كتاب تفريع أبواب الوتر کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل 26. باب فِي الاِسْتِغْفَارِ باب: توبہ و استغفار کا بیان۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو استغفار کرتا رہا اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا گرچہ وہ دن بھر میں ستر بار اس گناہ کو دہرائے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 107 (3559)، (تحفة الأشراف:6628) (ضعیف)» (اس کے ایک راوی مولی لا ٔبی بکر مبہم مجہول آدمی ہیں)
وضاحت: ۱؎: صغیرہ گناہوں پر اصرار سے وہ کبیرہ ہو جاتے ہیں، اور کبیرہ پر اصرار کرنے سے آدمی کفر تک پہنچ جاتا ہے، لیکن اگر ہر گناہ کے بعد صدق دل سے توبہ و استغفار کر لے اور اسے دوبارہ نہ کرنے کی پختہ نیت کرے، مگر بدقسمتی سے پھر اس میں مبتلا ہوجائے تو یہ اصرار نہ ہو گا، اس طرح اس حدیث سے استغفار کی فضیلت ثابت ہوئی۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
اغر مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے دل پر غفلت کا پردہ آ جاتا ہے، حالانکہ میں اپنے پروردگار سے ہر روز سو بار استغفار کرتا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الذکر والدعاء 12 (2702)، سنن النسائی/ فی الیوم واللیلة (442)، (تحفة الأشراف:2162)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/211، 260، 5/411) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سو بار: «رب اغفر لي وتب علي إنك أنت التواب الرحيم» ”اے میرے رب! مجھے بخش دے، میری توبہ قبول کر، تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے“ کہنے کو شمار کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 39 (3434)، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (458)، سنن ابن ماجہ/الأدب 57 (3814)، (تحفة الأشراف:8422) وقد أخرجہ: مسند احمد (2/21) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے «أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه» کہا تو اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اگرچہ وہ میدان جنگ سے بھاگ گیا ہو ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 118 (3577)، (تحفة الأشراف:3785) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جب کفار کی تعداد دوگنی سے زیادہ نہ ہو تو ان کے مقابلے سے میدان جہاد سے بھاگنا گناہ کبیرہ ہے، لیکن استغفار سے یہ گناہ بھی معاف ہو جاتا ہے، تو اور گناہوں کی معافی تو اور ہی سہل ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی استغفار کا التزام کر لے ۱؎ تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الیوم واللیلة (456)، سنن ابن ماجہ/الأدب 57 (3819)، (تحفة الأشراف:6288)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/248) (ضعیف)» (اس کے راوی حکم بن مصعب مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: استغفار یعنی اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کی پابندی وہی کرے گا جو اس سے ڈرے گا اور تقویٰ اختیار کرے گا، ارشاد باری ہے «وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبْ» ”جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جس کا وہ گمان بھی نہیں رکھتا ہو گا“۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں کہ قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سی دعا زیادہ مانگا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ یہ دعا مانگا کرتے تھے: «اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار» ”اے ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی عطا کر اور جہنم کے عذاب سے بچا لے“ (البقرہ: ۲۰۱)۔ زیاد کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: انس جب دعا کا قصد کرتے تو یہی دعا مانگتے اور جب کوئی اور دعا مانگنا چاہتے تو اسے بھی اس میں شامل کر لیتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الذکر والدعاء 7 (2690)، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 307 (1056)، (تحفة الأشراف:996، 1042)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر البقرة 36 (4522)، والدعوات 55 (6389)، مسند احمد (3/101) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ سے سچے دل سے شہادت مانگے گا، اللہ اسے شہداء کے مرتبوں تک پہنچا دے گا، اگرچہ اسے اپنے بستر پر موت آئے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 46 (1909)، سنن الترمذی/الجہاد (1653)، سنن النسائی/الجہاد 36 (3162)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 15 (2797)، (تحفة الأشراف:4655)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الجہاد 16(2451) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: میں ایسا آدمی تھا کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو جس قدر اللہ کو منظور ہوتا اتنی وہ میرے لیے نفع بخش ہوتی اور جب میں کسی صحابی سے کوئی حدیث سنتا تو میں اسے قسم دلاتا، جب وہ قسم کھا لیتا تو میں اس کی بات مان لیتا، مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سچ کہا، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو گناہ کرے پھر اچھی طرح وضو کر کے دو رکعتیں ادا کرے، پھر استغفار کرے تو اللہ اس کے گناہ معاف نہ کر دے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله *** إلى آخر الآية» ۱؎ ”جو لوگ برا کام کرتے ہیں یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں پھر اللہ کو یاد کرتے ہیں۔۔۔ آیت کے اخیر تک“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 182 (406)، وتفسیر آل عمران 4 (3006)، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (414، 415، 416)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 193 (1395)، (تحفة الأشراف:6610)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/2، 8، 9، 10) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سورة آل عمران: (۱۳۵) پوری آیت اس طرح ہے: «فاستغفروا لذنوبهم ومن يغفر الذنوب إلا الله ولم يصروا على ما فعلوا وهم يعلمون» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ”اے معاذ! قسم اللہ کی، میں تم سے محبت کرتا ہوں، قسم اللہ کی میں تم سے محبت کرتا ہوں“، پھر فرمایا: ”اے معاذ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں: ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا کبھی نہ چھوڑنا: «اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك» ”اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اپنی بہترین عبادت کے سلسلہ میں میری مدد فرما“۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے صنابحی کو اور صنابحی نے ابوعبدالرحمٰن کو اس کی وصیت کی۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/السہو60 (1304)، وعمل الیوم واللیلة 46 (109)، (تحفة الأشراف:11333)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/244، 245، 247) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں ہر نماز کے بعد معوذات پڑھا کروں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل القرآن 12 (2903)، سنن النسائی/السہو80 (1337)، (تحفة الأشراف:9940)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/155، 201) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معوذات سے مراد دو سورتیں «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» ہیں، کیونکہ جمع کا اطلاق دو پر بھی ہوتا ہے، اور ایک قول یہ ہے کہ اس میں سورہ اخلاص اور «قل يا أيها الكافرون» بھی شامل ہیں، یا تو تغلیباً انہیں معوذات کہا گیا ہے، یا ان دونوں میں بھی تعوذ کا معنی پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ دونوں سورتیں اخلاص وللہیت، شرک سے براءت، اور التجاء الی اللہ کے مفہوم پر مشتمل ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین تین بار دعا مانگنا اور تین تین بار استغفار کرنا اچھا لگتا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف:9485)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الیوم واللیلة (457)، مسند احمد (1/394، 397)، (ضعیف)» (ابو اسحاق سبیعی مدلس اور مختلط ہیں، روایت عنعنہ سے کی ہے، ان کے پوتے اسرائیل نے آپ سے اختلاط طاری ہونے کے بعد روایت کی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں چند ایسے کلمات نہ سکھاؤں جنہیں تم مصیبت کے وقت یا مصیبت میں کہا کرو «الله الله ربي لا أشرك به شيئًا» یعنی ”اللہ ہی میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ہلال، عمر بن عبدالعزیز کے غلام ہیں، اور ابن جعفر سے مراد عبداللہ بن جعفر ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/ الیوم واللیلة (647، 649، 650)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 17 (3882)، (تحفة الأشراف:15757)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/ 369) (صحیح) (الصحيحة 2755 وتراجع الألباني 119)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے تکبیر کہی اور اپنی آوازیں بلند کیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! تم کسی بہرے یا غائب کو آواز نہیں دے رہے ہو، بلکہ جسے تم پکار رہے ہو وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے ۱؎“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوموسیٰ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟“، میں نے عرض کیا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 131 (2992)، والمغازي 38 (4205)، والدعوات 50 (6384)، 66 (6409)، والقدر 7 (6610)، والتوحید 9 (7386)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء 13 (2704)، سنن الترمذی/الدعوات 3 (3374)، 58 (3461)، سنن النسائی/الیوم واللیلة (536، 537، 538)، سنن ابن ماجہ/الأدب 59 (3824)، (تحفة الأشراف:9017)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/394، 399، 400، 402، 407، 417، 418) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ اللہ رب العزت کے علم و قدرت اور سمع کی رو سے ہے، رہی اس کی ذات تو وہ عرش کے اوپر مستوی اور بلند و بالا ہے، نیز اس حدیث سے ذکر سری کی ذکر جہری پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله إن الذي تدعونه بينكم وبين أعناق ركائبكم وهو منكر
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ایک پہاڑی پر چڑھ رہے تھے، ایک شخص تھا، وہ جب بھی پہاڑی پر چڑھتا تو «لا إله إلا الله والله أكبر» پکارتا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو“۔ پھر فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:9017) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث روایت کی ہے البتہ اس میں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! اپنے اوپر آسانی کرو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1526، (تحفة الأشراف:9017) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کہے: «رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا» ”میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہوا“ تو جنت اس کے لیے واجب گئی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف:4268)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإمارة 31 (1884)، سنن النسائی/الجہاد 18 (3133) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مجھ پر ایک بار درود (صلاۃ) بھیجے گا اللہ اس پر دس رحمت نازل کرے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 17 (408)، سنن الترمذی/الصلاة 235 (الوتر 20) (485)، سنن النسائی/السہو55 (1297)، (تحفة الأشراف:13974)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/373، 375، 485)، سنن الدارمی/الرقاق 58 (2814) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کا دن تمہارے بہترین دنوں میں سے ہے، لہٰذا اس دن میرے اوپر کثرت سے درود (صلاۃ) بھیجا کرو، اس لیے کہ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ قبر میں بوسیدہ ہو چکے ہوں گے تو ہمارے درود (صلاۃ) آپ پر کیسے پیش کئے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام کے جسم حرام کر دئیے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «انظرحدیث رقم: 1047، (تحفة الأشراف:1736) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|