أَبْوَابُ النَّوْمِ ابواب: سونے سے متعلق احکام و مسائل 130. باب فِي بِرِّ الْوَالِدَيْنِ باب: ماں باپ کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹا اپنے والد کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے غلام پائے پھر اسے خرید کر آزاد کر دے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/العتق 6 (1510)، (تحفة الأشراف: 12660)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البر والصلة 8 (1907)، سنن ابن ماجہ/الأدب 1 (3659)، مسند احمد (2/230، 376، 445) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ کو وہ ناپسند تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو، لیکن میں نے انکار کیا، تو عمر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے طلاق دے دو“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطلاق 13 (1189)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 36 (2088)، (تحفة الأشراف: 6701)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/20، 42، 53، 175) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنے باپ کے ساتھ، پھر جو قریبی رشتہ دار ہوں ان کے ساتھ، پھر جو اس کے بعد قریب ہوں“۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے غلام سے وہ مال مانگے، جو اس کی حاجت سے زیادہ ہو اور وہ اسے نہ دے تو قیامت کے دن اس کا وہ فاضل مال جس کے دینے سے اس نے انکار کیا ایک گنجے سانپ کی صورت میں اس کے سامنے لایا جائے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «أقرع» سے وہ سانپ مراد ہے جس کے سر کے بال زہر کی تیزی کے سبب جھڑ گئے ہوں۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البر والصلة 1 (1897)، (تحفة الأشراف: 11383)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/3، 5) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
بکر بن حارث (کلیب کے دادا) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اپنی ماں، اور اپنے باپ، اور اپنی بہن اور اپنے بھائی کے ساتھ، اور ان کے بعد اپنے غلام کے ساتھ، یہ ایک واجب حق ہے، اور ایک جوڑنے والی (رحم) قرابت داری ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15665) (ضعیف)» (اس کی سند میں کلیب کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، اور ابن حجر نے مقبول لکھا ہے، اصل حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، چاہے اس حدیث کی سند پر ضعف کا حکم ہی لگا دیا جائے، جیسا کہ شیخ ناصر نے کیا ہے) ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود، الارواء (837)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(بڑے گناہوں) میں سے ایک بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت بھیجے“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! آدمی اپنے والدین پر کیسے لعنت بھیج سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک شخص کسی شخص کے باپ پر لعنت بھیجتا ہے، تو وہ شخص (جواب میں) اس کے باپ پر لعنت بھیجتا ہے، یا ایک شخص کسی شخص کی ماں پر لعنت بھیجتا ہے تو وہ اس کے جواب میں اس کی ماں پر لعنت بھیجتا ہے“ (اس طرح وہ گویا خود ہی اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجتا ہے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 4 (5973)، صحیح مسلم/الإیمان 38 (90)، سنن الترمذی/البر والصلة 4 (1902)، (تحفة الأشراف: 8618)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/164، 195، 214، 216) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابواسید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران بنو سلمہ کا ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ کے مر جانے کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہے، ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت و اقرار کو نافذ کرنا، جو رشتے انہیں کی وجہ سے جڑتے ہیں، انہیں جوڑے رکھنا، ان کے دوستوں کی خاطر مدارات کرنا (ان حسن سلوک کی یہ مختلف صورتیں ہیں)۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأدب 2 (3664)، (تحفة الأشراف: 11197)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/497) (ضعیف)» (اس کے راوی علی بن عبید لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر والصلة 4 (2552)، (تحفة الأشراف: 7262)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البر والصلة 5 (1903) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوالطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جعرانہ میں گوشت تقسیم کرتے دیکھا، ان دنوں میں لڑکا تھا، اور اونٹ کی ہڈیاں ڈھو رہا تھا، کہ اتنے میں ایک عورت آئی، یہاں تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہو گئی، آپ نے اس کے لیے اپنی چادر بچھا دی، جس پر وہ بیٹھ گئی، ابوطفیل کہتے ہیں: میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا: یہ آپ کی رضاعی ماں ہیں، جنہوں نے آپ کو دودھ پلایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5053) (ضعیف الإسناد)» (اس میں راوی جعفر لین الحدیث، اور عمارہ مجہول الحال ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
عمر بن سائب کا بیان ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ اتنے میں آپ کے رضاعی باپ آئے، آپ نے ان کے لیے اپنے کپڑے کا ایک کونہ بچھا دیا، وہ اس پر بیٹھ گئے، پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں آپ نے ان کے لیے اپنے کپڑے کا دوسرا کنارہ بچھا دیا، وہ اس پر بیٹھ گئیں، پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ کھڑے ہو گئے اور انہیں اپنے سامنے بٹھایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19141) (ضعیف الإسناد)» (اس کی سند میں اخیر سے کم سے کم دو راوی ساقط ہیں، عمر بن سائب تبع تابعی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
|