من كتاب الصوم روزے کے مسائل 22. باب فِيمَنْ يُصْبِحُ جُنُباً وَهُوَ يُرِيدُ الصَّوْمَ: جس شخص کا روزے کا ارادہ ہو اور جنابت کی حالت میں صبح ہو جائے
ام المومنین سیدہ ام سلمہ اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جماع کے سبب جنابت کی حالت میں بھی صبح ہو جاتی، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھ لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1766]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1926]، [مسلم 1109]، [أبويعلی 4427]، [ابن حبان 3487] وضاحت:
(تشریح حدیث 1762) پیغمبرِ اسلام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے سے امّت کے لئے آسانی ہوگئی، کوئی آدمی صبحِ صادق سے پہلے جماع کر لے اور غسل نہ کر سکے تو وہ اذان کے بعد بھی غسلِ جنابت کر سکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ بعض صحابہ کو اس امر میں تردد تھا لیکن جب امہات المومنین نے بتایا کہ سید الخلق صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح ہونے کے بعد غسلِ جنابت بھی کیا اور روزہ بھی رکھا ہے تو ان کا تردد ختم ہوگیا اور انہوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا اور اس پر اتفاق ہو گیا کہ جنبی صبح ہو جانے کے بعد بھی نہائے تو اس کا روزہ خواہ فرض ہو یا نفل صحیح ہوگا اور اس پر کوئی قضا بھی نہیں ہے۔ لیکن صبحِ صادق کے بعد غسل میں تاخیر مناسب نہیں کیوں کہ نمازِ فجر میں تاخیر ہوگی۔ (والله اعلم)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|