أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ، قال: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: قَدِمَ أَعْرَابٌ مِنْ عُرَيْنَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمُوا فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ حَتَّى اصْفَرَّتْ أَلْوَانُهُمْ وَعَظُمَتْ بُطُونُهُمْ، فَبَعَثَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى لِقَاحٍ لَهُ" وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا". حَتَّى صَحُّوا، فَقَتَلُوا رَاعِيَهَا وَاسْتَاقُوا الْإِبِلَ، فَبَعَثَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهِمْ، فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ. قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدُ الْمَلِكِ لِأَنَسٍ وَهُوَ يُحَدِّثُهُ هَذَا الْحَدِيثَ: بِكُفْرٍ أَمْ بِذَنْبٍ؟ قَالَ: بِكُفْرٍ. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: لَا نَعْلَمُ أَحَدًا، قَالَ: عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَنَسٍ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ طَلْحَةَ، وَالصَّوَابُ عِنْدِي وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ يَحْيَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، مُرْسَلٌ.
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 233
´اونٹ، بکری اور چوپایوں کا پیشاب اور ان کے رہنے کی جگہ کے بارے میں`
«. . . عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " قَدِمَ أُنَاسٌ مِنْ عُكْلٍ أَوْ عُرَيْنَةَ فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلِقَاحٍ، وَأَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، فَانْطَلَقُوا، فَلَمَّا صَحُّوا قَتَلُوا رَاعِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ، فَجَاءَ الْخَبَرُ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ، فَلَمَّا ارْتَفَعَ النَّهَارُ جِيءَ بِهِمْ، فَأَمَرَ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسُمِرَتْ أَعْيُنُهُمْ وَأُلْقُوا فِي الْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ فَلَا يُسْقَوْنَ، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: فَهَؤُلَاءِ سَرَقُوا وَقَتَلُوا وَكَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ " . . . .»
”. . . انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہے کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ (قبیلوں) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اس واقعہ کی) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور (مدینہ کی) پتھریلی زمین میں ڈال دئیے گئے۔ (پیاس کی شدت سے) وہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے (ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور (آخر) ایمان سے پھر گئے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ أَبْوَالِ الإِبِلِ وَالدَّوَابِّ وَالْغَنَمِ وَمَرَابِضِهَا:: 233]
تشریح:
یہ آٹھ آدمی تھے چار قبیلہ عرینہ کے اور تین قبیلہ عکل کے اور ایک کسی اور قبیلے کا۔ ان کو مدینہ سے چھ میل دور ذوالمجدا نامی مقام پر بھیجا گیا۔ جہاں بیت المال کی اونٹنیاں چرتی تھیں۔ ان لوگوں نے تندرست ہونے پر ایسی غداری کی کہ چرواہوں کو قتل کیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اور اونٹوں کو لے بھاگے۔ اس لیے قصاص میں ان کو ایسی ہی سخت سزا دی گئی۔ حکمت اور دانائی اور قیام امن کے لیے ایسا ضروری تھا۔ اس وقت کے لحاظ سے یہ کوئی وحشیانہ سزا نہ تھی جو غیرمسلم اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ ذرا ان کو خود اپنی تاریخ ہائے قدیم کا مطالعہ کرنا چاہئیے کہ اس زمانے میں ان کے دشمنوں کے لیے ان کے ہاں کیسی کیسی سنگین سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
اسلام نے اصول قصاص پر ہدایات دے کر ایک پائیدار امن قائم کیا ہے۔ جس کا بہترین نمونہ آج بھی حکومت عربیہ سعودیہ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ «والحمدللّٰه على ذلك ايدهم اللّٰه بنصره العزيز آمين.»
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 233
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1501
1501. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے چند لوگ مدینہ طیبہ آئے تو اس کی آب وہوا ان کے موافق نہ آئی۔ رسول اللہ ﷺ نےانھیں اجازت دی کہ وہ صدقے کے اونٹوں میں جاکر ان کاد ودھ اور پیشاب نوش کریں۔ انھوں نے چرواہے کوقتل کردیا اور اونٹ لے کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی روانہ کیے، چنانچہ انھیں گرفتار کرکے لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کاحکم دیا، نیزان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنے کوکہا، پھر انھیں گرم پتھریلی زمین پر پھینک دیا، چنانچہ وہ پیاس کے مارے پتھروں کو چباتے تھے۔ ابوقلابہ، حمید اور ثابت نے حضرت انس ؓ سے روایت کرنے میں قتادہ ؓ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1501]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے ان کو مسافر اور بیمار جان کر زکوٰۃ کے اونٹوں کی چراگاہ میں بھیج دیا کیونکہ وہ مرض استسقاء کے مریض تھے۔
مگر وہاں ان ظالموں نے اونٹوں کے محافظ کو نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کا مثلہ کرڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ گئے۔
بعد میں پکڑے گئے اور قصاص میں ان کو ایسی ہی سزادی گئی۔
حضرت امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت فرمایا کہ مسافروں کے لیے زکوٰۃ کے اونٹوں کا دودھ وغیرہ دیا جاسکتا ہے اور ان کی سواری بھی ان پر ہوسکتی ہے۔
غرض المصنف في هذا الباب إثبات وضع الصدقة في صنف واحد خلافا لمن قال یجب استیعاب الأصناف الثمانیة۔
(فتح الباري)
یعنی مصنف کا مقصد اس باب سے یہ ثابت کرنا ہے کہ اموال زکوٰۃ کو صرف ایک ہی مصرف پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے برخلاف ان کے جو آٹھوں مصارف کا استیعاب ضروری جانتے ہیں۔
ان لوگوں کی یہ سنگین سزا قصاص ہی میں تھی اور بس۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1501
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3018
3018. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمیوں کی ایک جماعت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور انھیں مدینہ طیبہ کی آب وہوا موافق نہ آئی تو آپ ﷺ سے کہنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے لیے اونٹنیوں کے دودھ کا بندوبست کردیں۔ آپ نے فرمایا: ”میرے پاس تمہارے لیے اس کے سواکوئی صورت نہیں کہ تم اونٹنیوں ک پڑاؤ میں قیام کرو۔“ چنانچہ وہ چلے گئے اور وہاں اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پیا تو تندرست ہوکر پہلے سے بھی زیادہ موٹے ہوگئے۔ پھر انہوں نے چرواہے کو قتل کردیا اور سب اونٹ ہانک کر لے گئے اور مسلمان ہونے کے بعد ارتداد کا راستہ اختیار کرلیا۔ نبی کریم ﷺ کوایک پکارنے والے کے ذریعے سے ان کی خبر ملی توآپ نے تلاش کنندہ ان کے تعاقب میں روانہ فرمائے۔ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ انھیں پکڑ کر آپ کے حضور پیش کردیا گیا۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کا حکم دیا۔ پھر لوہے کی سلاخیں گرم کی گئیں اور انھیں ان کی آنکھوں میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3018]
حدیث حاشیہ:
تو ایسے بے ایمان‘ شریر‘ پاجیوں‘ نمک حراموں کو سخت سزا دینا ہی چاہئے تاکہ دوسرے لوگوں کو عبرت ہو اور بندگان خدا ان کے ظلموں سے محفوظ رہیں۔
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔
کیونکہ اس میں گرم گرم سلائیاں آنکھوں میں پھیرنے کا ذکر ہے جو آگ ہے مگر یہ کہاں مذکور ہے کہ انہوں نے بھی مسلمانوں کو آگ سے عذاب دیا تھا۔
اور شاید امام بخاری ؒنے اپنی عادت کے موافق اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس کو تیمی نے روایت کیا۔
اس میں یہ ہے کہ ان لوگوں نے بھی مسلمان چرواہوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تھا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3018
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4192
4192. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے چند لوگ مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کلمہ توحید پڑھ کر اظہار اسلام کیا اور عرض کرنے لگے: اللہ کے نبی! ہم لوگ مویشی رکھتے ہیں، زرعی زمینوں والے نہیں ہیں۔ انہیں مدینہ طیبہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو رسول اللہ ﷺ نے کچھ اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور حکم دیا کہ شہر سے باہر کھلی فضا میں نکل جائیں اور ان اونٹوں کا دودھ اور پیشاب نوش کریں۔ وہ روانہ ہوئے لیکن حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے برگشتہ ہو گئے اور نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کو جب ان کی خبر ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے تعاقب میں بھیجا (جب وہ انہیں پکڑ کر لائے تو) آپ نے انہیں سزا دینے کا حکم دیا، چنانچہ ان کی آنکھوں میں گرم آہنی سلائیاں پھیری گئیں۔ ان کے ہاتھ کاٹ دئے گئے اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4192]
حدیث حاشیہ:
چرواہے کا نام یسار النوبی ؓ تھا جب قبیلے والے مرتد ہو کر اونٹ لے کر بھاگنے لگے تو اس چرواہے نے مزاحمت کی۔
اس پر انہوں نے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے اور اس کی زبان اور آنکھ میں کانٹے گاڑ دیئے جس سے انہوں نے شہادت پائی۔
رضي اللہ عنه۔
اسی قصاص میں ان ڈاکوؤں کے ساتھ وہ کیا گیا جو روایت میں مذکور ہے۔
یہ ڈاکو ہر دو قبائل عکل اور عرینہ سے تعلق رکھتے تھے۔
حرہ پتھریلا میدان ہے جو مدینہ سے باہر ہے۔
وہ ڈاکو مرض استسقاء کے مریض تھے اس لیے آنحضرت ﷺ نے ان کے واسطے یہ نسخہ تجویز فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4192
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5685
5685. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کچھ لوگ بیمار تھے انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمیں قیام کے لیے جگہ دے دیں اور ہمارے کھانے کا بندوبست فرما دیں۔ پھر جو وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ کی آب وہوا خراب ہے جو ہمارے موافق نہیں تو آپ نے مقام حرہ میں اونٹوں کے ساتھ ان کے قیام کا بندوبست کر دیا اور فرمایا: ”اونٹنیوں کا دودھ پیو۔“ جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور آپ کے اونٹ ہانک کر لے گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی بھیجے تو وہ انہیں پکڑ لائے۔ آپ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں۔ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا وہ اپنی زبان سے زمین چاٹتا تھا اور وہ اسی حالت میں مرگیا۔ (راوی حدیث) اسلام نے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حجاج نے حضرت انس ؓ سے کہا: تم مجھ سے سخت ترین سزا بیان کرو جو نبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5685]
حدیث حاشیہ:
ان ڈاکوؤں نے اسلامی چرواہے کے ساتھ ایسا ظلم کیا تھا۔
لہٰذا العین بالعین کے تحت ان کے ساتھ یہی کیا گیا۔
حضرت حسن بصری نے حجاج کے متعلق یہ اس لیے کہا کہ وہ اپنے مظالم کے لیے ایسی سند بنانا چاہتا تھا۔
حالانکہ اس کے مظالم صراحتاً ناجائز تھے یہ سخت ترین سزا ان کو قصاص میں دی گئی تھی۔
چرواہے کے ساتھ انہوں نے ایسا ہی کیا تھا لہٰذا ان کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5685
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5686
5686. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ مدینہ میں چند لوگوں نے (مدینہ طیبہ کی) آب وہوا کو ناموافق پایا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”وہ آپ کے چرواہے کے پاس چلے جائیں۔“ یعنی اونٹنیوں کے باڑے میں قیام رکھیں وہاں ان کا دودھ نوش کریں اور ان کا پیشاب بھی پئیں، چنانچہ وہ لوگ آپ کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور انہوں نے وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جب ان کے جسم صحت مند ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ان کے تعاقب میں آدمی بھیجے، جب انہیں پکڑ کر لایا گیا تو آپ کے حکم سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں قتادہ نے کہا: مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا: یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5686]
حدیث حاشیہ:
یہ لوگ اصل میں ڈاکو اور رہزن تھے گو مدینہ میں آ کر مسلمان ہو گئے تھے مگر ان کی اصل خصلت کہاں جانے والی تھی۔
موقع پایا تو پھر ڈاکہ مارا خون کیا اونٹوں کو لے گئے اور بطور قصاص انہیں یہ سزا مذکور دی گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5686
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5727
5727. حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ سے چند لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اسلام کے متعلق گفتگو کی، پھر کہا: اللہ کے رسول! ہم مویشی پالنے والے ہیں اور زراعت پیشہ یا کھجوروں والے نہیں ہیں مدینہ طیبہ کی آب وہوا انہیں موافق نہیں آتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے چند اونٹوں اور ایک چرواہے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہ ان اونٹوں کے ساتھ مدینہ سے باہر چلے جائیں وہاں ان کا دودھ اور پیشاب نوش کریں چنانچہ وہ لوگ باہر چلے گئے لیکن حرہ کے نزدیک پہنچ کر وہ اسلام سے مرتد ہوگئے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹ لے کر بھاگ نکلے جب رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر ملی تو آپ نے ان کے تعاقب میں چند آدمی روانہ کیے پھر آپ نے ان کے متعلق حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیری گئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے گئے پھر حرہ کے کنارے انہیں چھوڑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5727]
حدیث حاشیہ:
آب وہوا کی ناموافقت پر آ پ نے ان لوگوں کو مدینہ سے حرہ بھیج دیا تھا بعد میں وہ مرتد ہو کر ڈاکو بن گئے اور انہوں نے ایسی حرکت کی جن کی یہی سزا مناسب تھی جو ان کو دی گئی۔
حدیث سے باب کا مطلب ظاہر ہے حدیث اور باب میں مطابقت واضح ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مدینہ کی آب وہوا نا موافق آنے کی وجہ سے باہر جانے کا حکم دے دیا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5727
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6802
6802. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس قبیلہ عکل کے چند آدمی آئے اور اسلام قبول کیا لیکن مدینہ طیبہ کی آب وہوا ان کو موافق نہ آئی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم صدقے کے اونٹوں کے پاس رہائش رکھو اور ان کا پیشاب اور دودھ نوش کرو۔ انہوں نے (ایسا) کیا تو صحت یاب ہوگئے، لیکن اس کے بعد وہ دین سے برگزشتہ ہوگئے اور اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ آپ ﷺ نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے تو وہ انہیں گرفتار کر کے لے آئے۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں (مخالف سمت سے) کاٹنے کا حکم دیا، نیز ان کی آنکھیں بھی پھوڑی دی گئیں، پھر آپ نے ان کے زخموں پر داغ نہ دیا حتیٰ کہ وہ سسک سسک کر مرگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6802]
حدیث حاشیہ:
عرب میں ہاتھ پاؤں کاٹ کر جلتے تیل میں داغ دیا کرتے تھے اس طرح خون بند ہو جاتا تھا مگر ان کو بغیر داغ دیئے چھوڑ دیا گیا اور یہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔
(کذالك جزاءالظالمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6802
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6803
6803. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اہل عرینہ نے ہاتھ پاؤں (مخالف سمت سے) کاٹنے کا حکم دیا لیکن انہیں داغ نہیں دیا حتیٰ کہ وہ مر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6803]
حدیث حاشیہ:
مذکورہ بارہ ڈاکو مراد ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6803
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6805
6805. حضرتانس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے چند آدمی مدینہ طیبہ آئے تو نبی ﷺ نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیوں کا بندوبست کر دیا اور فرمایا کہ وہ اونٹوں کے گلے میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ نوش کریں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کے پاس یہ خبر صبح کے وقت پہنچی تو آپ نے ان کے تعاقب میں سوار دوڑائے۔ ابھی دھوپ زیادہ نہیں پھیلی تھی کہ انہیں گرفتار کرکے لایا گیا۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دینے کا حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائیاں پھیری گئیں۔ پھر انہیں پتھریلے گرم میدان میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہ پلایا گیا۔ ابو قلابہ نے کہا: وہ لوگ تھے جنہوں نے چوری کی، قتل کیا ایمان کے بعد کفر اختیار کیا تھا نیز انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف باغیانہ کارروائی کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6805]
حدیث حاشیہ:
بلکہ نمک حرامی کی اور چرواہے کا مثلہ کر ڈالا اوراونٹوں کو لے کر چلتے بنے۔
اسی لیے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کیا گیا۔
واقعہ ایک ہی ہے مگر مجتہد اعظم حضرت امام بخاری نے اس سے کئی ایک سیاسی مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔
ایک مجتہد کی شان یہی ہوتی ہے، کوئی شک نہیں کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک مجتہد اعظم تھے، اسلام کے نباض تھے، قرآن و حدیث کے حکیم حاذق تھے، معاندین آپ کی شان میں کچھ بھی تنقیص کریں آپ کی خداداد عظمت پر کچھ اثر نہ پڑا ہے نہ پڑے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6805
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 233
233. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ آئے اور انہیں یہاں کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو نبی ﷺ نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں میں جانے کا حکم دیا کہ وہاں جا کر ان کا دودھ اور پیشاب استعماال کریں، چنانچہ وہ لوگ چلے گئے۔ اور جب وہ صحت مند ہو گئے تو انھوں نے نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا اور جانور ہانک کر لے گئے۔ صبح کے وقت (رسول اللہ ﷺ کو جب) یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان کے تعاقب میں چند آدمی روانہ کیے، چنانچہ سورج بلند ہوتے ہی ان سب کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر آپ کے حکم سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں، اس کے بعد گرم سنگلاخ جگہ پر انہیں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابو قلابہ نے فرمایا: ان لوگوں نے چوری کی، خون ناحق کیا، ایمان کے بعد مرتد ہوئے اور اللہ اور اس کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:233]
حدیث حاشیہ:
یہ آٹھ آدمی تھے، چارقبیلہ عرینہ کے اور تین قبیلہ عکل کے اور ایک کسی اور قبیلے کا۔
ان کو مدینہ سے چھ میل دور ذوالمجدا نامی مقام پر بھیجا گیا۔
جہاں بیت المال کی اونٹنیاں چرتی تھیں۔
ان لوگوں نے تندرست ہونے پر ایسی غداری کی کہ چرواہوں کو قتل کیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اور اونٹوں کو لے بھاگے۔
اس لیے قصاص میں ان کو ایسی ہی سخت سزا دی گئی۔
حکمت اور دانائی اور قیام امن کے لیے ایسا ضروری تھا۔
اس وقت کے لحاظ سے یہ کوئی وحشیانہ سزا نہ تھی جو غیرمسلم اس پر اعتراض کرتے ہیں۔
ذرا ان کو خود اپنی تاریخ ہائے قدیم کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ اس زمانے میں ان کے دشمنوں کے لیے ان کے ہاں کیسی کیسی سنگین سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
اسلام نے اصول قصاص پر ہدایات دے کر ایک پائیدار امن قائم کیا ہے۔
جس کا بہترین نمونہ آج بھی حکومت عربیہ سعودیہ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
والحمدللّٰہ علی ذلك أیدهم اللّٰہ بنصرہ العزیز آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 233
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 306
