أَبْوَابُ النَّوْمِ ابواب: سونے سے متعلق احکام و مسائل 133. باب فِي حَقِّ الْجِوَارِ باب: پڑوسی کے حق کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل مجھے برابر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین اور وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں (دل میں) کہنے لگا کہ وہ ضرور اسے وارث بنا دیں گے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 28 (6014)، صحیح مسلم/البر والصلة 42 (2624)، سنن الترمذی/البر والصلة 28 (1942)، سنن ابن ماجہ/الأدب 4 (3673)، (تحفة الأشراف: 17947)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/91، 125، 238) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کی تو (گھر والوں) سے کہا: کیا تم لوگوں نے میرے یہودی پڑوسی کو ہدیہ بھیجا (نہ بھیجا ہو تو بھیج دو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے: ”جبرائیل مجھے برابر پڑوسی، کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان گزرا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البر والصلة 29 (1943)، (تحفة الأشراف: 8919)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/160) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اپنے پڑوسی کی شکایت کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: ”جاؤ صبر کرو“ پھر وہ آپ کے پاس دوسری یا تیسری دفعہ آیا، تو آپ نے فرمایا: ”جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں ڈھیر کر دو“ تو اس نے اپنا سامان نکال کر راستہ میں ڈال دیا، لوگ اس سے وجہ پوچھنے لگے اور وہ پڑوسی کے متعلق لوگوں کو بتانے لگا، لوگ (سن کر) اس پر لعنت کرنے اور اسے بد دعا دینے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ایسا کرے، اس پر اس کا پڑوسی آیا اور کہنے لگا: اب آپ (گھر میں) واپس آ جائے آئندہ مجھ سے کوئی ایسی بات نہ دیکھیں گے جو آپ کو ناپسند ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14141) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت (قیامت) پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 85 (6138)، صحیح مسلم/الإیمان 19 (47)، سنن الترمذی/صفة القیامة 50 (2500)، (تحفة الأشراف: 15272)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الفتن 12 (3971)، مسند احمد (2/267، 269، 433، 463) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان دونوں میں سے پہلے کس کے ساتھ احسان کروں؟ آپ نے فرمایا: ”ان دونوں میں سے جس کا دروازہ قریب ہو اس کے ساتھ“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشفعة 3 (2259)، الھبة16 (2595)، الأدب32 (6020)، (تحفة الأشراف: 16163)، وقد أخرجہ: مسند احمد 6/175،193، 239) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|