(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة. ح حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة المعنى، عن الحكم، عن ابن ابي ليلى، قال مسدد: قال:حدثنا علي، قال:" شكت فاطمة إلى النبي صلى الله عليه وسلم ما تلقى في يدها من الرحى، فاتي بسبي فاتته تساله، فلم تره فاخبرت بذلك عائشة، فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته، فاتانا وقد اخذنا مضاجعنا فذهبنا لنقوم، فقال: على مكانكما , فجاء فقعد بيننا، حتى وجدت برد قدميه على صدري، فقال: الا ادلكما على خير مما سالتما إذا اخذتما مضاجعكما، فسبحا ثلاثا وثلاثين، واحمدا ثلاثا وثلاثين، وكبرا اربعا وثلاثين، فهو خير لكما من خادم". (مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ الْمَعْنَى، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ مُسَدَّدٌ: قَالَ:حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ:" شَكَتْ فَاطِمَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَلْقَى فِي يَدِهَا مِنَ الرَّحَى، فَأُتِيَ بِسَبْيٍ فَأَتَتْهُ تَسْأَلُهُ، فَلَمْ تَرَهُ فَأَخْبَرَتْ بِذَلِكَ عَائِشَةَ، فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، فَأَتَانَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا فَذَهَبْنَا لِنَقُومَ، فَقَالَ: عَلَى مَكَانِكُمَا , فَجَاءَ فَقَعَدَ بَيْنَنَا، حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى صَدْرِي، فَقَالَ: أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَى خَيْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَا إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا، فَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چکی پیسنے سے اپنے ہاتھ میں پہنچنے والی تکلیف کی شکایت لے کر گئیں، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی لائے گئے تو وہ آپ کے پاس لونڈی مانگنے آئیں، لیکن آپ نہ ملے تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتا کر چلی آئیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو بتایا (کہ فاطمہ آئی تھیں ایک خادمہ مانگ رہی تھیں) یہ سن کر آپ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم سونے کے لیے اپنی خواب گاہ میں لیٹ چکے تھے، ہم اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا: ”اپنی اپنی جگہ پر رہو (اٹھنا ضروری نہیں)“ چنانچہ آپ آ کر ہمارے بیچ میں بیٹھ گئے، یہاں تک کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی، آپ نے فرمایا: ”کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں جو تم نے مانگی ہے، جب تم سونے چلو تو (۳۳) بار سبحان اللہ کہو، (۳۳) بار الحمدللہ کہو، اور (۳۴) بار اللہ اکبر کہو، یہ تم دونوں کے لیے خادم سے بہتر ہے“۔
Ali said: Fatimah complained to the Prophet ﷺ of the effect of the grinding stone on her hand. Then some slaves (prisoners of war) were brought to him. So she went to him to ask for (one of) them, but she did not find him. She mentioned the matter to Aishah. When the prophet ﷺ came, she informed him. He (the prophet) visited us (Ali) when we had gone to bed, and when we were about to get up, he said: stay where you are. He then came and sat down between us (her and me), and I felt the coldness of his feet on my chest. He then said; “Let me guide to something better than what you have asked. When you go bed, say: Glory be to Allah” thirty-three times. ”Praise be to Allah” thirty-three times, and “ Allah is most Great” thirty-four times. That will be better for you than a servant.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5044
(مرفوع) حدثنا مؤمل بن هشام اليشكري، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن الجريري، عن ابي الورد بن ثمامة، قال: قال علي لابن اعبد: الا احدثك عني وعن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانت احب اهله إليه، وكانت عندي فجرت بالرحى حتى اثرت بيدها، واستقت بالقربة حتى اثرت في نحرها، وقمت البيت حتى اغبرت ثيابها، واوقدت القدر حتى دكنت ثيابها واصابها من ذلك ضر، فسمعنا ان رقيقا اتي بهم إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: لو اتيت اباك فسالتيه خادما يكفيك , فاتته فوجدت عنده حداثا فاستحيت فرجعت، فغدا علينا ونحن في لفاعنا، فجلس عند راسها فادخلت راسها في اللفاع حياء من ابيها، فقال: ما كان حاجتك امس إلى آل محمد؟ , فسكتت مرتين، فقلت: انا والله احدثك يا رسول الله، إن هذه جرت عندي بالرحى حتى اثرت في يدها، واستقت بالقربة حتى اثرت في نحرها، وكسحت البيت حتى اغبرت ثيابها، واوقدت القدر حتى دكنت ثيابها، وبلغنا انه قد اتاك رقيق او خدم، فقلت لها: سليه خادما؟ , فذكر معنى حديث الحكم واتم. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ الْيَشْكُرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْوَرْدِ بْنِ ثُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ لِابْنِ أَعْبُدَ: أَلَا أُحَدِّثُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ أَحَبَّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ، وَكَانَتْ عِنْدِي فَجَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَتْ بِيَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا، وَقَمَّتِ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، وَأَوْقَدَتِ الْقِدْرَ حَتَّى دَكِنَتْ ثِيَابُهَا وَأَصَابَهَا مِنْ ذَلِكَ ضُرٌّ، فَسَمِعْنَا أَنَّ رَقِيقًا أُتِيَ بِهِمْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: لَوْ أَتَيْتِ أَبَاكِ فَسَأَلْتِيهِ خَادِمًا يَكْفِيكِ , فَأَتَتْهُ فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ حُدَّاثًا فَاسْتَحْيَتْ فَرَجَعَتْ، فَغَدَا عَلَيْنَا وَنَحْنُ فِي لِفَاعِنَا، فَجَلَسَ عِنْدَ رَأْسِهَا فَأَدْخَلَتْ رَأْسَهَا فِي اللِّفَاعِ حَيَاءً مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ: مَا كَانَ حَاجَتُكِ أَمْسِ إِلَى آلِ مُحَمَّدٍ؟ , فَسَكَتَتْ مَرَّتَيْنِ، فَقُلْتُ: أَنَا وَاللَّهِ أُحَدِّثُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذِهِ جَرَّتْ عِنْدِي بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَتْ فِي يَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا، وَكَسَحَتِ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، وَأَوْقَدَتِ الْقِدْرَ حَتَّى دَكِنَتْ ثِيَابُهَا، وَبَلَغَنَا أَنَّهُ قَدْ أَتَاكَ رَقِيقٌ أَوْ خَدَمٌ، فَقُلْتُ لَهَا: سَلِيهِ خَادِمًا؟ , فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ الْحَكَمِ وَأَتَمَّ.
ابوسلورد بن ثمامہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابن اعبد سے کہا: کیا میں تم سے اپنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے متعلق واقعہ نہ بیان کروں، فاطمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں اور میری زوجیت میں تھیں، چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھ میں نشان پڑ گئے، مشکیں بھرتے بھرتے ان کے سینے میں نشان پڑ گئے، گھر کی صفائی کرتے کرتے ان کے کپڑے گرد آلود ہو گئے، کھانا پکاتے پکاتے کپڑے کالے ہو گئے، اس سے انہیں نقصان پہنچا (صحت متاثر ہوئی) پھر ہم نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غلام اور لونڈیاں لائی گئی ہیں، تو میں نے فاطمہ سے کہا: اگر تم اپنے والد کے پاس جاتیں اور ان سے خادم مانگتیں تو تمہاری ضرورت پوری ہو جاتی، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، لیکن وہاں لوگوں کو آپ کے پاس بیٹھے باتیں کرتے ہوئے پایا تو شرم سے بات نہ کہہ سکیں اور لوٹ آئیں، دوسرے دن صبح آپ خود ہمارے پاس تشریف لے آئے (اس وقت) ہم اپنے لحافوں میں تھے، آپ فاطمہ کے سر کے پاس بیٹھ گئے، فاطمہ نے والد سے شرم کھا کر اپنا سر لحاف میں چھپا لیا، آپ نے پوچھا: کل تم محمد کے اہل و عیال کے پاس کس ضرورت سے آئی تھیں؟ فاطمہ دو بار سن کر چپ رہیں تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کو بتاتا ہوں: انہوں نے میرے یہاں رہ کر اتنا چکی پیسی کہ ان کے ہاتھ میں گھٹا پڑ گیا، مشک ڈھو ڈھو کر لاتی رہیں یہاں تک کہ سینے پر اس کے نشان پڑ گئے، انہوں نے گھر کے جھاڑو دیئے یہاں تک کہ ان کے کپڑے گرد آلود ہو گئے، ہانڈیاں پکائیں، یہاں تک کہ کپڑے کالے ہو گئے، اور مجھے معلوم ہوا کہ آپ کے پاس غلام اور لونڈیاں آئیں ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے پاس جا کر اپنے لیے ایک خادمہ مانگ لیں، پھر راوی نے حکم والی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی اور پوری ذکر کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (2988)، (تحفة الأشراف: 10245) (ضعیف)» (اس کے راوی ابوالورد لین الحدیث ہیں، لیکن اصل واقعہ صحیح ہے)
Ali said to Ibn Abad: should I not tell you about me and about Fatimah, daughter of the Messenger of Allah ﷺ. She was dearest to him of his family. When she was with me, she pulled mill-stone which affected her hand; she carried water with the water-bag which affected the upper portion of her chest: She swept the house so much so that her clothes became dusty; and she cooked food by which her clothes became black, and it harmed her. We heard that some slaves had been brought to the prophet ﷺ. I said: if you go to your father and ask him for a servant, that will be sufficient for you. She came to him and found some people