كتاب تفريع أبواب الوتر کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل 3. باب كَمِ الْوِتْرُ باب: وتر میں کتنی رکعت ہے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دیہات کے ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اس طرح دو دو رکعتیں ہیں اور آخر رات میں وتر ایک رکعت ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 20 (749)، سنن النسائی/ قیام اللیل 32 (1692)، (تحفة الأشراف:7267)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/40، 58، 71، 76، 79، 81، 100) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: وتر کی رکعتوں کی تعداد کے سلسلہ میں متعدد روایتیں آئی ہیں جن میں ایک رکعت سے لے کر تیرہ رکعت تک کا ذکر ہے ان روایات کو صحیح مان کر انہیں اختلاف احوال پر محمول کرنا مناسب ہو گا، اور یہ واضح رہے کہ وتر کا مطلب دن بھر کی سنن و نوافل اور تہجد (اگر پڑھتا ہے تو) کو طاق بنا دینا ہے، اب چاہے اخیر میں ایک رکعت پڑھ کر طاق بنا دے یا تین یا پانچ، اور اسی طرح طاق رکعتیں ایک ساتھ پڑھ کر، اور یہ سب صورتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، نیز یہ بھی واضح رہے کہ وتر کا لفظ تہجد کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، پانچ، سات، نو، یا تیرہ رکعت وتر کا یہی مطلب ہے، نہ کہ تہجد کے علاوہ مزید پانچ تا تیرہ وتر الگ ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وتر ہر مسلمان پر حق ہے جو پانچ پڑھنا چاہے پانچ پڑھے، جو تین پڑھنا چاہے تین پڑھے اور جو ایک پڑھنا چاہے ایک پڑھے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/قیام اللیل 34 (171)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 123 (1190)، (تحفة الأشراف:3480)، وقد أخرجہ: مسند احمد 5/418، سنن الدارمی/الصلاة 210(1626) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|