(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا يزيد بن زريع، قال: حدثنا سعيد، قال: حدثنا قتادة، ان انس بن مالك حدثهم، ان اناسا او رجالا من عكل قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فتكلموا بالإسلام، فقالوا: يا رسول الله، إنا اهل ضرع ولم نكن اهل ريف واستوخموا المدينة" فامر لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بذود وراع، وامرهم ان يخرجوا فيها فيشربوا من البانها وابوالها". فلما صحوا وكانوا بناحية الحرة، كفروا بعد إسلامهم وقتلوا راعي النبي صلى الله عليه وسلم واستاقوا الذود، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم فبعث الطلب في آثارهم، فاتي بهم فسمروا اعينهم وقطعوا ايديهم وارجلهم، ثم تركوا في الحرة على حالهم حتى ماتوا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قال: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ أُنَاسًا أَوْ رِجَالًا مِنْ عُكْلٍ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمُوا بِالْإِسْلَامِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أَهْلُ ضَرْعٍ وَلَمْ نَكُنْ أَهْلَ رِيفٍ وَاسْتَوْخَمُوا الْمَدِينَةَ" فَأَمَرَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَرَاعٍ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَخْرُجُوا فِيهَا فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا". فَلَمَّا صَحُّوا وَكَانُوا بِنَاحِيَةِ الْحَرَّةِ، كَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَقَتَلُوا رَاعِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي آثَارِهِمْ، فَأُتِيَ بِهِمْ فَسَمَرُوا أَعْيُنَهُمْ وَقَطَعُوا أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، ثُمَّ تُرِكُوا فِي الْحَرَّةِ عَلَى حَالِهِمْ حَتَّى مَاتُوا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اپنے اسلام لانے کی بات کی، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہم لوگ مویشی والے ہیں (جن کا گزارہ دودھ پر ہوتا ہے) ہم کھیتی باڑی والے نہیں ہیں، مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں کچھ اونٹ اور ایک چرواہا دے دیا جائے، اور ان سے کہا کہ وہ جا کر مدینہ سے باہر رہیں، اور ان جانوروں کے دودھ اور پیشاب پئیں ۱؎ چنانچہ وہ باہر جا کر حرّہ کے ایک گوشے میں رہنے لگے جب اچھے اور صحت یاب ہو گئے، تو اپنے اسلام لے آنے کے بعد کافر ہو گئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کرنے والوں کو ان کے پیچھے بھیجا (چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور) آپ کے پاس لائے گئے، تو لوگوں نے ان کی آنکھوں میں آگ کی سلائی پھیر دی ۲؎، اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے، پھر اسی حال میں انہیں (مقام) حرہ میں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 66 (233)، الزکاة 68 (1501)، الجھاد 184 (3064)، المغازي 36 (4192)، الطب 5 (5685)، 29/5727، الحدود 15 (6802)، 18 (6805)، الدیات 22 (6899)، صحیح مسلم/القسامة 2 (1671)، (تحفة الأشراف: 1176)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأطعمة 38 (1845)، الطب 6 (2042)، سنن ابن ماجہ/فیہ 30 (3503)، مسند احمد 3/161، 163، 170، 233، ویأتي عند المؤلف برقم: 4037 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ علاج کے طور پر اونٹ کا پیشاب پیا جا سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ جن جانورں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب پاک ہے، اور بوقت ضرورت ان کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ۲؎: ایک روایت میں انس رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں اس وجہ سے پھیریں کہ ان لوگوں نے بھی چرواہے کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری تھیں، لیکن یہ روایت بقول امام ترمذی غریب ہے، یحییٰ بن غیلان کے علاوہ کسی نے بھی اس میں یزید بن زریع کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن وهب، حدثنا محمد بن سلمة، عن ابي عبد الرحيم، قال: حدثني زيد بن ابي انيسة، عن طلحة بن مصرف، عن يحيى بن سعيد، عن انس بن مالك، قال: قدم اعراب من عرينة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاسلموا فاجتووا المدينة حتى اصفرت الوانهم وعظمت بطونهم، فبعث بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى لقاح له" وامرهم ان يشربوا من البانها وابوالها". حتى صحوا، فقتلوا راعيها واستاقوا الإبل، فبعث نبي الله صلى الله عليه وسلم في طلبهم، فاتي بهم فقطع ايديهم وارجلهم وسمر اعينهم. قال امير المؤمنين عبد الملك لانس وهو يحدثه هذا الحديث: بكفر ام بذنب؟ قال: بكفر. قال ابو عبد الرحمن: لا نعلم احدا، قال: عن يحيى، عن انس، في هذا الحديث غير طلحة، والصواب عندي والله تعالى اعلم يحيى، عن سعيد بن المسيب، مرسل. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ، قال: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: قَدِمَ أَعْرَابٌ مِنْ عُرَيْنَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمُوا فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ حَتَّى اصْفَرَّتْ أَلْوَانُهُمْ وَعَظُمَتْ بُطُونُهُمْ، فَبَعَثَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى لِقَاحٍ لَهُ" وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا". حَتَّى صَحُّوا، فَقَتَلُوا رَاعِيَهَا وَاسْتَاقُوا الْإِبِلَ، فَبَعَثَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهِمْ، فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ. قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدُ الْمَلِكِ لِأَنَسٍ وَهُوَ يُحَدِّثُهُ هَذَا الْحَدِيثَ: بِكُفْرٍ أَمْ بِذَنْبٍ؟ قَالَ: بِكُفْرٍ. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: لَا نَعْلَمُ أَحَدًا، قَالَ: عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَنَسٍ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ طَلْحَةَ، وَالصَّوَابُ عِنْدِي وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ يَحْيَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، مُرْسَلٌ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ عرینہ کے کچھ اعرابی (دیہاتی) آئے، اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، یہاں تک کہ ان کے رنگ زرد ہو گئے، اور پیٹ پھول گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی اونٹنیوں کے پاس بھیج دیا ۱؎ اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے دودھ اور پیشاب پئیں، یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو گئے، تو ان لوگوں نے آپ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ان کے تعاقب میں بھیجا، چنانچہ انہیں پکڑ کر آپ کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے، اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر دی۔