´حلال جانوروں کے پیشاب کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اپنے اسلام لانے کی بات کی، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہم لوگ مویشی والے ہیں (جن کا گزارہ دودھ پر ہوتا ہے) ہم کھیتی باڑی والے نہیں ہیں، مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں کچھ اونٹ اور ایک چرواہا دے دیا جائے، اور ان سے کہا کہ وہ جا کر مدینہ سے باہر رہیں، اور ان جانوروں کے دودھ اور پیشاب پئیں ۱؎ چنانچہ وہ باہر جا کر حرّہ کے ایک گوشے میں رہنے لگے جب اچھے اور صحت یاب ہو گئے، تو اپنے اسلام لے آنے کے بعد کافر ہو گئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کرنے والوں کو ان کے پیچھے بھیجا (چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور) آپ کے پاس لائے گئے، تو لوگوں نے ان کی آنکھوں میں آگ کی سلائی پھیر دی ۲؎، اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے، پھر اسی حال میں انہیں (مقام) حرہ میں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 306]
306۔ اردو حاشیہ:
➊ چونکہ وہ لوگ صحرائی زندگی کے عادی تھے، اس لیے شہری ماحول انہیں راس نہ آیا اور بدہضمی ہو گئی۔
➋ ”اونٹوں کے پیشاب پیو۔“ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ماکول اللحم جانور، یعنی جس جانور کا گوشت کھانا جائز ہے، اس کا پیشاب پاک ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیشاب پینے کا حکم نہ دیتے۔ ویسے بھی شریعت کے اصول مدنظر رکھے جائیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کیونکہ ماکول اللحم جانور گھروں میں رکھے جاتے ہیں، ان کا دودھ پیا جاتا ہے، ان پر سواری کی جاتی ہے اور ان کی خدمت کرنی پڑتی ہے، اس لیے گھر، کپڑے اور جسم کو ان کے پیشاب اور گوبر سے پاک رکھنا ناممکن ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ دودھ دوہتے وقت وہ پیشاب شروع کر دیں اور پیشاب کا کوئی چھینٹا دودھ میں جا گرے۔ اب اگر ان کے پیشاب اور گوبر کو پلید قرار دیا جائے تو لوگ بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، نیز ان کے پیشاب اور گوبر میں وہ بدبو نہیں ہوتی جو انسان اور حرام جانوروں کی نجاست میں ہوتی ہے، اس لیے دیہات میں لوگ ان جانوروں کے گوبر وغیرہ سے اپنے فرش دیواروں اور چھتوں کو لیپتے ہیں۔ ان کا گوبر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فطری استعمال ہے کیونکہ مسلم اور غیر مسلم سب اس میں شریک ہیں، لہٰذا ان جانوروں کے پیشاب اور گوبر کے پاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں۔
➌ جو حضرات مأکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو پلید سمجھتے ہیں، وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ علاج کی غرض سے پلید چیز کا استعمال جائز ہے، کیونکہ علاج بھی ایک مجبوری ہے۔ یہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علاج کی غرض سے بھی اس پیشاب کو جائز نہیں سمجھتے، وہ اس حدیث کو صرف انہی لوگوں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں جنہیں حکم دیا گیا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے پتہ چلا تھا کہ ان کی شفا پیشاب میں ہے۔ ہم کسی اور مریض کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ اسے لازماًً شفا ہو گی۔ لیکن یہ بات کافی کمزور محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد بھی اس مسئلے میں ان سے متفق نہیں۔
➍ ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنا، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا، انہیں گرم پتھروں پر چھوڑ دینا اور باوجود پانی کی طلب کے انہیں پانی نہ دینا اور ان کا اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جانا بطور قصاص تھا کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ بعینہٖ یہی ظالمانہ سلوک کیا تھا، لہٰذا انہیں بدلہ دیا گیا جو فرض تھا۔ قرآن مجید میں ہے: «كتب عليكم القصاص فى القتلي» [البقرة 178: 2]
”تم پر مقتولوں میں برابری کا بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے۔“
قصاص برابری اور مماثلت کو کہا جاتا ہے، لہٰذا اس پر کوئی اعتراض نہیں اور محدثین کے نزدیک اب بھی اگر قاتل نے مقتول کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا ہو تو قصاص کے حکم کے پیش نظر اور لوگوں کو عبرت دلانے کی خاطر، قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا، مگر بعض فقہاء (موالک و احناف) کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «لاقود الا بالسيف» [سنن ابن ما جه، الديات، حديث: 2668]
یعنی قصاص صرف تلوار کے ایک وار سے لیا جائے گا، مگر یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ قصاص کے حکم کے خلاف ہے اور باب والی روایت قرآن کے موافق ہے اور سنداًً اعلیٰ درجے کی ہے، لہٰذا محدثین کی بات ہی صحیح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 306
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4029
´آیت کریمہ: ”جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا بدلہ یہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے“ کی تفسیر اور کن لوگوں کے بارے میں یہ نازل ہوئی ان کا ذکر اور اس بارے میں انس بن مالک رضی الله عنہ کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4029]
اردو حاشہ:
(ٍ1) سنن نسائی کی مذکورہ روایت، نسائی شریف کے علاوہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو داود، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کے ساتھ ساتھ مسند احمد میں بھی موجود ہے۔ صحیحین سمیت دیگر تمام کتب مذکورہ میں یہ روایت ہر کتاب میں، ایک سے زیادہ مقامات میں بیان کی گئی ہے۔ یہاں نسائی شریف میں اس مقام پر ہے کہ قبیلۂ عکل کے آٹھ افراد نبیٔ اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ سنن نسائی ہی کی دوسری روایات میں، کسی میں تو حاضر ہونے والے لوگوں کو قبیلۂ عرینہ کے لوگ کہا گیا ہے اور کسی روایت میں انہیں عکل اور عرینہ دونوں قبیلوں کے لوگ بیان کیا گیا ہے۔ (دیکھئے مذکورہ باب کے تحت وارد شدہ احادیث) مزید برآں یہ کہ خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بیان کی گئی احادیث کی صورت حال بھی یہی ہے کہ کسی روایت میں انہیں عکل قبیلے کے افراد بتلایا گیا ہے، کسی میں عرینہ کے اور کسی میں عکل اور عرینہ دونوں کے۔ ملاحظہ فرمائیے: (صحیح البخاري، الجهاد، الزکاة، باب استعمال إبل الصدقة و ألبانها…، حدیث: 1501، و صحیح البخاري، الجهاد و السیر، باب إذا حرق المشرك المسلم ہل یحرق؟ حدیث: 3018، و صحیح مسلم، القسامة و المحاربین، باب حكم المحاربین و المرتدین، حدیث: 1671 و ما بعد) بظاہر ان احادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے لیکن ان میں تضاد قطعاً نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ آنے والے، عکل اور عرینہ دونوں قبیلوں کے لوگ تھے۔ ان کی تعداد آٹھ تھی۔ چار افراد قبیلۂ عرینہ میں سے تھے اور تین عکل میں سے اور ایک شخص ان دونوں قبیلوں کے علاوہ کسی اور قبیلے میں سے تھا۔ چونکہ یہ سارے کے سارے آٹھوں افراد اکٹھے ہی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے تھے، اس لیے کسی حدیث میں انہیں عکل قبیلے کے افراد کہا گیا ہے، کسی میں عرینہ کے اور کسی میں عکل اور عرینہ دونوں کے۔ و اللّٰہ أعلم۔
(2) ”موافق نہ پایا“ چونکہ وہ لوگ دوسرے علاقے سے آئے تھے، آب و ہوا کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے جیسا کہ عموماً مسافروں کو کسی دوسرے ملک میں جانے سے صحت کی خرابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض کچھ مدت بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں اور بعض کو طویل مدت تک بھی ادھر کی آب و ہوا موافق نہیں آتی۔
(3) ”دودھ اور پیشاب پیو“ دودھ تو ان کی مرغوب غذا تھی۔ پیشاب پیٹ کے علاج کے لیے تجویز فرمایا۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان کا پیشاب پاک ہے۔ تبھی آپ نے پینے کا حکم دیا۔ جو لوگ اس کے قائل نہیں، وہ اسے علاج کی مجبوری بتلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک علاج پلید چیز کے ساتھ بھی جائز ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی اس کے قائل نہیں۔ وہ اس کو صرف انہی لوگوں کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔ یہ بحث پیچھے کتاب الطہارۃ میں گزر چکی ہے۔
(4) ”قتل کر دیا“ دراصل یہ لوگ ڈاکو تھے۔ ممکن ہے آئے ہی بری نیت سے ہوں یا اظہار اسلام دھوکا دہی کے لیے ہو۔ ہو سکتا ہے اسلام لاتے وقت نیت صحیح ہو مگر چونکہ وہ اصلاً ڈاکو تھے، اس لیے جب انہوں نے اتنے اونٹوں میں صرف دو چرواہے دیکھے تو ان کی نیت میں فتور آ گیا، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹوں کو ہانکتے ہوئے چلتے بنے۔ بعض تاریخی روایات میں ان اونٹوں کی تعداد پندرہ مذکور ہے۔ و اللّٰہ أعلم۔
(5) ”انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا“ سنن نسائی کی اس روایت (4029) میں اسی طرح مفرد کے الفاظ ہیں جبکہ سنن نسائی ہی کی ایک دوسری روایت (4040) میں جمع کے الفاظ ہیں، یعنی انہوں نے ”چرواہوں کو قتل کر دیا“ نیز صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات میں بھی مفرد اور جمع دونوں طرح کے الفاظ موجود ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں یہ روایت چودہ مقامات پر بیان فرمائی ہے۔ تیرہ مقامات پر مفرد کے الفاظ مذکور ہیں جبکہ ایک جگہ جمع کے الفاظ لائے گئے ہیں۔ دیکھئے: (صحیح البخاري، الحدود، [باب ] کتاب المحاربین … حدیث: 6802) اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت امام مسلم رحمہ اللہ بھی مفرد اور جمع، دونوں طرح کے الفاظ لائے ہیں۔ جمع کے الفاظ کے لیے دیکھئے: (صحیح مسلم، القسامة و المحاربین، باب حکم المحاربین و المرتدین، حدیث: 1671) اس واقعے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ چرواہے صرف دو تھے۔ اس کی صراحت صحیح ابو عوانہ میں ہے۔ ایک وہ جسے رسول اللہ ﷺ کا چرواہا کہا گیا ہے اور اسے ہی ان لوگوں نے قتل کیا تھا۔ اس کا نام یسار تھا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ خوبصورت انداز میں نماز ادا کرتے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے اسے آزاد فرما دیا تھا۔ دوسرا چرواہا یہ سب کچھ دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا، اور مدینہ طیبہ پہنچ کر اس نے یہ اطلاع دی کہ ان لوگوں نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے اور اونٹنیاں ہانک لے گئے ہیں، چنانچہ رسول اللﷺ نے ان کے پیچھے، ان کی تلاش میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت روانہ فرمائی، انہوں نے ان بدقماش لوگوں کو راستے ہی میں جا لیا اور انہیں پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا، چنانچہ آپ نے چرواہے کے قصاص میں اس کے سب قاتلوں کے ساتھ جو کہ ڈاکو اور لٹیرے بھی تھے، وہی سلوک کیا جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کے ساتھ کیا تھا، یعنی آپ نے ان کے ہاتھ سختی کے ساتھ کٹوا دئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا کر انہیں دھوپ میں پھینک دیا گیا۔ اس طرح وہ تڑپ تڑپ کر پیاسے مر گئے۔ مقتول چرواہے کا نام یسار بن زید ابوبلال تھا، دوسرے، اطلاع دینے والے کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ اس حدیث کے بیان کرنے والے اکثر راویوں کا اتفاق ہے کہ مقتول صرف نبی ﷺ ہی کا چرواہا تھا، اس کے ساتھ دوسرا کوئی چرواہا قتل نہیں ہوا، جن اِکا دُکا راویوں نے جمع کے الفاظ بولے ہیں وہ مجازاً ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کو چونکہ جمع کے کم از کم افراد (أقل الجمع) دو ہوتے ہیں، چرواہے بھی دو ہی تھے اور وہ لوگ بھی ان دونوں کو قتل کرنا چاہتے تھے، ایک جان بچا کر بھاگ نکلا تھا، اس لیے بعض رواۃ نے جمع کے الفاظ بیان کر دئیے ہیں۔ راجح اور درست بات یہی ہے کہ صرف ایک چرواہا ہی قتل ہوا تھا۔ اس کی تائید اصحاب مغازی کی بیان کردہ ان تاریخی روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں انہوں نے صرف ایک چرواہے یسار کے قتل ہی کا ذکر کیا ہے۔ و اللّٰہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (فتح الباري: 1/441، 442)