talking to him. She felt shy and returned. Next morning he visited us when we were in our quilt. He sat beside her head, and she took her head into the quilt out of shame from her father. He asked: What need had you with me, O family of Muhammad? She kept silence twice. I then said: I swear by Allah, I shall tell you. She pulls the mile-stone which has affected her hand; she carrys water with the water-bag which has affected the upper portion of her chest; she sweeps the house by which her clothes have become dusty, and she cooks food by which her clothes have become black. We were told that some slaves or servants had come to you. So I said to her; ask him for a servant. He then mentioned the rest of the tradition to the same effect as mentioned by al-Hakam rather more perfectly.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5045
اس سند سے بھی علی رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے”میں نے یہ تسبیح جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی پڑھنے میں کبھی ناغہ نہیں کیا سوائے جنگ صفین والی رات کے، مجھے اخیر رات میں یاد آئی تو میں نے اسے اسی وقت پڑھ لیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (2988)، (تحفة الأشراف: 10122) (ضعیف)» (شبث کی وجہ سے یہ روایت سنداً ضعیف ہے ورنہ اصل واقعہ صحیح ہے)
Narrated Ali ibn Abu Talib: The tradition (No 5045, about Tasbih Fatimah) has been transmitted by Ali to the same effect through a different chain of narrators. This version adds: Ali said: I did not leave them (Tasbih Fatimah) since I heard them from the Messenger of Allah ﷺ except on the night of Siffin, for I remembered them towards the end of the night and then I uttered them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5046
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن عطاء بن السائب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" خصلتان او خلتان لا يحافظ عليهما عبد مسلم إلا دخل الجنة هما يسير ومن يعمل بهما قليل: يسبح في دبر كل صلاة عشرا، ويحمد عشرا، ويكبر عشرا فذلك خمسون ومائة باللسان والف وخمس مائة في الميزان، ويكبر اربعا وثلاثين إذا اخذ مضجعه، ويحمد ثلاثا وثلاثين، ويسبح ثلاثا وثلاثين فذلك مائة باللسان والف في الميزان، فلقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يعقدها بيده، قالوا: يا رسول الله، كيف هما يسير ومن يعمل بهما قليل؟ , قال: ياتي احدكم يعني الشيطان في منامه فينومه قبل ان يقوله، وياتيه في صلاته فيذكره حاجة قبل ان يقولها". (مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" خَصْلَتَانِ أَوْ خَلَّتَانِ لَا يُحَافِظُ عَلَيْهِمَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ هُمَا يَسِيرٌ وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ: يُسَبِّحُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ عَشْرًا، وَيَحْمَدُ عَشْرًا، وَيُكَبِّرُ عَشْرًا فَذَلِكَ خَمْسُونَ وَمِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ وَخَمْسُ مِائَةٍ فِي الْمِيزَانِ، وَيُكَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ، وَيَحْمَدُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَيُسَبِّحُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ فَذَلِكَ مِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ فِي الْمِيزَانِ، فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْقِدُهَا بِيَدِهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ هُمَا يَسِيرٌ وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ؟ , قَالَ: يَأْتِي أَحَدَكُمْ يَعْنِي الشَّيْطَانَ فِي مَنَامِهِ فَيُنَوِّمُهُ قَبْلَ أَنْ يَقُولَهُ، وَيَأْتِيهِ فِي صَلَاتِهِ فَيُذَكِّرُهُ حَاجَةً قَبْلَ أَنْ يَقُولَهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو خصلتیں یا دو عادتیں ایسی ہیں جو کوئی مسلم بندہ پابندی سے انہیں (برابر) کرتا رہے گا تو وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا، یہ دونوں آسان ہیں اور ان پر عمل کرنے والے لوگ تھوڑے ہیں (۱) ہر نماز کے بعد دس بار «سبحان الله» اور دس بار «الحمد الله» اور دس بار «الله اكبر» کہنا، اس طرح یہ زبان سے دن اور رات میں ایک سو پچاس بار ہوئے، اور قیامت میں میزان میں ایک ہزار پانچ سو بار ہوں گے، (کیونکہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے) اور سونے کے وقت چونتیس بار «الله اكبر»، تینتیس بار «الحمد الله»، تینتیس بار «سبحان الله» کہنا، اس طرح یہ زبان سے کہنے میں سو بار ہوئے اور میزان میں یہ ہزار بار ہوں