(مرفوع) حدثنا ابو بكر , حدثنا يزيد بن هارون , انبانا داود بن ابي هند , عن ابي نضرة , عن ابي سعيد الخدري ," ان ابا موسى استاذن على عمر ثلاثا , فلم يؤذن له فانصرف , فارسل إليه عمر ما ردك , قال:" استاذنت الاستئذان الذي امرنا به رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا , فإن اذن لنا دخلنا , وإن لم يؤذن لنا رجعنا" , قال: فقال: لتاتيني على هذا ببينة او لافعلن , فاتى مجلس قومه فناشدهم , فشهدوا له فخلى سبيله. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ," أَنَّ أَبَا مُوسَى اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ ثَلَاثًا , فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَانْصَرَفَ , فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ مَا رَدَّكَ , قَالَ:" اسْتَأْذَنْتُ الِاسْتِئْذَانَ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا , فَإِنْ أُذِنَ لَنَا دَخَلْنَا , وَإِنْ لَمْ يُؤْذَنْ لَنَا رَجَعْنَا" , قَالَ: فَقَالَ: لَتَأْتِيَنِّي عَلَى هَذَا بِبَيِّنَةٍ أَوْ لَأَفْعَلَنَّ , فَأَتَى مَجْلِسَ قَوْمِهِ فَنَاشَدَهُمْ , فَشَهِدُوا لَهُ فَخَلَّى سَبِيلَهُ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی، تو وہ لوٹ گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے ایک آدمی بھیجا اور بلا کر پوچھا کہ آپ واپس کیوں چلے گئے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ویسے ہی تین مرتبہ اجازت طلب کی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے، اگر ہمیں تین دفعہ میں اجازت دے دی جائے تو اندر چلے جائیں ورنہ لوٹ جائیں، تب انہوں نے کہا: آپ اس حدیث پر گواہ لائیں ورنہ میں آپ کے ساتھ ایسا ایسا کروں گا یعنی سزا دوں گا، تو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنی قوم کی مجلس میں آئے، اور ان کو قسم دی (کہ اگر کسی نے یہ تین مرتبہ اجازت طلب کرنے والی حدیث سنی ہو تو میرے ساتھ اس کی گواہی دے) ان لوگوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا کر گواہی دی تب عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو چھوڑا ۱؎۔
وضاحت: ۱ ؎: «استئندان» کیا ہے؟ ایک یہ ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر تین بار بلند آواز سے «السلام علیکم» کہے، اور پوچھے کہ فلاں شخص یعنی اپنا نام لے کر بتائے کہ اندر داخل ہو یا نہیں؟ اگر تینوں بار میں گھر والا جواب نہ دے تو لوٹ آئے، لیکن بغیر اجازت کے اندر گھسنا جائز نہیں ہے، اور یہ ضروری اس لئے ہے کہ آدمی اپنے مکان میں کبھی ننگا کھلا ہوتا ہے،کبھی اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہے، اگر بلا اجازت اندر داخل ہونا جائز ہو تو بڑی خرابی ہو گی، اب یہ مسئلہ عام تہذیب اور اخلاق میں داخل ہو گیا ہے کہ کسی شخص کے حجرہ یا مکان میں بغیر اجازت لئے اور بغیر اطلاع دئیے لوگ نہیں گھستے، اور جو کوئی اس کے خلاف کرے اس کو بے ادب اور بے وقوف جانتے ہیں۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3706
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا منع ہے۔
(2) اجازت طلب کرنے کا طریقہ یہ۔ السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتاو ہوں؟ (سنن أبي داؤد، باب كيف: الإستئدان، حديث: 5177)
(3) اگر ایک بار اجازت مانگنے پر جواب نہ ملے تو دوسری اور تیسری بار اجازت طلب کرنی چاہیے۔ آج کل اجازت مانگنے کا طریقہ مختلف ہو گیا ہے جیسے گھنٹی بجانا، یہ بھی وقفے وقفے سے صرف تین بار بجائی جائے۔ اگرکوئی جواب نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ گھنٹی بجا بجا کر سارے محلے کو پریشان نہ کیا جائے۔
(4) اگر تین بار اجازت مانگنے پر بھی اجازت نہ ملے تو اہل خانہ سے ناراض ہوئے بغیر واپس ہو جانا چاہیے۔ ممکن ہے صاحب خانہ گھر میں موجود نہ ہو یا کوئی ایسی معقول وجہ ہو جس کی بنا پر وہ اجازت نہ دے رہا ہو۔
(5) حضرت عمر ؓ نے گواہ اس لیے طلب فرمایا کہ وہ مزید اطمینان چاہتے تھے۔ اور اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ جب دیکھیں گے کہ عمر ؓ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی غیر ذمہ دار لوگ کا رویہ رکھتے ہیں تو ہر شخص بالا تحقیق احادیث بیان کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اس طرح غیرذمہ دار لوگ غلط الفاظ کے ساتھ یا اپنے پاس سے بنا کر احادیث بیان نہیں کریں گے۔
(6) حدیث دین کی بنیاد ہے لہٰذا صحیح اور ضعیف میں فرق کرنا بہت ضروری ہے۔