(6) ”حتیٰ کہ وہ مر گئے“ آپ نے ان کو یہ سخت سزا بلاوجہ نہیں دی بلکہ ان کے جرائم ایک سے زیادہ تھے۔ اسلام سے مرتد ہو گئے۔ چرواہے کو قتل کیا۔ صرف قتل ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے ہاتھ پائوں کاٹے، آنکھوں میں سلائیاں پھیریں، پھر اس بے گناہ کو بھوکا پیاسا دھوپ میں گرم پتھروں پر پھینک دیا، اور خون نچڑ نچڑ کر وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اونٹ اور دیگر سامان لوٹ کر لے گئے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے جو ان کو سزا دی، وہ تو صرف چرواہے کے ساتھ سلوک کا بدلہ تھا۔ باقی جرائم کی سزائیں اس کے تحت ہی آ گئیں۔ جب مجرم جرم کرتے وقت ترس نہ کھائے تو قصاص لیتے وقت اس پر بھی ترس نہیں کھانا چاہیے، ورنہ جرائم نہ رک سکیں گے۔ مجرم کو اس کے جرم کے مماثل سزا دی جانی چاہیے۔ قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت کا مفاد بھی یہی ہے۔ جن فقہاء نے اس قسم کی سزا کو لا قوَدَ إلّا بالسَّيفِ جیسی ضعیف روایت کی وجہ سے منسوخ کہا ہے، درست نہیں، کیونکہ ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ﴾ کے مفہوم سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا آیت (آیت محاربہ) تو اس بارے میں صریح ہے اور باب والی حدیث اس کی واضح تائید کرتی ہے۔ و اللہ أعلم۔ (یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔)
(7) اگر قابو آنے سے پہلے مجرم سچی توبہ کر لے تو ان شاء اللہ معافی کی امید کی جا سکتی ہے، اگرچہ حقوق العباد ہی کیوں نہ ہوں۔ و اللّٰہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4029
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4033
´حمید کی انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی حدیث میں ناقلین کے اختلاف کا ذکر۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے اونٹوں کے پاس بھیجا، انہوں نے ان کا دودھ اور پیشاب پیا، جب وہ اچھے ہو گئے تو اسلام سے پھر گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے کچھ لوگ روانہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4033]
اردو حاشہ:
(1) ترجمۃ الباب میں جس اختلاف کا ذکر ہے، اس باب کے تحت مذکور احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اختلاف دو قسم کا ہے: ایک اختلاف تو یہ ہے کہ حمید سے یہ روایت ان کے کئی شاگرد بیان کرتے ہیں، مثلاً: عبداللہ بن عمر العمری، اسماعیل بن ابو کثیر، خالد بن حارث الهجیمی اور محمد بن ابو عدی۔ لیکن صَلَبَهُمْ ”آپ نے انہیں سولی پر لٹکا دیا“ کے الفاظ صرف عبداللہ بن عمر العمری بیان کرتا ہے، حمید کے مذکورہ دوسرے شاگردوں میں سے کوئی بھی یہ الفاظ بیان نہیں کرتا، اس لیے اس روایت میں مذکور الفاظ ”صَلَبَهُمْ“ کا اضافہ درست نہیں بلکہ یہ اضفہ منکر ہے کیونکہ عبداللہ العمری دوسرے ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے جبکہ وہ خود ضعیف ہے۔
(2) اس میں دوسرا اختلاف یہ ہے کہ اس روایت میں اَبْوَالِهَا کے جو الفاظ ہیں وہ اگرچہ درست ہیں لیکن یہ الفاظ حمید کے دو شاگرد عبداللہ بن عمر العمری اور اسماعیل بن ابو کثیر بیان کرتے ہیں تو وہ حمید عن انس کی سند سے بیان کرتے ہیں جبکہ حمید کے شاگرد خالد الهجیمی اور محمد بن ابو عدی اَبْوَالِهَا کے الفاظ حمید عن قتادۃ عن انس کی سند سے بیان کرتے ہیں۔ ترجیح بھی انہی کی روایت کو ہے کیونکہ یہ العمری اور اسماعیل سے اثبت ہے۔ و اللہ أعلم۔
(3) کسی مجرم کو سزا کے طور پر سولی پر لٹکانا اگرچہ جائز ہے تاکہ لوگوں کو اس سے عبرت حاصل ہو، لیکن اس روایت میں مذکور سولی پر لٹکانے کے الفاظ کا اضافہ منکر ہے کیونکہ اس میں عبداللہ عمری نے، جو کہ ضعیف راوی ہے، ثقات کی مخالفت کی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4033
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4036
´حمید کی انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی حدیث میں ناقلین کے اختلاف کا ذکر۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ اسلام لائے تو انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اگر تم لوگ ہمارے اونٹوں میں جاتے اور ان کا دودھ پیتے (تو اچھا ہوتا)“، (حمید کہتے ہیں: قتادہ نے انس سے «البانہا» (دودھ کے) بجائے «ابو الہا» (پیشاب) روایت کی ہے۔) انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر جب وہ ٹھیک ہو گئے تو اسلام لانے کے بعد کافر و مرتد ہو گئے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4036]
اردو حاشہ:
مدینہ منورہ کے مشرق اور مغرب میں دو وسیع پتھریلے میدان ہیں، ان میں سے ہر ایک کو حرہ کہا جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4036
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4037
´حمید کی انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی حدیث میں ناقلین کے اختلاف کا ذکر۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عکل یا عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بولے: اللہ کے رسول! ہم مویشی والے لوگ ہیں ناکہ کھیت والے۔ انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہ آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے کچھ اونٹوں اور ایک چرواہے کا حکم دیا اور ان سے وہاں جانے کے لیے کہا تاکہ وہ ان کے دودھ اور پیشاب پی کر صحت یاب ہو سکیں، جب وہ ٹھیک ہو گئے (وہ حرہ کے ایک گوشے میں تھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4037]
اردو حاشہ:
”کنارے میں رہتے تھے“ مقصد یہ ہے کہ وہ مدینہ سے الگ تھلگ جگہ تھی۔ کافی اونٹ تھے۔ چرواہے ایک دو تھے۔ ان حالات نے ان کی ”ڈاکویانہ فطرت“ کو جگا دیا اور وہ اسلام بھول گئے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4037
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4039
´حمید کی انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی حدیث میں ناقلین کے اختلاف کا ذکر۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ حرہ میں ٹھہرے، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہ آئی، تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ صدقے کے اونٹوں میں جا کر ان کے دودھ اور پیشاب پیئیں، تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا، اسلام سے پھر گئے اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو بھیجا، انہیں پکڑ کر لایا گیا تو آپ نے ان کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4039]
اردو حاشہ:
”دانت مار رہے تھے“ شاید یہ الفاظ پڑھ کر کسی کی ”حقوق انسانی کی حس“ جوش مارے کہ یہ انسانیت کی توہین ہے، لیکن کیا یہ معلوم ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے ان کے ساتھ یہ سلوک عین قرآنی حکم کے مطابق، قصاص کے طور پر کیا تھا۔ انہوں نے بے گناہ چرواہے کی بڑی بے دردی سے جان لی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے ڈاکو، مرتد اور احسان فراموش بھی تھے، پھر کس چیز کی کسر باقی رہ گئی تھی؟ لہٰذا یہ مثلہ تھا نہ ان پر ظلم و تشدد ہی بلکہ ان کے کیے کرتے کا بدلہ تھا۔ جو امن عامہ کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے، نیز شرپسند عناصر، ظلم و تعدی اور قتل و بغاوت کی روک تھام کے لیے امر لابدی ہوتا ہے۔ آج کے نام نہاد انسانیت کے خیر خواہوں کو ایسے سفاک مجرموں پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اس قسم کے کردار کے حاملین قابل ترس ہوتے تو سب سے پہلے ان لوگوں پر نبی رحمت ﷺ ترس کھاتے۔ جن فقہاء نے اس کو مثلہ قرار دے کر منسوخ کہا ہے انہیں رجم کی سزا کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ کیا رجم مثلہ کی اس مرفوع تفسیر کے تحت نہیں آتا؟ حالانکہ وہاں تو مجرم نے کسی بے گناہ کے ساتھ ایسا سلوک بھی نہیں کیا ہوتا۔ یقینا ان لوگوں کا جرم زنا کے جرم سے بدرجہا زیادہ تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4039
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4040
´اس حدیث میں یحییٰ بن سعید سے روایت کرنے میں طلحہ بن مصرف اور معاویہ بن صالح کے اختلاف کا ذکر۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی، یہاں تک کہ ان کے رنگ پیلے پڑ گئے، ان کے پیٹ پھول گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں کے پاس بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کا دودھ اور پیشاب پئیں، یہاں تک کہ جب وہ ٹھیک ہو گئے تو انہوں نے ان چرواہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4040]
اردو حاشہ:
(1) ترجمۃ الباب میں جس اختلاف کا ذکر ہے اس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ طلحہ بن مصرف نے یہ روایت بیان کی تو عَنْ یَحْیٰی بِنْ سَعِیْدٍ عَنْ اَنَسٍ کہا، یعنی اسے متصل اور موصول بیان کیا، جبکہ معاویہ بن صالح (اور یحیٰ بن ایوب) نے بیان کی تو عَنْ یَحْیٰی بِنْ سَعِیْدٍ عَنْ سَعِیْدٍ ابِنِ المسيب کہا، یعنی مرسل بیان کی ۔ و اللہ أعلم۔
(2) ”کفر کی وجہ سے“ مقصود یہ ہے کہ انہوں نے کفر کا ارتکاب بھی کیا تھا ورنہ ہاتھ پائوں کاٹنا اور آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا کفر کی وجہ سے نہ تھا بلکہ قصاصا تھا کیونکہ ارتداد کی سزا تو سادہ قتل ہے۔
