں، رات میں مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1745]»
اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1965]، [مسلم 1103]، [ترمذي 778]، [أبويعلی 6088]، [ابن حبان 3575]، [مسند الحميدي 1039] وضاحت:
(تشریح حدیث 1740) وصال کے معنی ملانے یا جوڑنے کے ہیں اور روزے کا وصال یہ ہے کہ دو دن یا چند ایام مسلسل روزے سے رہے اور رات دن میں کبھی افطار نہ کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت میں بہت سی احادیث آئی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً روزے میں وصال سے منع فرمایا ہے، نہیٰ کی ان احادیث کو بعض علماء نے نہیٰ تحریمی پر اور بعض نے نہیٰ تنزیہی پر محمول کیا ہے، مذکور بالا حدیث میں بھی وصال سے بچنے کا حکم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وصال کرتے تھے جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر ہے کہ میں تمہاری طرح سے نہیں ہوں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزے میں وصال نہ کرو“، عرض کیا گیا: آپ تو ایسا کرتے ہیں؟ فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کے مثل نہیں ہوں، مجھے تو کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1746]»
اس روایت کی سند صحیح اورمتفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1961]، [مسلم 1104]، [أبويعلی 2874]، [ابن حبان 3574] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”مسلسل بلا افطار و سحری کے روزہ نہ رکھو، ہاں اگر کوئی ایسا کرنا ہی چاہے تو وہ سحری کے وقت تک وصال کر سکتا ہے“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: آپ تو وصال کرتے ہیں، فرمایا: ”میں رات اس طرح گزارتا ہوں کہ ایک کھلانے والا مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف: عبد الله بن صالح سيئ الحفظ جدا غير أن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1747]»
اس روایت کی سند میں عبدالله بن صالح «سيئ الحفظ جدا» ہیں لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1963]، [أبوداؤد 2361]، [أبويعلی 1133، 1407]، [ابن حبان 3577، 3578] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف: عبد الله بن صالح سيئ الحفظ جدا غير أن الحديث صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال صوم (مسلسل کئی دن تک بنا افطار و سحری کے روزہ رکھنے) سے منع فرمایا، اس پر مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ تو وصال کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں، مجھے تو رات میں میرا رب کھلاتا پلاتا ہے۔“ لوگ اس پر بھی جب وصال صوم سے نہ رکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ دو دن تک وصال کیا، پھر عید کا چاند نکل آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”اگر چاند دکھائی نہ دیتا تو میں کئی اور دن وصال کرتا“، گویا جب وصال صوم سے صحابہ کرام نہ رکے تو آپ نے سزا کے طور پر یہ کہا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف كسابقه ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1748]»
اگلی روایت کی طرح اس کی سند بھی ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1965]، [مسلم 1103] وضاحت:
(تشریح احادیث 1741 سے 1744) ان تمام احادیث سے روزے میں وصال کی ممانعت ثابت ہوتی ہے یعنی بنا افطار و سحری کے پے درپے روزے رکھنا منع ہے کیونکہ اس میں مشقت ہے، اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ان پر عمل کرنے میں رحمت و برکت ہے، آدمی سحری کرے، بارہ گھنٹے یا کم و بیش اوقات میں افطار کرے تو صحت و قوت باقی رہے گی اور روزے دار مشقت و پریشانی میں نہ پڑے گا۔ اس نہی عن الوصال کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، بعض علماء نے کہا یہ نہی تحریمی ہے بعض نے کہا نہی تنزیہی ہے اور بعض علماء نے بیچ کا راستہ اختیار کیا کہ جس پر وصال شاق ہو تو اس پر حرام اور اگر شاق نہ ہو تو وصال اس کے لئے جائز ہے، ایک حدیثِ صحیح میں ہے کہ اگر کوئی روزے میں وصال کرنا ہی چاہے تو صرف سحری تک وصال کرے۔ نیز اس حدیث میں: ”میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے“ سے مراد بہشت کا حقیقی طعام و شراب بھی ہو سکتا ہے اور روحانی غذا بھی ہو سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو الله تعالیٰ نے اتنی قوت دی کہ کھانے پینے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف كسابقه ولكن الحديث متفق عليه
|