سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب قدر کو آخری سات راتوں میں تلاش کرو۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 1819 سے 1821) ليلۃ القدر کی فضیلت کا بیان اوپر گذر چکا ہے، علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کون سی رات ہے؟ مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ آخری عشرے میں ہے یا کم از کم آخری سات راتوں میں ہے اور صحیح یہ ہے کہ پورے عشرے شب بیداری اور عبادت کرنی چاہے، کچھ علماء کرام یہ بھی کہتے ہیں کہ طاق راتوں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے، اور شبِ قدر ہر سال ہوتی ہے اور کبھی کسی معین دن یا تاریخ میں نہیں ہوتی بلکہ بدلتی رہتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ستائیسویں رات کو شبِ قدر ہوئی جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نشانیاں بتائی تھیں کہ رات بارش ہوگی، شہابِ ثاقب اس رات میں نہ دیکھے جائیں گے، اور سورج کی شعاعوں میں تیز ی و تمازت نہ ہوگی۔ بعض لوگ اس رات کو شعبان کی پندرہویں رات سمجھتے ہیں جو دلائل و حقائق کے قطعاً خلاف ہے۔ واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1824]» اس روایت کی سند ضعیف لیکن حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2015]، [مسلم 1165]، [أبويعلی 5419]، [ابن حبان 3675]، [الحميدي 647]، [ابن الجارود فى الملتقى 405]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه