عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی استغفار کا التزام کر لے ۱؎ تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا“۔
وضاحت: ۱؎: استغفار یعنی اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کی پابندی وہی کرے گا جو اس سے ڈرے گا اور تقویٰ اختیار کرے گا، ارشاد باری ہے «وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبْ»”جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جس کا وہ گمان بھی نہیں رکھتا ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الیوم واللیلة (456)، سنن ابن ماجہ/الأدب 57 (3819)، (تحفة الأشراف:6288)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/248) (ضعیف)» (اس کے راوی حکم بن مصعب مجہول ہیں)
Narrated Abdullah ibn Abbas: The Prophet ﷺ said: If anyone continually asks pardon, Allah will appoint for him a way out of every distress, and a relief from every anxiety, and will provide for him from where he did not reckon.
USC-MSA web (English) Reference: Book 8 , Number 1513
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (3819) الحكم بن مصعب مجهول (تقريب التهذيب: 1461) وأخطأ الحاكم فصحح حديثه (4/ 262) فرده الذھبي انوار الصحيفه، صفحه نمبر 60
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1518
1518. اردو حاشیہ: یہ روایت تو سندا ضعیف ہے۔ تاہم استغفار کی اہمیت وفضیلت قرآن واحادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اس لئے استغفار کی کثرت ہر صاحب تقویٰ کا شیوہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ [وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ)[الطلاق۔ ➋ 3] جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے۔ اللہ اس کے لئے تنگی سے نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے۔ اور ایسے مقام سے رزق دیتا ہے۔جس کا اسے گمان بھی نہ ہو۔ استغفار کے ہوتے ہوئے مومن متبع سنت کو کسی دست غیب اور بدعی عمل کی حاجت نہیں۔ رزق کی تنگی دامن گیر ہو یا دنیا کے ہموم وافکار کا ہجوم تو استغفار کرے وسعت ہوجائے گی۔ اور رنج وفکر سے نجات پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ [فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا ﴿١١﴾ وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا] [نوح۔ ➓ 12] اللہ سے بخشش مانگو بے شک وہ بہت ہی بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر موسلا دھار بارشیں برسائے گا۔ (قحط تنگ دستی جاتی رہے گی اور فراخی حاصل ہوگی) اور مالوں اور اولاد سے تمہای مدد فرمائے گا۔ اور تمھیں باغات اور نہریں دے گا۔ [فوائد وحید الزمان بتصرف]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1518
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3819
´استغفار کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے استغفار کو لازم کر لیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا، اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا، اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہو گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3819]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے، تا ہم توبہ استغفار کی اہمیت و فضیلت دیگر احادیث سے مسلم ہے۔ علاوہ ازیں حضرت نوح ؑ نے اپنی قوم کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا: ﴿فَقُلتُ اسْتَغفِروا رَبَّكُم إِنَّهُ كانَ غَفّارًا يُرْسِلِ السَّماءَ عَلَيكُمْ مِدرارًا وَيُمدِدْكُم بِأَمْوالٍ وَبَنينَ وَيَجعَل لَكُم جَنّاتٍ وَيَجعَل لَكُم أَنْهَارًا﴾(نوح، 71: 10تا 12) ”اپنے رب سے بخشش مانگو (اور توبہ کرو) وہ یقیناً بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سےخوب بارش برسائے گا اور تمہیں مال اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے دریا جاری کر دے گا۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار گناہوں کی معافی کے ساتھ ساتھ دنیوی مشکلات کے حل اور دنیوی نعمتوں کے حصول کاذریعہ بھی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3819