Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المناسك
اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
کم سنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف
حدیث نمبر: 381
اَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، نَا طَلْحَةُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: اَنَّ اَبَا طَالِبٍ کَانَ یَبْعَثُ صِبْیَانَهٗ، وَیَبْعُثُ مُحَمَّدًا مَعَهُمْ وَهُمْ صِبْیَانٌ صِغَارٌ، فَیَنْقُلُوْنَ لَهٗ الْحِجَارَةُ لِیَصْفه زَمْزَم وَعَلٰی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَمِرَةٌ صَغِیْرَةٌ یَجْعَلُهَا عَلٰی عُنُقِهٖ، وَحَمَلَ حَجَرَیْنِ صَغِیْرَیْنِ.. فَطَرَحَ عَنْهُ الْمَجَرَینِ، وَاُغْمِیَ عَلَیْهِ، فَاَفَاقَ فَشَدَّ عَلَیْهِ نَمِرَتَهٗ، فَقَالَ لَهٗ بَنُوْ عَمِّهٖ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: اِنِّی نُهِیْتُ عَنِ التَّعَرّٰی.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابوطالب اپنے بچوں کو بھیجا کرتے تھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ بھیجا کرتے تھے جبکہ وہ کم سن تھے، وہ ان کے لیے پتھر لایا کرتے تھے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سفید و سیاہ دھاریوں والی چھوٹی چادر تھی، وہ اسے اپنی گردن پر رکھ لیتے تھے، آپ نے دو چھوٹے پتھر اٹھائے، (دونوں پتھر آپ سے گر پڑے) آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پس جب ہوش میں آئے تو اپنی چادر باندھی، تو آپ کے چچا زادوں نے آپ سے کہا: آپ کو کیا ہوا؟ فرمایا: مجھے برہنہ ہونے سے منع کیا گیا ہے۔

تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف. وله شواهد فى الصحيحين وغيرهما انظر، بخاري، كتاب الحج، باب فضل مكة وبنيانها. مسلم، كتاب الحيض باب الاعتنا يحفظ العورة، رقم: 340. صحيح ابن حبان، رقم: 1603. مسند احمد: 395/3.»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 381 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 381  
فوائد:
بخاری شریف میں ہے، سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (زمانہ جاہلیت میں) جب کعبہ کی تعمیر ہوئی تو نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ بھی پتھر اٹھا کر لا رہے تھے۔ سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنا تہبند اتارکر کاندھے پر ڈال لو (تاکہ پتھر اٹھانے میں تکلیف نہ ہو۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تو ننگے ہوتے ہی بے ہوش ہو کر آپ زمین پر گر پڑے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ گئیں۔
آپ کہنے لگے: مجھے میرا تہبند دے دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مضبوط باندھ لیا۔ (بخاري، رقم: 1582)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ((کَانَ مَعُصُوْمًا مَحْمِیَّا فِیْ حَضَرِهٖ عَنِ الْقَبَائِحِ اَخْلَاقُ الْجَاهِلِّیَةِ۔)) بچپن ہی سے محفوظ تھے۔ بری عادتوں اور خصلتوں سے جو جاہلیت میں جاری تھیں اور فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے: ((اِنَّ الْمَلَكَ نَزَلَ فَشَدَّ عَلَیْهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَزَارَهٗ۔)) (شرح مسلم للنووی: 4؍ 35 باب الاعتناء بحفظ العورة) .... فرشتہ اترا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ازار باندھ دیا۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 381