گے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ (کی انگلیوں) میں اسے شمار کرتے ہوئے دیکھا ہے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ دونوں کام تو آسان ہیں، پھر ان پر عمل کرنے والے تھوڑے کیسے ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا: (اس طرح کہ) تم میں ہر ایک کے پاس شیطان اس کی نیند میں آئے گا، اور ان کلمات کے کہنے سے پہلے ہی اسے سلا دے گا، ایسے ہی شیطان تمہارے نماز پڑھنے والے کے پاس نماز کی حالت میں آئے گا، اور ان کلمات کے ادا کرنے سے پہلے اسے اس کا کوئی (ضروری) کام یاد دلا دے گا، (اور وہ ان تسبیحات کو ادا کئے بغیر اٹھ کر چل دے گا)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 25 (3410)، سنن النسائی/السہو 91 (1349)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 32 (926)، (تحفة الأشراف: 8638)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/160، 205) (صحیح)»
Narrated Abdullah ibn Amr: The Prophet ﷺ said: There are two qualities or characteristics which will not be returned by any Muslim without his entering Paradise. While they are easy, those who act upon them are few. One should say: "Glory be to Allah" ten times after every prayer, "Praise be to Allah" ten times and "Allah is Most Great" ten times. That is a hundred and fifty on the tongue, but one thousand and five hundred on the scale. When he goes to bed, he should say: "Allah is Most Great" thirty-four times, "Praise be to Allah" thirty-three times, and Glory be to Allah thirty-three times, for that is a hundred on the tongue and a thousand on the scale. (He said: ) I saw the Messenger of Allah ﷺ counting them on his hand. The people asked: Messenger of Allah! How is it that while they are easy, those who act upon them are few? He replied: The Devil comes to one of you when he goes to bed and he makes him sleep, before he utters them, and he comes to him while he is engaged in prayer and calls a need to his mind before he utters them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5047
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، قال: حدثني عياش بن عقبة الحضرمي، عن الفضل بن حسن الضمري، ان ابن ام الحكم او ضباعة ابنتي الزبير حدثه، عن إحداهما، انها قالت: اصاب رسول الله سبيا، فذهبت انا واختي فاطمة بنت النبي صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فشكونا إليه ما نحن فيه، وسالناه ان يامر لنا بشيء من السبي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سبقكن يتامى بدر"، ثم ذكر قصة التسبيح، قال: على اثر كل صلاة لم يذكر النوم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ حَسَنٍ الضَّمْرِيِّ، أَنَّ ابْنَ أُمِّ الْحَكَمِ أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ إِحْدَاهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ سَبْيًا، فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي فَاطِمَةُ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ، وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْءٍ مِنَ السَّبْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَبَقَكُنَّ يَتَامَى بَدْرٍ"، ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّةَ التَّسْبِيحِ، قَالَ: عَلَى أَثَرِ كُلِّ صَلَاةٍ لَمْ يَذْكُرِ النَّوْمَ.
زبیر کی بیٹیوں ام الحکم یا ضباعہ میں سے کسی ایک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں، میری بہن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم جس محنت و مشقت سے دو چار تھے اسے ہم نے بطور شکایت آپ کے سامنے پیش کیا، ہم نے آپ سے درخواست کی کہ ہمیں قیدی دیئے جانے کا آپ حکم فرمائیں، تو آپ نے فرمایا: بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں، (وہ پہلے آئیں اور پا گئیں اب قیدی نہیں بچے) پھر آپ نے تسبیح کے واقعہ کا ذکر کیا اس میں «في كل دبر صلاة» کے بجائے «على أثر كل صلاة» کہا اور سونے کا ذکر نہیں کیا۔
Umm al-Hakam or Dubaah, daughter of al-Zubair, said: The Messenger of Allah ﷺ got some prisoners of war (slaves). I my sister and Fatimah, daughter of the prophet ﷺ, went to the prophet ﷺ. We complained to him about our condition, and asked him to command for giving us some prisoners (slaves). The Messenger of Allah ﷺ said; The orphans of Badr came before you (and took the slaves). The transmitter then mentioned the story of glorifying Allah after every prayer. He did not mention sleeping.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5048