(3) ”عبدالملک“ بنو امیہ کا ایک عالم بادشاہ جس نے بنو امیہ کی ڈگمگاتی ہوئی کشتی کو سنبھالا دیا اور مضبوط حکومت کی اور اس کے بعد اس کی اولاد نے ڈٹ کر حکومت کی مگر اس کے علم کو اس کی حکومت نے دبا لیا اور یہ دونوں شاذ و نادر ہی اکٹھے چلتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4040
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 72
´جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہو اس کے پیشاب کا حکم۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، چنانچہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں زکاۃ کے اونٹوں میں بھیج دیا اور فرمایا: ”تم ان کے دودھ اور پیشاب پیو“ (وہ وہاں گئے اور کھا پی کر موٹے ہو گئے) تو ان لوگوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے چرواہے کو مار ڈالا، اونٹوں کو ہانک لے گئے، اور اسلام سے مرتد ہو گئے، انہیں (پکڑ کر) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دیئے، ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں اور گرم ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 72]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی اس کا پیشاب نجس نہیں ضرورت پر علاج میں اس کا استعمال جائز ہے،
اور یہی محققین محدثین کا قول ہے،
نا پاکی کے قائلین کے دلائل محض قیاسات ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 72
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2042
´علاج میں اونٹ کا پیشاب پینے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہیں آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ (چراگاہ کی طرف) روانہ کیا اور فرمایا: ”تم لوگ اونٹنیوں کے دودھ اور پیشاب پیو“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2042]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ ﷺ نے اونٹ اوراونٹنی کا پیشاب علاج کی غرض سے انہیں پینے کا حکم دیا،
اس سے معلوم ہواکہ حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہے،
اگر ناپاک ہوتا تو اس کے پینے کی اجازت نہ ہوتی،
کیوں کہ حرام اور نجس چیز سے علاج درست نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2042
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4353
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ عرینہ قبیلہ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، (کھانے پینے کی کثرت سے) ان کے پیٹ خراب ہو گئے، یا آب و ہوا راس نہ آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”اگر تم چاہو، تو صدقہ کے اونٹوں کے پاس چلے جاؤ، اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو۔“ انہوں نے ایسے کیا، اور تندرست ہو گئے، پھر چرواہوں کا رخ کیا، اور انہیں قتل کر دیا اور اسلام سے پھر گئے، اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4353]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
غزوہ ذی قرد 6ھ کے بعد کچھ افراد جو چار عرینہ اور تین عکل سے تھے اور ایک اور آدمی بھی ان کے ساتھ تھا،
جو بھوک کی شدت کی بناء پر کمزور اور بیمار ہو چکے تھے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گئے،
اور اصحاب الصفہ کے ساتھ رہنے لگے،
بعد میں مدینہ میں کھا پی کر تندرست ہو گئے،
لیکن چونکہ بدوی لوگ تھے،
اس لیے بدہضمی کا شکار ہو گئے (جویٰ پیٹ کی بیماری کو کہتے ہیں)
یا مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی،
(استيخام آب و ہوا کی ناموافقت کو کہتے ہیں)
جس کی بناء پر ان کے پیٹ پھول گئے،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آب و ہوا کی ناموافقت پر انہیں مدینہ سے نکلنے کی اجازت مرحمت فرمائی،
جس سے ثابت ہوتا ہے،
آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے یا ناموافقت کی بناء پر علاقہ اور گھر تبدیل کیا جا سکتا ہے،
مدینہ سے باہر تقریبا چھ میل کے فاصلہ پر ذی جدر نامی جگہ میں صدقہ کے اونٹ چرتے تھے،
انہوں نے دودھ پینے کی خواہش کا اظہار کیا،
تو آپﷺ نے انہیں صدقہ کے اونٹوں کے پاس جانے کا حکم دیا،
اور اس وقت آپﷺ کی اونٹنیاں بھی ادھر جا رہی تھیں،
اس لیے ان کے ساتھ ان کو روانہ کر دیا،
یا اہل صدقہ کے منتظم و متولی چونکہ آپﷺ ہی تھے،
اس لیے بعض روایات میں ان کو آپ کی طرف منسوب کر دیا گیا۔
(2)
اس حدیث کی بناء پر مأکول اللحم حیوانات یعنی جن کا گوشت کھانا جائز ہے،
کے بول کے بارے میں ائمہ کے درمیان اختلاف پیدا ہوا،
اس حدیث کی بناء پر امام مالک،
امام احمد،
محمد بن الحسن شوافع میں سے ابن المنذر،
ابن خزیمہ وغیرہ،
شعبی،
عطاء،
نخعی،
زہری،
ابن سیرین،
ثوری کے نزدیک مأکول اللحم حیوانات کا بول پاک ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ،
شافعی،
ابو یوسف،
ابو ثور وغیرہم کے نزدیک تمام حیوانات کا بول ناپاک ہے،
ابن حزم کا موقف بھی یہی ہے،
داود،
ظاہری،
ابن علیہ اور ایک قول کے مطابق بعض کے نزدیک انسانی بول کے سوا تمام بول پاک ہیں۔
احناف و شوافع نے اس کی یہ تأویل کی ہے کہ یہ اجازت علاج معالجہ کے لیے تھی،
جو ضرورت کی بناء پر دی گئی،
لیکن حرام چیز سے علاج خود مختلف فیہ ہے،
امام احمد کے نزدیک محرم اشیاء سے علاج کسی صورت میں جائز نہیں ہے،
کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے،
اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حرام ٹھہرایا ہے،
اس میں شفاء نہیں رکھی،
شوافع کے نزدیک اس حدیث کی روشنی میں نشے والی اشیاء کے سوا تمام نجس اور پلید اشیاء سے علاج جائز ہے،
بشرطیکہ یہ بات یقینی ہو،
مالکیہ کا موقف حنابلہ والا ہے،
شراب کے پینے سے جبکہ پانی میسر نہ ہو،
مردار کھانے سے جب غذا میسر نہ ہو،
زندگی کا بچنا یقینی ہے،
لیکن علاج و دوا سے صحت کا ملنا یقینی نہیں ہے،
اس لیے یہ قیاس مع الفارق ہے،
احناف کے نزدیک امام ابو حنیفہ کا مشہور قول یہی ہے کہ حرام چیز سے علاج جائز نہیں ہے،
امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک جائز ہے،
اور اکثر احناف علماء نے ابو یوسف کے موقف کو اس شرط کے ساتھ تسلیم کیا ہے کہ مسلمان ماہر ڈاکٹر یہ کہتے ہیں،
کہ اس بیماری کا علاج،
اس حرام دوا کے سوا موجود نہیں ہے اور یہ دوا شفاء بخش ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے،
تکملہ ج 2،
ص 298 تا 304) (2)
تندرست ہونے کے بعد ان لوگوں نے ارتداد و بدعہدی کرتے ہوئے،
سولہ (16)
اونٹ بھگا لیے اور ان میں سے ایک کو ذبح کر ڈالا،
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام یسار نے ان کا تعاقب کیا،
تو انہوں نے اس کے ہاتھ،
پاؤں کاٹ ڈالے اور اس کی زبان اور آنکھوں میں کانٹے گاڑ دئیے،
حتی کہ وہ فوت ہو گئے۔
(طبقات لابن سعد،
ج 2،
ص 93) (3)
اور بقول ابن حجر راعی یعنی چرواہا جسے انہوں نے قتل کیا تھا،
وہ صرف حضرت یسار رضی اللہ عنہ تھے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا تو آپ نے ان کے تعاقب کے لیے حضرت کرز بن جابر فھری کی قیادت میں بیس سواروں کا ایک دستہ روانہ فرمایا،
اگلے دن انہوں نے ایک عورت کی راہنمائی سے کھانے سے فراغت کے بعد سب کو گھیر کر قیدی بنا لیا،
اور انہیں باندھ کر اپنے پیچھے گھوڑوں پر سوار کر کے مدینہ منورہ لے آئے،
اور ان کے ساتھ وہ سلوک کیا،
جو انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا،
اور اس سے زائد سزا نہیں دی،
حالانکہ وہ اپنی نمک حرامی،
بدعہدی،
اور حسن سلوک کے جواب میں انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ کاروائی کی بناء پر اس سے بھی زیادہ سنگین سزا کے مستحق تھے،
اور کسی قسم کی رحمدلی،
معافی یا ترس کے قابل نہ تھے،
نیز حدود کے اجراء اور قضاء میں کسی قسم کی نرمی اور رافت روا رکھنا جائز نہیں ہے۔
(4)
ان لوگوں نے ظلم و ستم اور بدعہدی کے ساتھ ڈاکہ اور ارتداد (دین اسلام سے پھر جانا)
کا ارتکاب کیا تھا،
اس لیے ان دونوں مسئلوں پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔
1۔
ڈاکہ اور راہزنی،
ڈاکو یا رہزن وہ فرد یا افراد ہیں،
جن کے خوف اور ڈر سے لوگوں کا راستہ پر چلنا دشوار ہو جائے اور ان سے لوگوں کا جان و مال محفوظ نہ ہو،
اور ان کو اس قدر قوت و شوکت حاصل ہو کہ عوام ان کا مقابلہ کر کے اپنا دفاع نہ کر سکتے ہوں،
اور امام ابن حزم کے نزدیک تو ڈاکو ہر وہ ظالم انسان ہے،
جو اہل ارض کو خوف میں مبتلا کر کے راستہ مسدود کر دے،
اور وہ یہ کام کہیں اور کسی وقت کرے،
دن کو یا رات کو،
شارع عام میں،
یا کسی گلی کوچے میں،
جنگل میں یا آبادی و شہر میں،
احناف اور حنابلہ کے نزدیک ڈاکو کے پاس آلات حرب یا اسلحہ کا ہونا ضروری ہے،
اور مالکیہ اور شوافع کے نزدیک،
مال چھیننے کے لیے محض دھمکی اور قوت و شوکت کا استعمال ہی سزا کے لیے کافی ہے،
ڈاکوؤں اور راہزنوں کی سزا کا انحصار،
ان کی حرکات اور زیادتی پر موقوف ہے،
ڈاکو اگر ڈاکہ زنی سے قبل ہی پکڑ لیے جائیں،
ابھی انہوں نے نہ مال لوٹا اور نہ کسی کی جان لی ہے،
تو انہیں احناف کے ہاں بطور سزا اس وقت تک قید میں رکھا جائے گا،
جب تک وہ اس سے توبہ کر کے اپنی نیک چلنی کا اظہار نہ کریں،
اور اگر وہ چوری کے نصاب کے بقدر مال چھین لیں اور قتل نہ کریں تو ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جانبوں سے قطع کر دئیے جائیں گے،
اور اگر وہ ڈاکہ زنی کی واردات کے دوران قتل کریں اور مال کو ہاتھ نہ لگائیں،
تو انہیں قتل کی سزا دی جائے گی،
جو قصاص نہ ہونے کی بناء پر اولیائے مقتول کی طرف سے معاف نہیں ہو سکے گی،
اگر ڈاکو قتل کے ساتھ،
مال بھی چھین لیں،
تو علامہ تقی کے بقول،
امام کو اختیار ہے،
اگر چاہے تو ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جانبوں سے کاٹ کر قتل کر دے یا سولی پر لٹکا دے،
یا تینوں کام کرے،
یا قتل کر کے،
سولی پر لٹکا دے،
یا صرف قتل کروا دے،
یا سولی پر چڑھا دے۔
(تکملة:
ج 2 ص 311)
لیکن بقول ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن اگر انہوں نے قتل اور حصول مال دونوں جرائم کا ارتکاب کیا ہو تو مخالف جانبوں سے ان کے ہاتھ پاؤں قطع کر کے انہیں قتل کر کے سولی پر چڑھا دیا جائے گا،
یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جانبوں سے کاٹے بغیر صرف قتل کر کے سولی پر چڑھا دیا جائے گا،
اگرچہ ڈاکوؤں کی جماعت کے ایک ہی فرد نے قتل کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو اسلامی قوانین حدود،
قصاص،
دیت و تعزیرات ص 75 شافعیوں کا موقف احناف والا ہے،
صرف آخری صورت میں جب انہوں نے قتل اور حصول مال دونوں جرائم کا ارتکاب کیا ہے،
