سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
ابواب: سونے سے متعلق احکام و مسائل
(Abwab Un Noam )
130. باب فِي بِرِّ الْوَالِدَيْنِ
130. باب: ماں باپ کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کا بیان۔
Chapter: Regarding honoring one’s parents.
حدیث نمبر: 5137
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، قال: حدثني سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يجزي ولد والده إلا ان يجده مملوكا فيشتريه، فيعتقه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدَهُ إِلَّا أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ، فَيُعْتِقَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹا اپنے والد کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے غلام پائے پھر اسے خرید کر آزاد کر دے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/العتق 6 (1510)، (تحفة الأشراف: 12660)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البر والصلة 8 (1907)، سنن ابن ماجہ/الأدب 1 (3659)، مسند احمد (2/230، 376، 445) (صحیح)» ‏‏‏‏

Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: A son does not repay what he owes to his father unless he buys him and emancipates him if he finds him in slavery.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5118


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1510)

   صحيح مسلم3799عبد الرحمن بن صخرلا يجزي ولد والدا إلا أن يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه
   جامع الترمذي1906عبد الرحمن بن صخرلا يجزي ولد والدا إلا أن يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه
   سنن أبي داود5137عبد الرحمن بن صخرلا يجزي ولد والده إلا أن يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه
   سنن ابن ماجه3659عبد الرحمن بن صخرلا يجزي ولد والده إلا أن يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 5137 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5137  
فوائد ومسائل:
آذا د کرنے کے یہ معنی نہیں کے بیٹا باپ کو خریدے۔
تو اب عملاً آزاد کرنے کا اعلان کرے۔
بلکہ علمائے امت کا اجماع ہے۔
کہ باپ بیٹے کی یا بیٹا باپ کی ملکیت میں آتے ہی فوراً از خود آذاد ہو جائے گا۔
آزاد کرنے کا بیان خریدنے کی نسبت سے آیا ہے۔
اور اس عمل کو بیتے کی طرف سے باپ کے حقوق کی ادایئگی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5137   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3659  
´ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی اولاد اپنے باپ کا حق ادا نہیں کر سکتی مگر اسی صورت میں کہ وہ اپنے باپ کو غلامی کی حالت میں پائے پھر اسے خرید کر آزاد کر دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3659]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
والدین کی خدمت زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔

(2)
غلام یا لونڈی کو آزاد کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔

(3)
آزاد مرد کو اپنی لونڈی سے جو اولاد حاصل ہوتی ہے وہ آزاد ہوتی ہے جب کہ اس کی ماں لونڈی ہی رہتی ہے۔
اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ماں باپ اور اولاد سب مملوک ہوں۔
پھر آقا بیٹے کو آزاد کر دے اور اس کے ماں باپ غلام ہی رہیں۔
اس طرح کی کسی صورت میں اولاد والدین کو خرید سکتی ہے اور اولاد کی ملکیت میں آتے ہی والدین کو قانوناً آزاد قرار دے دیا جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3659   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1906  
´اولاد پر ماں باپ کے حقوق کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی لڑکا اپنے باپ کا احسان نہیں چکا سکتا ہے سوائے اس کے کہ اسے (یعنی باپ کو) غلام پائے اور خرید کر آزاد کر دے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1906]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
یہ باپ کے احسان کا بدلہ اس لیے ہے کہ غلامی کی زندگی سے کسی کو آزاد کرانا اس سے زیادہ بہترکوئی چیز نہیں ہے،
جس کے ذریعہ کوئی کسی دوسرے پر احسان کرے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1906   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.