كتاب تفريع أبواب الوتر کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل 1. باب اسْتِحْبَابِ الْوِتْرِ باب: وتر کے مستحب ہونے کا بیان۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قرآن والو! ۱؎ وتر پڑھا کرو اس لیے کہ اللہ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 216، (453)، سنن النسائی/قیام اللیل 25 (1674)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 114 (1169)،(تحفة الأشراف:10135)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/86، 98، 100، 107، 110، 115، 120، 143، 144، 148)، سنن الدارمی/الصلاة 209 (1621) (صحیح)» (ابو اسحاق مختلط اور مدلس ہیں، اور عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یہاں اہل قرآن سے مراد قرّاء و حفاظ کی جماعت ہے نہ کہ عام مسلمان، اس سے علماء نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ وتر واجب نہیں، اگر وتر واجب ہوتی تو یہ حکم عام ہوتا، اہل قرآن (یعنی قراء و حفاظ و علماء) کے ساتھ خاص نہ ہوتا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی سے «ليس لك ولا لأصحابك» جو فرمایا وہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے، امام طیبی کے نزدیک وتر سے مراد تہجد ہے اسی لئے قراء سے خطاب فرمایا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں اتنا مزید ہے: ایک اعرابی نے کہا: آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا: یہ حکم تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے لیے نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 114 (1170)، (تحفة الأشراف:9627) (صحیح)» (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
خارجہ بن حذافہ عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”اللہ نے ایک ایسی نماز کے ذریعے تمہاری مدد کی ہے جو سرخ اونٹوں سے بھی تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اور وہ وتر ہے، اس کا وقت اس نے تمہارے لیے عشاء سے طلوع فجر تک مقرر کیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 215، الوتر 1 (452)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 114 (1168)، (تحفة الأشراف:3450)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصلاة 208 (1617) (صحیح)» (لیکن «هي خير لكم من حمر النعم» کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے، کیوں کہ اس ٹکڑے کے متابعات اور شواہد موجود نہیں ہیں، یعنی یہ حدیث خود ضعیف ہے، اس کے راوی عبد اللہ بن راشد مجہول ہیں لیکن متابعات اور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|