تو ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے بغیر قتل کر کے سولی پر لٹکا دیا جائے گا،
مالکیہ،
تیسری صورت میں جب ڈاکوؤں نے قتل کیا ہے،
مال نہیں لوٹا،
احناف شوافع کے ہمنوا ہیں کہ ڈاکوؤں کو بطور حد قتل کر دیا جائے گا،
بطور قصاص نہیں،
اس لیے مقتول کے اولیاء معاف نہیں کر سکیں گے،
باقی تینوں صورتوں میں حاکم کو اختیار ہو گا،
ان کو قتل کرے،
یا قتل کر کے سولی پر لٹکا دے یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جوانب کٹوا دے،
یا تعزیر (مار پیٹ)
کے بعد ان کو جلا وطن کر دے۔
(تکملة:
ج 2 ص 312)
لیکن ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن کا بیان اس سے مختلف ہے،
ص 76 (اسلامی قوانین)
حنابلہ کا موقف بھی شوافع والا ہے،
صرف پہلی صورت میں،
جبکہ انہوں نے محض ڈرایا یا دھمکایا ہے،
نہ قتل کیا ہے اور نہ مال چھینا ہے،
تو انہیں کسی ایک علاقہ میں ٹکنے نہیں دیا جائے گا۔
اور ان سزاؤں کا ماخذ سورہ المائدہ کی آیت 22 ﴿إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ۔
۔
۔
﴾ جس میں (او)
کے لفظ کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ تخییر کے لیے قرار دیتے ہیں اور باقی ائمہ بیان و تفصیل کے لیے کہ سزا،
بقدر جرم ہو گی۔
اور آیت میں ﴿یُنْفَوا مِنَ الْأَرْضِ﴾ میں نفی سے مراد اکثریت کے نززدیک قیدوبند ہے اور بقول بعض جلاوطنی۔
بنو عرینہ او ربنو عکل کے لوگوں کا دوسرا جرم ارتداد یعنی دین سے پھرنا ہے،
اسلام جس طرح لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرتا ہے اور جو لوگ،
انسانوں کی جان و مال کے لیے خطرہ پیدا کرتے ہیں،
یا ان کی عزت کو پامال کرتے ہیں تو ان کو عبرتناک سزا دیتا ہے تاکہ لوگوں کا مال اور دین محفوظ رہے،
اس طرح جو انسان،
اسلام سے منکر ہو کر،
مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو کر انہیں گمراہ کرنے اور دین میں فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے،
اس کو سنگین سزا دیتا ہے اور اس کی سزا قتل ہے،
جس پر امت کے فقہاء،
جن میں ائمہ اربعہ داخل ہیں،
متفق ہیں۔
اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ کیونکہ قتل مرتد کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں۔
(تفصیلات کے لیے دیکھیے:
اسلامی قوانین،
حدود،
قصاص،
دیت،
وتعزیرات،
ڈاکٹر تنزیل الرحمان،
ص 146 تا 160)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4353
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4354
حضرت ابو قلابہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ عکل قبیلہ کے آٹھ افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی، سرزمین مدینہ کی آب و ہوا ان کے موافق نہ آئی، اور ان کے جسم بیمار ہو گئے، انہوں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ہمارے چرواہے کے ساتھ نکل کر اس کے اونٹوں میں کیوں نہیں جاتے، کہ تم ان کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4354]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان لوگوں کو چونکہ مارنا مطلوب تھا،
کیونکہ انہوں نے چرواہے کو پیاسا رکھ کر مارا تھا،
اس لیے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا،
جو انہوں نے چرواہے کے ساتھ روا رکھا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4354
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:233
233. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ آئے اور انہیں یہاں کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو نبی ﷺ نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں میں جانے کا حکم دیا کہ وہاں جا کر ان کا دودھ اور پیشاب استعماال کریں، چنانچہ وہ لوگ چلے گئے۔ اور جب وہ صحت مند ہو گئے تو انھوں نے نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا اور جانور ہانک کر لے گئے۔ صبح کے وقت (رسول اللہ ﷺ کو جب) یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان کے تعاقب میں چند آدمی روانہ کیے، چنانچہ سورج بلند ہوتے ہی ان سب کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر آپ کے حکم سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں، اس کے بعد گرم سنگلاخ جگہ پر انہیں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابو قلابہ نے فرمایا: ان لوگوں نے چوری کی، خون ناحق کیا، ایمان کے بعد مرتد ہوئے اور اللہ اور اس کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:233]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ حیوانات کے بول و بزار کے مسائل بیان کر رہے ہیں کہ تمام ابوال ناپاک نہیں بلکہ جن حیوانات کا گوشت کھایا جاتا ہے، مثلاً:
اونٹ، گائے، بکری، بھیڑ اور بھینس وغیرہ ان کا بول و براز پاک ہے۔
اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے حضرت ابو موسی ؓ کا ایک عمل پیش کیا ہے جسے امام بخاری ؒ کے شیخ ابو نعیم نے اپنی تالیف (کتاب الصلوة)
میں موصولاً بیان کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ انھوں نے کوفے سے باہر دارالبرید میں نماز پڑھائی، جہاں گوبر پڑا ہوا تھا جبکہ پاس ہی میدانی علاقہ بھی موجود تھا اور انھیں کہا گیا کہ آپ اپنے قریب جنگل یا میدانی علاقے میں اس نماز کا اہتمام کر لیں انھوں نے فرمایا:
یہاں اور وہاں دونوں برابر ہیں۔
دراصل حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کوفے کے گورنر تھے اور سرکاری ڈاک کی ترسیل کے لیے شہروں کے درمیان اڈے بنے ہوئے تھے جسے دارالبرید کہا جا تا تھا۔
اس زمانے میں گھوڑے اور اونٹ وغیرہ ڈاک برداری میں استعمال ہوتے تھے اور دارالبرید میں ان کے باندھنے اور گھاس چارے کا انتظام ہوتا تھا، ان میں گوبر بھی ہوتا اور زمین بھی ان کے پیشاب سے تر رہتی، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ وہاں نماز پڑھ لیتے تھے۔
یہ کسی مجبوری کے پیش نظر نہیں بلکہ سامنے ہی کھلا میدان تھا۔
اگر کبھی توجہ دلائی جاتی کہ حضرت وہاں نماز پڑھ لیں تو فرماتے محل وقوع کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں، حالانکہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ عام معاملات میں متشدد ہونے کی حد تک محتاط تھے جن کا تشدد اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ پیشاب کرتے وقت اپنے ساتھ ایک بوتل رکھتے تاکہ پیشاب کے چھینٹوں سے محفوظ رہ سکیں، ان کا ایسے مقام پر نماز پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ”ماکول اللحم “حیوانات کا بول و براز نجس نہیں۔
2۔
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ کا دوسرا استدلال حدیث عرنیین ہے، اس حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے لوگوں سے متعلق ہے جن کی تعداد آٹھ تھی(حدیث: 3018)
اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب بطور دوا تجویز فرمایا۔
نیز صحیح بخاری میں تصریح ہے کہ مسلمان اونٹوں کے پیشاب سے علاج کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
(صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5781)
اگر اونٹوں کا پیشاب نجس ہوتا تو رسول اللہ ﷺ قطعی طور پر اسے بطور دوا تجویز نہ فرماتے، کیونکہ حدیث نبوی ہے۔
”اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں میں شفا نہیں رکھی۔
“(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3873)
صحیح بخاری میں یہ الفاظ عبد اللہ بن مسعود ؓ کی طرف منسوب ہیں۔
(صحیح البخاري، الأشریة، باب:
رقم 15)
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اونٹوں کے دودھ اور پیشاب میں پیٹ کی بیماریوں کا علاج ہے۔
“(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3874)
معلوم ہوا کہ اونٹوں کا پیشاب حرام نہیں۔
اگر حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے بطور دوا تجویز نہ فرماتے، کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ نے حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3874)
امام مالک ؒ، امام احمد ؒ، ابن خذیمہ ؒ، ابن منذرؒ، ابن حبان ؒ اور دیگر کئی علمائے سلف کے نزدیک ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔
اس کے برعکس امام شافعیؒ، امام ابوحنیفہ ؒ، اور دیگر کئی علماء کے نزدیک تمام جانوروں کا پیشاب ناپاک ہے۔
دوسرے قول کے قائلین پیشاب سے پرہیز کرنے کی روایت سے یہ مراد لیتے ہیں کہ اس میں انسانوں کے علاوہ جانوروں کا پیشاب بھی ہے، لیکن ان کا یہ موقف درست نہیں، کیونکہ حلال جانوروں کے پیشاب کا استثنا حدیث سے ثابت ہے۔
اور ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب کے ناپاک ہونے کے متعلق دیگرتمام روایات بھی ضعیف ہیں۔
بہرحال جن حیوانات کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کاپیشاب نجس نہیں، جیساکہ حدیث الباب سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔
اور جس پیشاب سےاجتناب کرنے کا حکم ہے اس سے مراد بھی لوگوں کاپیشاب ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے کہا ہے۔
نیزحدیث (قبرین)
اورحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کاواقعہ بھی اس کا واضح ثبوت ہے، اس کے متعلق جو بھی اعتراضات یا اشکالات پیش کیے گئے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اگراونٹوں کا پیشاب نجس ہوتا اوراس کی بطور دوا بامر مجبوری اجازت دی ہوتی تو کم از کم رسول اللہ ﷺ اس کی وضاحت فرما دیتے اور استعمال کرنے والوں کو ہدایت دیتے کہ اس کے استعمال کے بعد تم نے اپنے منہ دھولینے ہیں، جبکہ ایسی کوئی وضاحت کتب حدیث میں نہیں ملتی، اس کےعلاوہ رسول اللہ ﷺ نے حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3874)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 233
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1501
1501. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے چند لوگ مدینہ طیبہ آئے تو اس کی آب وہوا ان کے موافق نہ آئی۔ رسول اللہ ﷺ نےانھیں اجازت دی کہ وہ صدقے کے اونٹوں میں جاکر ان کاد ودھ اور پیشاب نوش کریں۔ انھوں نے چرواہے کوقتل کردیا اور اونٹ لے کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی روانہ کیے، چنانچہ انھیں گرفتار کرکے لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کاحکم دیا، نیزان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنے کوکہا، پھر انھیں گرم پتھریلی زمین پر پھینک دیا، چنانچہ وہ پیاس کے مارے پتھروں کو چباتے تھے۔ ابوقلابہ، حمید اور ثابت نے حضرت انس ؓ سے روایت کرنے میں قتادہ ؓ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1501]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؓ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جہاں زکاۃ خرچ کی جاتی ہے وہاں مالِ زکاۃ دینے کے بجائے اس کے فوائد دینے پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے کیونکہ صدقے کے اونٹوں کا دودھ پینا یا ان پر سواری کرنا ان کے فوائد ہیں، رسول اللہ ﷺ نے مسافروں کے لیے انہیں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
