اخبرنا عمرو بن محمد، نا طلحة، عن عطاء، عن ابن عباس: ان ابا طالب کان یبعث صبیانه، ویبعث محمدا معهم وهم صبیان صغار، فینقلون له الحجارة لیصفه زمزم وعلٰی محمد صلی اللٰه علیه وسلم نمرة صغیرة یجعلها علٰی عنقهٖ، وحمل حجرین صغیرین.. فطرح عنه المجرین، واغمی علیه، فافاق فشد علیه نمرته، فقال له بنو عمهٖ: ما شأنك؟ قال: انی نهیت عن التعرٰی.اَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، نَا طَلْحَةُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: اَنَّ اَبَا طَالِبٍ کَانَ یَبْعَثُ صِبْیَانَهٗ، وَیَبْعُثُ مُحَمَّدًا مَعَهُمْ وَهُمْ صِبْیَانٌ صِغَارٌ، فَیَنْقُلُوْنَ لَهٗ الْحِجَارَةُ لِیَصْفه زَمْزَم وَعَلٰی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَمِرَةٌ صَغِیْرَةٌ یَجْعَلُهَا عَلٰی عُنُقِهٖ، وَحَمَلَ حَجَرَیْنِ صَغِیْرَیْنِ.. فَطَرَحَ عَنْهُ الْمَجَرَینِ، وَاُغْمِیَ عَلَیْهِ، فَاَفَاقَ فَشَدَّ عَلَیْهِ نَمِرَتَهٗ، فَقَالَ لَهٗ بَنُوْ عَمِّهٖ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: اِنِّی نُهِیْتُ عَنِ التَّعَرّٰی.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابوطالب اپنے بچوں کو بھیجا کرتے تھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ بھیجا کرتے تھے جبکہ وہ کم سن تھے، وہ ان کے لیے پتھر لایا کرتے تھے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سفید و سیاہ دھاریوں والی چھوٹی چادر تھی، وہ اسے اپنی گردن پر رکھ لیتے تھے، آپ نے دو چھوٹے پتھر اٹھائے، (دونوں پتھر آپ سے گر پڑے) آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پس جب ہوش میں آئے تو اپنی چادر باندھی، تو آپ کے چچا زادوں نے آپ سے کہا: آپ کو کیا ہوا؟ فرمایا: ”مجھے برہنہ ہونے سے منع کیا گیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف. وله شواهد فى الصحيحين وغيرهما انظر، بخاري، كتاب الحج، باب فضل مكة وبنيانها. مسلم، كتاب الحيض باب الاعتنا يحفظ العورة، رقم: 340. صحيح ابن حبان، رقم: 1603. مسند احمد: 395/3.»
اخبرنا عمرو بن محمد، نا طلحة، عن عطاء، عن ابن عباس ان محمدا کان یقوم عند الکعبة عند الصنم مع بنی عمهٖ وهم صبیان صغار، والصنم الذی یقال له اساف، فرفع محمد رأسه الی ظهر الکعبة، ثم انصرف فقال له بنو عمهٖ: ما شانك؟ فقال: نهیت ان اقوم عند الصنم.اَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، نَا طَلْحَةُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ مُحَمَّدًا کَانَ یَقُوْمُ عِنْدَ الْکَعْبَةِ عِنْدَ الصَّنَمِ مَعَ بَنِیْ عَمِّهٖ وَهُمْ صِبْیَانٌ صِغَارٌ، وَالصَّنَمُ الَّذِیْ یُقَالُ لَهٗ اَسَافٌ، فَرَفَعَ مُحَمَّدٌ رَأْسَهٗ اِلَی ظَهْرِ الْکَعْبَةِ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ لَهٗ بَنُوْ عَمِّهٖ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ: نُهِیْتُ اَنْ اَقُوْمَ عِنْدَ الصَّنَمِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا زادوں کے ساتھ جبکہ وہ کم عمر تھے، کعبہ کے پاس، بت کے پاس کھڑے ہوا کرتے تھے، وہ بت جس کا نام اساف تھا، پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی پشت کی طرف اپنا سر اٹھایا تو آپ کے چچا زادوں نے آپ سے کہا: آپ کا کیا معاملہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے بت کے پاس کھڑے ہونے سے منع کیا گیا ہے۔“