(7) احادیث کی کتابوں میں ضعیف احادیث موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ائمہ حدیث ہر حدیث کے ساتھ سند بیان کیا کرتے تھے جس سے سامعین کو حدیث کے درجے کا علم ہو جاتا تھا۔ بعض اوقات اس لیے ضعیف حدیث بیان کر دیتے تھے کہ ممکن ہے اس حدیث کی دوسری سند مل جائے جس سے اس کا ضعف ختم ہو کر حدیث قابل قبول ہو جائے تا ہم ہر وہ حدیث جو ایک سے زیادہ سندوں سے مروی ہو قابل قبول نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے بعض شروط کا پایا جانا ضروری ہے جس کی تفصیل اصول حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3706
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5180
´گھر میں داخل ہونے کی اجازت لینے کے لیے آدمی کتنی بار سلام کرے؟` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں انصار کی مجالس میں سے ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے آئے، تو ہم نے ان سے کہا: کس چیز نے آپ کو گھبراہٹ میں ڈال دیا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا تھا، میں ان کے پاس آیا، اور تین بار ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، مگر مجھے اجازت نہ ملی تو میں لوٹ گیا (دوبارہ ملاقات پر) انہوں نے کہا: تم میرے پاس کیوں نہیں آئے؟ میں نے کہا: میں تو آپ کے پاس گیا تھا، تین بار اجازت مانگی، پھر مجھے اجازت نہ دی گئی، رسول اللہ صلی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5180]
فوائد ومسائل: 1۔ اجازت طلب کرنے کے لئے اصل شرعی ادب اسلام علیکم کہنا ہے اور تین بار سلام کہہ کر اجازت مانگی جائے۔ اسی پر دستک دینے یا گھنٹی بجانے کو قیاس کرنا چاہیے۔ اس سے زیادہ خلاف ادب ہے، نہ معلوم گھر والا کسی خاص کام میں مشغول ہو یا آرام کر رہا ہو، تو اسے پریشان نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں دستک دینے یا گھنٹی بجانے میں بھی بے ادبی یا بد تمیزی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اتنی زور سے دستک دیتے ہیں کہ اڑوس پروس کے لوگوں کا سکون بھی بر باد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگ گھنٹی اس طرح تسلسل سے بجاتے ہیں جیسے انہوں نے مردوں کو زندہ کرنا یا بہروں کو سنانا ہے یہ بے ہوگیاں ہماری اخلاقی پستی کی غماز ہیں۔
2: اجازت یا جواب نہ ملنے پر بلاوجہ ناراض انہیں ہونا چاہیے، بلکہ واپس آجانا چاہیے۔
3: حضرت عمر رضی اللہ احادیث رسول کی روایت میں اس لئے شدید تھے کہ لوگ کہیں یقین واعتماد کے بغیر رسول ﷺکی طرف سے نسبت نہ کرنے لگیں اور اللہ انہیں جزائے خیر دے یہ ان کی بہت بڑی دانائی کی سختی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5180
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2690
´کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے تین بار اجازت حاصل کرنے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے، تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو دو ہی بار اجازت طلب کی ہے۔ تھوڑی دیر (مزید) خاموش رہ کر انہوں نے پھر کہا: «السلام عليكم» کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے؟ عمر رضی الله عنہ ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2690]
اردو حاشہ: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات ایک ادنی شخص کو علم دین کی وہ بات معلوم ہو سکتی ہے جو کسی بڑے صاحب علم کو معلوم نہیں، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ تین بار اجازت طلب کرنے پر اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ جانا چاہیے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2690
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5628
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ حاضر تھے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ناراضی کی حالت میں آ کر رک گئے اور کہنے لگے، میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے ”اجازت تین دفعہ طلب کی جائے، اگر تجھے اجازت مل جائے (تو ٹھیک) وگرنہ لوٹ جاؤ۔“ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا، اس کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5628]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے بینہ کا مطالبہ دوسرے دن کیا تھا، چونکہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس دن حضرت ابو موسیٰ اشعری کو طلب کیا تھا اور ان کے جواب پر بینہ کا مطالبہ کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی مشغولیت سے فارغ ہو کر، ان کے بارے میں پوچھا اور جب یہ بتایا گیا تھا کہ وہ آ کر چلے گئے ہیں تو ان کی طرف پیغام رساں بھیجا، لیکن وہ نہ مل سکے اور خود ہی دوسرے دن حاضر ہو گئے۔