(2)
ابن بطال نے کہا ہے کہ مصارف زکاۃ کی آٹھ اقسام میں سے صرف ایک قسم کو زکاۃ دینا بھی صحیح ہے، اگرچہ یہ بات صحیح ہے لیکن اسے امام بخاری ؒ کا مقصد قرار دینا محل نظر ہے، ممکن ہے کہ آپ نے ان کے حصے میں آنے والے اونٹوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ہو، علاوہ ازیں حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں صدقے کے اونٹوں کا مالک بنا دیا ہو بلکہ حدیث میں صرف دودھ پینے کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 461/3) (3)
واضح رہے کہ ابو قلابہ کی متابعت پہلے کتاب الطہارۃ میں بیان ہو چکی ہے (صحیح البخاري، الطھارة، حدیث: 233)
اور حمید کی متابعت کو مسلم، نسائی وغیرہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، (صحیح مسلم، القسامة والمحاربین، حدیث: 4353(1671)
، و سنن النسائي، المحاربة، حدیث: 4034، 4033)
نیز ثابت کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی کتاب الطب (حدیث: 5685)
میں اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 462/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1501
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3018
3018. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمیوں کی ایک جماعت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور انھیں مدینہ طیبہ کی آب وہوا موافق نہ آئی تو آپ ﷺ سے کہنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے لیے اونٹنیوں کے دودھ کا بندوبست کردیں۔ آپ نے فرمایا: ”میرے پاس تمہارے لیے اس کے سواکوئی صورت نہیں کہ تم اونٹنیوں ک پڑاؤ میں قیام کرو۔“ چنانچہ وہ چلے گئے اور وہاں اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پیا تو تندرست ہوکر پہلے سے بھی زیادہ موٹے ہوگئے۔ پھر انہوں نے چرواہے کو قتل کردیا اور سب اونٹ ہانک کر لے گئے اور مسلمان ہونے کے بعد ارتداد کا راستہ اختیار کرلیا۔ نبی کریم ﷺ کوایک پکارنے والے کے ذریعے سے ان کی خبر ملی توآپ نے تلاش کنندہ ان کے تعاقب میں روانہ فرمائے۔ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ انھیں پکڑ کر آپ کے حضور پیش کردیا گیا۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کا حکم دیا۔ پھر لوہے کی سلاخیں گرم کی گئیں اور انھیں ان کی آنکھوں میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3018]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺنے ان مرتدین کےساتھ وہی برتاؤ کیا جو انھوں نے سرکاری چرواہے کے ساتھ کیاتھا، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے:
رسول اللہ ﷺنے ان مرتدین کی آنکھوں میں گرم گرم سلاخیں اس لیے پھروائی تھیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیری تھیں۔
(صحی مسلم، القسامة و المحاربین، حدیث 4360(1671)
آپ نے یہ کام قصاص کے طور پر کیا تھا۔
2۔
جن احادیث میں ایساکرنے کی ممانعت بیان ہوئی ہے اس سے مراد قصاص کے بغیر ایسا کرنے کی ممانعت ہے لہذا جواز اور نہی کی دونوں احادیث کے الگ الگ محل ہیں۔
بہرحال بے ایمان،شریر اور نمک حرام لوگوں کو اتنی ہی سخت سزادینی چاہیے تاکہ دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں اورباقی لوگ ان کے ظلم وتشدد سے نجات پاسکیں۔
(فتح الباري: 185/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3018
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4192
4192. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے چند لوگ مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کلمہ توحید پڑھ کر اظہار اسلام کیا اور عرض کرنے لگے: اللہ کے نبی! ہم لوگ مویشی رکھتے ہیں، زرعی زمینوں والے نہیں ہیں۔ انہیں مدینہ طیبہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو رسول اللہ ﷺ نے کچھ اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور حکم دیا کہ شہر سے باہر کھلی فضا میں نکل جائیں اور ان اونٹوں کا دودھ اور پیشاب نوش کریں۔ وہ روانہ ہوئے لیکن حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے برگشتہ ہو گئے اور نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کو جب ان کی خبر ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے تعاقب میں بھیجا (جب وہ انہیں پکڑ کر لائے تو) آپ نے انہیں سزا دینے کا حکم دیا، چنانچہ ان کی آنکھوں میں گرم آہنی سلائیاں پھیری گئیں۔ ان کے ہاتھ کاٹ دئے گئے اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4192]
حدیث حاشیہ:
1۔
عکل اور عرینہ کے لوگوں نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ تکلیف کے ساتھ اظہار اسلام کیا جیسا کہ روایت کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔
ان کی تعداد آٹھ تھی۔
(صحیح البخاري، الدیات، حدیث: 6899)
جب وہ اونٹ لے کر بھاگنے لگے تو چرواہےنے مزاحمت کی، اس پر انھوں نے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے اور یہی وجہ ہے کہ ان ڈاکوؤں کے ساتھ بطور قصاص ہی کچھ کیا گیا جو انھوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا۔
جب وہ مدینہ طیبہ میں آئے تو مرض استقاء میں مبتلا ہو گئےرسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پینے کا نسخہ تجویز کیا۔
جب وہ تندرست ہو گئے تو انھوں نے مذکورہ گھناؤنی واردات کا ارتکاب کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے تقریباً بیس انصاری نوجوانوں کو ان کے تعاقب میں بھیجا اور ان کے ساتھ ایک کھوجی بھی روانہ کیا۔
(صحیح مسلم، القسامة والحاربین، حدیث: 4353)
حافظ ابن قیم ؒ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں بددعا فرمائی:
”اے اللہ!عریینوں پر راستہ اندھا کردے اور اسے کنگن سے بھی زیادہ تنگ بنا دے۔
“ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی چنانچہ ان پر راستہ تنگ ہو گیا۔
(زاد المعاد: 286/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4192
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5685
5685. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کچھ لوگ بیمار تھے انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمیں قیام کے لیے جگہ دے دیں اور ہمارے کھانے کا بندوبست فرما دیں۔ پھر جو وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ کی آب وہوا خراب ہے جو ہمارے موافق نہیں تو آپ نے مقام حرہ میں اونٹوں کے ساتھ ان کے قیام کا بندوبست کر دیا اور فرمایا: ”اونٹنیوں کا دودھ پیو۔“ جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور آپ کے اونٹ ہانک کر لے گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی بھیجے تو وہ انہیں پکڑ لائے۔ آپ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں۔ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا وہ اپنی زبان سے زمین چاٹتا تھا اور وہ اسی حالت میں مرگیا۔ (راوی حدیث) اسلام نے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حجاج نے حضرت انس ؓ سے کہا: تم مجھ سے سخت ترین سزا بیان کرو جو نبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5685]
حدیث حاشیہ:
(1)
کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف بہت ظالم تھا۔
وہ ظلم کرنے میں تھوڑا سا سہارا لے کر سخت سے سخت ظلم کرتا تھا۔
حلال جانور کے دودھ میں شفا ہے۔
اگر کسی کا پیٹ بڑھ جائے تو اطباء علاج کے لیے اونٹنی کا دودھ تجویز کرتے ہیں۔
اس کے استعمال سے فاسد مواد خارج ہو کر پیٹ اپنے اعتدال پر آ جاتا ہے۔
ان بدبختوں کو بھی یہی عارضہ تھا۔
مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے ان کے پیٹ بڑھ گئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اونٹوں کے باڑے میں بھیج دیا اور انہیں اونٹنیوں کا دودھ پینے کی تلقین کی، چنانچہ جب وہ صحت مند ہو گئے تو چرواہے کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا مُثلہ کیا، پھر اونٹ ہانک کر لے گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے وہی سزا تجویز کی جو انہوں نے سرکاری چرواہے کے لیے روا رکھی تھی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اونٹنیوں کا دودھ بطور دوا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5685
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5686
5686. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ مدینہ میں چند لوگوں نے (مدینہ طیبہ کی) آب وہوا کو ناموافق پایا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”وہ آپ کے چرواہے کے پاس چلے جائیں۔“ یعنی اونٹنیوں کے باڑے میں قیام رکھیں وہاں ان کا دودھ نوش کریں اور ان کا پیشاب بھی پئیں، چنانچہ وہ لوگ آپ کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور انہوں نے وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جب ان کے جسم صحت مند ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ان کے تعاقب میں آدمی بھیجے، جب انہیں پکڑ کر لایا گیا تو آپ کے حکم سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں قتادہ نے کہا: مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا: یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5686]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ لوگ اصل میں ڈاکو اور راہزن تھے، اگرچہ مدینہ طیبہ میں آ کر بظاہر اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اصل خصلت میں کوئی انقلاب نہ آیا۔
موقع پاتے ہی انہوں نے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹ لے گئے، پھر انہیں وہی سزا دی گئی جو حدیث میں مذکور ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اونٹوں کا پیشاب بطور دوا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5686
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5727
