سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
The Chapters on Jihad
16. بَابُ : فَضْلِ الشَّهَادَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
16. باب: اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت۔
Chapter: The virtue of martyrdom in the cause of Allah
حدیث نمبر: 2800
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي ، حدثنا موسى بن إبراهيم الحرامي الانصاري ، سمعت طلحة بن خراش ، سمعت جابر بن عبد الله ، يقول: لما قتل عبد الله بن عمرو بن حرام يوم احد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا جابر، الا اخبرك ما قال الله عز وجل لابيك؟ قلت: بلى، قال:" ما كلم الله احدا إلا من وراء حجاب وكلم اباك كفاحا، فقال: يا عبدي تمن علي اعطك، قال: يا رب تحييني فاقتل فيك ثانية، قال: إنه سبق مني انهم إليها لا يرجعون، قال: يا رب فابلغ من ورائي"، فانزل الله عز وجل هذه الآية ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا سورة آل عمران آية 169 الآية كلها.
(قدسي) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَرَامِيُّ الْأَنْصَارِيُّ ، سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ ، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: لَمَّا قُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ يَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا جَابِرُ، أَلَا أُخْبِرُكَ مَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِأَبِيكَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ:" مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَكَلَّمَ أَبَاكَ كِفَاحًا، فَقَالَ: يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ، قَالَ: يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلُ فِيكَ ثَانِيَةً، قَالَ: إِنَّهُ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ، قَالَ: يَا رَبِّ فَأَبْلِغْ مَنْ وَرَائِي"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَذِهِ الْآيَةَ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا سورة آل عمران آية 169 الْآيَةَ كُلَّهَا.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب جنگ احد میں (ان کے والد) عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جابر! اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے جو فرمایا ہے کیا میں تمہیں وہ نہ بتاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں! ضرور بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی سے بات کی تو پردہ کے پیچھے سے لیکن تمہارے والد سے آمنے سامنے بات کی، اور کہا: اے میرے بندے! مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کرو، میں تجھے عطا کروں گا، انہوں نے کہا: اے میرے رب! تو مجھے دوبارہ زندہ کر دے کہ میں دوبارہ تیرے راستے میں مارا جاؤں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس بات کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لوٹایا نہیں جائے گا، انہوں نے کہا: اے میرے رب! میرے پسماندگان کو (میرا حال) پہنچا دے، تو یہ آیت نازل ہوئی: «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا» (سورۃ آل عمران: ۱۶۹) جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں تم مردہ مت سمجھو ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: اس سے بدھ مت والوں اور ہندؤں کا مذہب باطل ہوتا ہے، ان کے نزدیک سب آدمی اپنے اپنے اعمال کے موافق سزا اور جزا پا کر پھر دنیا میں جنم لیتے ہیں، مگر جوپرم ہنس یعنی کامل فقیر اللہ کی ذات میں غرق ہو جاتا ہے اس کا جنم نہیں ہوتا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2257 (ألف)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن (3010)، تقدم برقم: 190 (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   جامع الترمذي3010جابر بن عبد اللهعبدي تمن علي أعطك قال يا رب تحييني فأقتل فيك ثانية قال الرب إنه قد سبق مني أنهم إليها لا يرجعون قال وأنزلت هذه الآية ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا
   سنن ابن ماجه2800جابر بن عبد اللهما كلم الله أحدا إلا من وراء حجاب كلم أباك كفاحا فقال يا عبدي تمن علي أعطك قال يا رب تحييني فأقتل فيك ثانية قال إنه سبق مني أنهم إليها لا يرجعون قال يا رب فأبلغ من ورائي فأنزل الله هذه الآية ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا
   سنن ابن ماجه190جابر بن عبد اللهعبدي تمن علي أعطك قال يا رب تحييني فأقتل فيك ثانية فقال الرب سبحانه إنه سبق مني أنهم إليها لا يرجعون قال يا رب فأبلغ من ورائي قال فأنزل الله ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2800 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2800  
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
فوت ہونے والے کے پسماندگان کو تسلی وتشفی دینی چاہیے اورا یسی باتیں کہنی چاہیئں جن سے ان کا غم ہلکا ہو،
(2)
وفات کے بعد اللہ تعالی نیک بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے۔

(3)
جنت میں الله کا دیدار ممکن ہے۔
اور جنتیوں کو اپنے اپنے درجات کے مطابق کم یا زیادہ وقفے سے نعمت حاصل ہوگی۔

(4)
فوت ہوجانے والے لوگ یا شہید دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے لہٰذا اس قسم کی حکایتوں میں کوئی صداقت نہیں کہ فلاں صحابی یا شہید یا ولی نے اپنی وفات کے بعد فلاں صاحب سے ملاقات کی اور فلاں معاملے میں اس کی رہنمائی کی۔

(5)
اس واقعے میں حضرت عبد اللہ بن حرام رضی اللہ عنہ کے جنتی اور بلند درجات کا حامل ہونے کی بشارت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2800   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث190  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن عمرو بن حرام غزوہ احد کے دن قتل کر دئیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا: جابر! کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے کیا کہا ہے؟، (اور یحییٰ بن حبیب راوی نے اپنی حدیث میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جابر! میں تمہیں کیوں شکستہ دل دیکھتا ہوں؟)، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے، اور اہل و عیال اور قرض چھوڑ گئے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 190]
اردو حاشہ:
(1)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے۔
اس طرح ہر قائد اور سربراہ کو اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کی خوشی غمی کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ اپنائیت کا سلوک کرنا چاہیے۔

(2)
فوت ہونے والے کے پسماندگان کو ایسے انداز سے تسلی تشفی دینی چاہیے جس سے ان کے غم میں تخفیف ہو۔
ایسا انداز اختیار کرنے اور ایسی بات کہنے سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے اس کے غم میں اضافہ ہو اور اسے تکلیف ہو۔

(3)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ہے۔

(4)
فوت ہونے کے بعد انسان عالم آخرت میں داخل ہو جاتا ہے، اس لیے وہاں اسے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے اور اس کے دیدار کا شرف حاصل ہو سکتا ہے۔

(5)
اس حدیث سے شہداء کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔

(6)
حضرت عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ کا مقام عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے خود ان کی خواہش دریافت کی۔

(7)
شہادت کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ شہید دوبارہ اس کے حصول کے لیے دنیا میں آنے کی خواہش رکھتا ہے۔
شہید کے علاوہ کوئی اور جنتی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش نہیں رکھتا۔

(8)
فوت ہونےوالوں کا دنیا سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے اور وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے اور اس سے عقیدہ تناسخ ارواح کا بھی رد ہوتا ہے۔

(9)
شہداء کی زندگی بھی دوسرے لوگوں کی طرح برزخی زندگی ہے، دنیوی نہیں۔
اس زندگی میں وہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں جنت میں کھاتی پیتی اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں۔ (صحيح مسلم، الامارة، باب بيان ان ارواح الشهداء في الجنة، حديث: 1887)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 190   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3010  
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا: جابر! کیا بات ہے میں تجھے شکستہ دل دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد شہید کر دیئے گئے، جنگ احد میں ان کے قتل کا سانحہ پیش آیا، اور وہ بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے ملاقات کے وقت کہا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر پردہ کے کلام نہیں کیا (لیکن) اس نے تمہارے باپ کو زندہ کیا، پھر ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3010]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے تم ان کو مردہ نہ سمجھو،
بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس،
روزی پاتے ہیں (آل عمران: 169)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3010   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.