5727. حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ سے چند لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اسلام کے متعلق گفتگو کی، پھر کہا: اللہ کے رسول! ہم مویشی پالنے والے ہیں اور زراعت پیشہ یا کھجوروں والے نہیں ہیں مدینہ طیبہ کی آب وہوا انہیں موافق نہیں آتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے چند اونٹوں اور ایک چرواہے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہ ان اونٹوں کے ساتھ مدینہ سے باہر چلے جائیں وہاں ان کا دودھ اور پیشاب نوش کریں چنانچہ وہ لوگ باہر چلے گئے لیکن حرہ کے نزدیک پہنچ کر وہ اسلام سے مرتد ہوگئے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹ لے کر بھاگ نکلے جب رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر ملی تو آپ نے ان کے تعاقب میں چند آدمی روانہ کیے پھر آپ نے ان کے متعلق حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیری گئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے گئے پھر حرہ کے کنارے انہیں چھوڑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5727]
حدیث حاشیہ:
(1)
جس علاقے کی آب و ہوا موافق نہ ہو وہاں سے کسی دوسرے علاقے میں جانا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ لوگوں کو مدینہ طیبہ سے حرہ بھیج دیا تھا، لیکن وہ مرتد ہو کر جرائم پیشہ ہو گئے۔
انہوں نے ایسی حرکت کی کہ انہیں وہی سزا دی گئی جو ان کے مناسب تھی۔
(2)
بہرحال عنوان اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ طیبہ کی آب و ہوا ناموافق ہونے کی وجہ سے باہر چلے جانے کا حکم دیا تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر طاعون وغیرہ کی وجہ سے آب و ہوا ناموافق ہو جائے تو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کسی دوسری جگہ جانا درست نہیں جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا لیکن اس کے بغیر آب و ہوا کے ناموافق ہونے سے کسی دوسری جگہ جانا منع نہیں ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 220/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5727
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6802
6802. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس قبیلہ عکل کے چند آدمی آئے اور اسلام قبول کیا لیکن مدینہ طیبہ کی آب وہوا ان کو موافق نہ آئی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم صدقے کے اونٹوں کے پاس رہائش رکھو اور ان کا پیشاب اور دودھ نوش کرو۔ انہوں نے (ایسا) کیا تو صحت یاب ہوگئے، لیکن اس کے بعد وہ دین سے برگزشتہ ہوگئے اور اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ آپ ﷺ نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے تو وہ انہیں گرفتار کر کے لے آئے۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں (مخالف سمت سے) کاٹنے کا حکم دیا، نیز ان کی آنکھیں بھی پھوڑی دی گئیں، پھر آپ نے ان کے زخموں پر داغ نہ دیا حتیٰ کہ وہ سسک سسک کر مرگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6802]
حدیث حاشیہ:
(1)
عربوں کے ہاں ہاتھ پاؤں کاٹنے کے بعد انھیں جلتے تیل میں داغ دینے کا رواج تھا، اس طرح وہ زخم جلدی ٹھیک ہو جاتے لیکن ان ظالموں کو داغنے کے بغیر ہی چھوڑ دیا گیا، اس طرح وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔
مفسرین کی تصریح کے مطابق درج بالا آیت کریمہ اس واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ کفارومرتدین تھے جیسا کہ ان کے قائم کردہ عنوان سے ظاہر ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگرچہ یہ آیت کفارومرتدین کے متعلق نازل ہوئی ہے، لیکن الفاظ کے عموم کے اعتبار سے ہر جنگجو کے لیے ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے ساتھ ڈاکا زنی کا مرتکب ہو، البتہ ان کی سزائیں مختلف ہیں:
اگر وہ کافر ہیں تو حاکم وقت کی صوابدید پر موقوف ہے کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے اور اگر وہ مسلمان ہیں تو ان کے جرم کی نوعیت کو دیکھا جائے گا۔
اگر اس نے قتل کیا ہے تو اس کے بدلے اسے قتل کیا جائے گا، اگر مال لوٹا ہے تو ہاتھ کاٹا جائے۔
اگر قتل یا مال لوٹنے کا ارتکاب نہیں کیا تو بحالئ امن کے لیے اسے جلا وطن کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 134/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6802
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6803
6803. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اہل عرینہ نے ہاتھ پاؤں (مخالف سمت سے) کاٹنے کا حکم دیا لیکن انہیں داغ نہیں دیا حتیٰ کہ وہ مر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6803]
حدیث حاشیہ:
(1)
چور کا ہاتھ کاٹنے کے بعد اس کا خون بند کرنے کے لیے آگ سے داغ دیا جاتا ہے تاکہ خون بہنے سے موت واقع نہ ہوجائے جس کی صورت یہ ہوتی کہ ہاتھ کاٹنے کے بعد اسے گرم تیل میں رکھ دیا جاتا ہے لیکن داغ دینے کی یہ ایک صورت ہے۔
اس کی اور بھی کئی صورتیں ہیں۔
(2)
ان مرتدوں کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کے بعد ان کو داغ نہیں دیا کیونکہ انھیں مارنا ہی مقصود تھا لیکن چور کو موت کے گھاٹ اتارنا مقصود نہیں ہوتا، اس لیے خون روکنے کے لیے داغ دینا ضروری ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 135/12) (3)
اس حدیث میں اہل عرینہ کی صراحت ہے جبکہ اس سے پہلے حدیث میں قبیلۂ عکل کا ذکر تھا؟ تطبیق یوں ہے کہ وہ دونوں قبیلوں سے تھے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4192)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6803
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6804
6804. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ عکل کے چند لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے ٖصفہ میں رہائش رکھی لیکن مدینہ طیبہ کی آب وہوا انہیں موافق نہ آئی تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے کہیں سے دودھ کا بندوبست کردیں،آپ ﷺ نے فرمایا: ہمارے لیے یہ انتظام تو مشکل ہے البتہ تم رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں کے پاس جاکر رہو، چنانچہ وہ اونٹوں کے پاس آئے اور وہاں ان کا دودھ اور پیشاب پینے لگے، پھر صحت مند ہوکر خوب موٹے تازے ہوگئے آخر کار انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے، اس دوران میں نبی ﷺ کے پاس ان کی خبر دینے والا آیا تو آپ نے ان کی تلاش میں چند سواروں کو روانہ کیا۔ ابھی دھوپ زیادہ نہیں پھیلی تھی کہ انہیں گرفتار کرکے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ آپ ﷺ کے حکم سے لوہے کی سلائیاں گرم کی گئیں جنہیں آپ نے ان کی آنکھوں میں پھیر دیا، نیز ان کے ہاتھ اور پاؤں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6804]
حدیث حاشیہ:
(1)
عکل اور قرینہ قبیلوں سے جنگجو اور عسکریت پسندوں کا ٹولہ آٹھ افراد پر مشتمل تھا۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 3018) (2)
حجاج بن یوسف نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ سنگین سزا کون سی دی تھی؟ جواب کے طور پر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا:
کاش! آپ ایسا نہ کرتے۔
(صحیح البخاري، الطلب، حدیث: 5685) (3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب کرنے کے باوجود انھیں پانی نہ دیا، حالانکہ آپ بہت مہربان اور امت کے حق میں بے حد شفقت کرنے والے ہیں؟ محدثین نے اس کی دو وجوہات بیان کی ہیں:
٭انھوں نے پینے پلانے کی نعمت کو فراموش کیا تھا کیونکہ وہ دودھ پینے سے ہی تندرست ہوئے تھے، اس کفران نعمت کی وجہ سے انھیں پانی سے محروم کیا گیا۔
٭ان اونٹوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ بھی تھے جن کے دودھ سے اہل خانہ گزر اوقات کرتے تھے۔
جب وہ اونٹ ہانک کر لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ بھی اس رات پیاسے رہے۔
آپ نے بددعا فرمائی:
اللہ انھیں پیاسا رکھے جنھوں نے آج رات آل محمد کو پیاسا رکھا ہے۔
انھیں پیاسا رکھنا اس بددعا کا نتیجہ تھا۔
لیکن یہ روایت مرسل ہے۔
بہرحال ان کے ساتھ مکافات عمل (بدلے)
کے طور پر وہی برتاؤ کیا گیا جو انھوں نے کیا تھا جیسا کہ حدیث کے آخر میں ابو قلابہ نے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 12/136)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6804
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6805
6805. حضرتانس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے چند آدمی مدینہ طیبہ آئے تو نبی ﷺ نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیوں کا بندوبست کر دیا اور فرمایا کہ وہ اونٹوں کے گلے میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ نوش کریں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کے پاس یہ خبر صبح کے وقت پہنچی تو آپ نے ان کے تعاقب میں سوار دوڑائے۔ ابھی دھوپ زیادہ نہیں پھیلی تھی کہ انہیں گرفتار کرکے لایا گیا۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دینے کا حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائیاں پھیری گئیں۔ پھر انہیں پتھریلے گرم میدان میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہ پلایا گیا۔ ابو قلابہ نے کہا: وہ لوگ تھے جنہوں نے چوری کی، قتل کیا ایمان کے بعد کفر اختیار کیا تھا نیز انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف باغیانہ کارروائی کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6805]
حدیث حاشیہ:
وہ نمک حرام انتہائی احسان فراموش نکلے۔
ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ انھی کا کیا دھرا تھا۔
انھوں نے اونٹوں کے چرواہے کے ساتھ اسی قسم کا برتاؤ کیا تھا۔
اس مقام پر ایک اشکال ہے کہ حدیثِ عبادہ کے مطابق جس پر حد جاری ہو جائے وہ اس کے گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے جبکہ عسکریت پسندوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”یہ سزا ان کے لیے دنیا میں رسوائی کا باعث اور آخرت میں سخت ترین عذاب کا پیش خیمہ ہوگی۔
“ (المائدة: 5: 33)
اس آیت کے مطابق دنیا کی سزا ان کے لیے کفارہ نہیں ہوگی۔
اس کا جواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس طرح دیا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث اہل اسلام کے ساتھ خاص ہے لیکن کافر یا مشرک کا قتل اس کے لیے کفارہ نہیں ہوگا کیونکہ کفروشرک ناقابل معافی جرم ہیں، جو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”بے شک اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا۔
“ (النساء: 4: 48)
بہرحال مسلمان اور کافر کا معاملہ الگ الگ ہے۔
(فتح الباري: 12/137)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6805